’’ایک بار سلیم صافی میرے پروگرام میں آئے ، تو مَیں نے اُن سے کہا ’’سر! آپ اتنی کتابیں لکھ چُکے ہیں، تو مجھ پر کب کتاب لکھ رہے ہیں؟‘‘ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ جیسے ’’پاکستان اور افغانستان دونوں ہی بڑے مشکل ممالک ہیں، اسی طرح تمہیں سمجھنا بھی بہت مشکل ہے کہ تم 50 فی صد پاکستانی ، 50 فی صد افغانی ہو۔‘‘
حقیقت بھی یہی ہے کہ مَیں وہ خوش قسمت ترین بچّہ ہوں، جس کی دو مائیں (پاکستان اور افغانستان) ہیں اور مَیں دونوں ہی سے دل و جان سے محبّت کرتی ، دونوں ہی کا دکھ درد محسوس کرتی ہوں۔‘‘
یہ خیالات ہیں، پاکستان اور افغانستان کی مقبول اداکارہ ، شو میزبان نجیبہ فیض کے، جنہوں نے بچّوں کے پروگرام سے شوبز انڈسٹری میں قدم رکھا اور پھر کبھی مُڑ کر نہیں دیکھا۔ نجیبہ فیض سے متعلق سوالات کے جواب جاننے کے لیےہم سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی، اَن کہی‘‘ میں آپ کی ملاقات اُن سےکروارہے ہیں۔
س: خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں۔
ج: میرا تعلق افغانستان کے صوبے قندوز سے ہےاور ہم خاندانی طور پر تجارت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ والدین نے 80 ءکی دَہائی میں پاکستان ہجرت کی اور پشاور میں آبسے۔ والدہ کا تعلق کوئٹہ سے ہے، یوں میرا ننھیال پٹھان اور ددھیال افغانی ہے۔ ہم چار بہن بھائی ہیں اور مَیں سب سے بڑی ہوں ۔بھائی انجینئر ،ایک بہن ڈاکٹراور سب سے چھوٹی بہن انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔مَیں نے میٹرک ، انٹر نوشہرہ اور اور بیچلرز خیبر پختون خوا کی عبدالولی خان یو نی وَرسٹی سے کیا۔
س: بچپن کیسا گزرا؟
ج: ویسے تو میرے دوست کہتے ہیں کہ میرا بچپن ختم ہی نہیں ہوا کہ مَیں آج بھی بے حد شرارتی، چُلبلی اور چنچل ہوںاور یہ حقیقت بھی ہے کہ مجھے ایک جگہ ٹِک کر بیٹھنا اُس وقت پسند تھا، نہ آج۔ اسی طرح شرارتوں میں بھی میرا کوئی ثانی نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ مَیں صبح دیر سے سوکر اُٹھتی تھی اور چوں کہ اسکول میں پروکٹر تھی، تو اسمبلی سے پہلے پہنچنا پڑتا تھا۔ لہٰذا اکثر و بیش تر ناشتا کیے بنا ہی اسکول جانا پڑتا ، تو مَیں نرسری کے بچّوں کے لنچ باکسز میں سے تھوڑا تھوڑا لنچ کھا لیتی تھی ۔ پھر ایک دن میری یہ چوری پکڑی گئی ، جس پر مَیں آج تک شرمندہ ہوں۔
پر وہ کیا ہے ناں کہ بچپن تو ہوتا ہی شرارتیں کرنے کے لیے ہے۔نیز، میرا بچپن اس حوالے سے بھی دوسرے بچّوں سے الگ ہے کہ میرا تعلق افغان اور پشتون دونوں خاندانوں سے ہے، تو سب ہی جانتے ہیں کہ پٹھانوںمیں لڑکوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، مگر میرے والدین کی پہلی اولاد(یعنی مَیں)لڑکی تھی، تو مجھے ایک طویل عرصے تک لڑکوں ہی کی طرح کپڑے پہنائے گئے، ہیئر اسٹائل بھی لڑکوںوالا تھا ،یوں میری پسند، شوق بھی لڑکوں والے ہوگئے۔ پھرجب میری چھوٹی بہن پیدا ہوئی، تب کہیں جا کر مجھے بھی لڑکیوں کی طرح ٹریٹ کرنا شروع کیا گیا۔
اسی طرح جب اسکول میں لڑکے کرکٹ کھیلتے تھے ،تو مَیں ان سے کہتی کہ ’’مجھے بھی کھیل میں شامل کرو‘‘، جس پر وہ جواب دیتے کہ ’’تم تو لڑکی ہو اور لڑکیاں کرکٹ نہیں کھیلتیں، جاؤ اپنی سہیلیوں کے ساتھ باتیں کرو۔‘‘ مگر مجھے ایک کونے میں بیٹھ کر باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا تھا، تو جب لڑکے کھیلتے تو مَیں بال باؤنڈری سے باہر جانے کی منتظر رہتی اور جلدی سے لپک کر بال پکڑ لیتی، پھر جب واپس کرنے کی باری آتی تو کہتی ’’ایک ہی شرط پر بال واپس ملے گی کہ پہلے مجھے بھی کھیل میں شامل کرو۔‘‘
علاوہ ازیں، مَیں اس حوالے سے خود کو خوش قسمت ترین سمجھتی ہوں کہ مَیں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہوں، جس نے جو چاہا ،وہ کیا۔ ایک افغان اور پشتون لڑکی کے لیے شو بز انڈسٹری میں آنا کسی طور آسان نہیں ہو سکتا، لیکن میرے والدین ، بالخصوص والد نے بھر پور ساتھ دیا۔کیریئر کے ابتدائی دِنوں میں تو وہ ہر شُوٹ پر میرے ساتھ جاتے تھے، ہر قدم پر میری مضبوط ڈھال بنے رہے۔
س: فیلڈ میں کب آمد ہوئی، پہلی کمائی کتنی تھی؟
ج: مجھے ٹھیک طرح یاد نہیں، لیکن شاید مَیں تین، چار برس کی تھی، جب پہلی بار ٹی وی شو میں آئی۔ میرا پہلا سیریل ’’دل رُبا ‘‘ کے نام سے پی ٹی وی پر نشر ہوا، جس سے مجھے پہچان ملی۔ در اصل واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے اسکول کو پی ٹی وی کے ایک بچّوں کے پروگرام میں شرکت کی دعوت ملی تھی، تو اس طرح مَیں پہلی بار ٹی وی اسٹیشن گئی اوربہت مزہ آیا ۔ چوں کہ مَیں بہت چھوٹی تھی اور سمجھ بھی نہیں تھی، تو ایک دو شوز کے بعد جب جانا بند ہوگیا، تو مَیں نے رونا شروع کر دیا کہ ’’اب مَیں ٹی وی پر کیوں نہیں آرہی؟‘‘ اور روتے روتے والد سے کہا کہ’’ مجھے شُوٹنگ پر جانا ہے، پروگرام میں جانا ہے‘‘تو والد نے ٹی وی اسٹیشن جا کے بات کی کہ میری بیٹی کو بھی شو میں بٹھا لیا کریں۔
خیر، مَیں بچپن ہی سے بلا کی خود اعتماد اور ذہین تھی، تو وہاں سے ہدایت کاروں کی نظروں میں آئی اور انہوں نے بچّوں کے پروگرام کی میزبانی کرنے کا موقع دیا، لیکن چوں کہ مَیں کم عُمر تھی، تو مجھ سے صحیح طرح بولا نہیں جاتا تھا، یعنی زبان صاف نہیں تھی ،اس لیے صرف ایک دو ہی پروگرامز کی میزبانی کر سکی۔ اس کے بعد جب 13، 14 سال کی ہوئی تو خبریں پڑھنے کا شوق ہوااور آڈیشنز کے لیے دوبارہ پی ٹی وی اسٹیشن گئی، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بطور ٹِین ایجر میری آواز میں پختگی نہیں تھی، تو مجھے یہ کہہ کر ریجیکٹ کر دیا گیا کہ ’’آپ کچھ برس بعد آئیے گا۔‘‘ اسی دوران ایک پشتو ڈراما نشر ہونے ولاتھا، جس میں انہیں بیس، اکّیس سال کی ایک پٹھان لڑکی چاہیے تھی، توڈراما بنانے والوں نےکہا کہ ’’ہم بچّی کا میک اَپ کرکے اسے بڑا دکھا دیں گے۔‘‘
پھر جس دن میرا پہلا ڈراما آن ایئر ہو رہا تھا، اسی دن پشتو کا پہلا چینل ، ’’خیبر‘‘بھی شروع ہو رہا تھا، تو ڈرامے کی تکمیل کے بعد مَیں نےخیبر پر شو کی میزبانی شروع کی ۔ یوں گئی تو تھی، نیوز کاسٹر بننے ، مگراداکارہ، شو ہوسٹ بن گئی۔ جہاں تک پہلی کمائی کی بات ہے، تو جس وقت پہلا شو کیا اس وقت اتنی کم سِن تھی کہ یاد بھی نہیں کہ پہلی کمائی کیا تھی۔ پھر شعیب منصور کی فلم’’خدا کے لیے‘‘ میں اداکاری کی، پی ٹی وی کےکئی اردو ڈراموں میں کام کیا اور 2011ء میں بین الاقوامی شہرت یافتہ گیم شو ’’Who wants to be a millioaire?‘‘ کی میزبانی سے افغان میڈیا میں قدم رکھا۔
یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کہ مَیں وہ پہلی خاتون اینکر ہوں جس نے افغان ٹی وی پر اپنی شرائط پر کام کیا، یعنی ان کا کلچر ہے کہ ٹی وی پر آنے والی ہر خاتون سر ڈھانپ کر آئے گی، پینٹ شرٹ نہیں پہنے گی اور نہ ہی افغانی کے علاوہ کسی اور زبان کے الفاط کا استعمال کرے گی، لیکن جب مَیں کانٹریکٹ پر دستخط کر رہی تھی، تو مَیں نے اسی وقت واضح کر دیا تھا کہ ’’ مَیں حجاب کروں گی، نہ آپ کی پسند کا لباس پہنوں گی اور چوں کہ مجھے پشتو اور انگریزی بھی بولنے کی عادت ہے تو عین ممکن ہے کہ مَیں افغانی کے ساتھ تھوڑی بہت انگریزی بھی بولوں۔‘‘
جس پر انہوں نے رضا مندی ظاہر کی اور مَیں نے اس شو کی میزبانی کی۔پھر 2012ء میں، اردو ڈراموں میں کام کرنے کی غرض سے کراچی منتقل ہوگئی اور یہاں جیو اور دیگر گروپس کے بینر تلے بننے والے ڈراموں میں کا م کیا۔ بعد ازاں، 2017ء میں تین سال کے لیے دوبارہ افغانستان گئی اور وہاں ایک انفو ٹینمنٹ شو میں کام کیا۔
س: بطور خاتون، شوبز انڈسٹری میں کن مشکلات کا سامنا کیا یا کرنا پڑتا ہے؟
ج: مَیں اس حوالے سے بڑی خوش قسمت ہوں کہ مجھے کسی بھی قِسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ بہت کم عُمری میں انڈسٹری میں قدم رکھا ، تو سب ہی جانتے تھے اور بچّوں ہی کی طرح ٹریٹ بھی کرتے ہیں۔ البتہ، ایک بات ضرور ہے کہ جب مَیں اردو ڈراموں کے لیے کراچی منتقل ہوئی، تو محسوس کیا کہ یہاں کوئٹہ ، پشاور کے اداکاروں کو ایڈ جسٹ ہونے میں تھوڑا وقت لگتا ہے، لیکن اگر آپ قابل اور باصلاحیّت ہوں، تو کراچی انڈسٹری کُھلے دل سے تسلیم کرتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ پشتو ڈراموںکے بر عکس، اردو ڈراموں کا انداز یک سر مختلف ہےکہ اردو ڈراموں میں دھیمی، جب کہ پنجابی اور پشتو ڈراموںمیں لاؤڈ اداکاری کی جاتی ہے، تو جو یہ انداز سیکھ لے اس کے لیے کام کرنا مشکل نہیں رہتا۔ اب جہاں تک بات ہےماحول کی، تو آج کے دَور میںانڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے، تو جب ارد گرد تعلیم یافتہ، با صلاحیت لوگ ہوں، تو ماحول بھی مہذّب ہی رہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ نہ صرف شو بز انڈسٹری ، بلکہ کالی بھیڑیں تو ہر جگہ، ہر خاندان ہی میں ہوتی ہیں، تو انہیں کسی خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
س: کسی بھی شعبے میں مقام بنانے کے لیے کیا چیز سب سے ضروری ہے؟
ج: شوق، تعلیم و تربیت ، جنون اور جہدِ مسلسل، لیکن کبھی کسی بھی کام یابی یا خواب کی تکمیل کے لیے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ خواہشات کی تکمیل کے لیےکبھی غلط راہ کا انتخاب نہ کریں۔
س: پڑھائی میں کیسی تھیں، کیا بچپن ہی سےاداکارہ بننا چاہتی تھیں؟
ج: میرا کلاس کے ٹاپرز میں شمار ہوتا تھا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ ہر سال ہی اوّل پوزیشن لوں، لیکن تھرڈ سے کم کبھی نہیں آئی۔ کم عُمری ہی میں قر آنِ پاک ختم کر لیا تھا اور میری ذہانت کو دیکھتے ہوئے قر آنِ پاک پڑھانے والی آپا نے ابّو کو مشورہ دیا تھا کہ ’’آپ کی بچّی بے حد ذہین ہے، اِسے حفظ کروائیں۔‘‘ویسے مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اور گھر والے بھی یہی سمجھتے تھے کہ مَیں ایم بی بی ایس کروں گی، لیکن کون جانتا تھا کہ پی ٹی وی اسٹیشن کی اسکول ٹرِپ میری قسمت ہی بدل دے گی۔
س: جب گھروالوں کو بتایا کہ شوبز انڈسٹری میں کیریئر بنانا چاہتی ہیں، تو ان کا کیا ردّ ِ عمل تھا؟
ج: (زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے)میری امّی کوئٹہ کی پٹھان ہیں، بہت سخت۔ تو جب انہیں پی ٹی وی کے ڈرامے کی آفر کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا ’’شو تک تو ٹھیک تھا، تمہاری ضد پوری کردی، لیکن فلمیں ،ڈرامے ہر گز نہیں کرنے دوں گی، لوگ ، رشتے دار کیا کہیں گے؟‘‘ احتجاجاً مَیں نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور خود کو کمرے میں بند کرلیا ، لیکن امّی کو کوئی پروا نہیں تھی کہ ان کا فیصلہ اَٹل تھا۔
پھر جب ابّو آئے، تو انہوں نے ناراضی کی وجہ پوچھی ، تو مَیں نے کہا کہ ’’ڈرامے کی شُوٹنگ سوات میں ہے، مجھے گھومنے جانا ہے، مَیں کام کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ وہ مان گئے اور اب تو یہ حال ہے کہ امّی میرے سارے شوز بہت شوق سے دیکھتی ہیں۔ گوکہ آج مَیں بہت مقبول ہوں، لیکن میرے خاندان والے آج بھی میرے کام کو سنجیدہ پروفیشن نہیں سمجھتے ، میرا موازنہ ڈاکٹر بہن سے کیا جاتا ہے۔
س: سوشل میڈیا پر بہت ایکٹیو ہیں، کئی اہم ایشوز پر سوال اُٹھاتی ہیں، طالبان حکومت پر بھی اعتراض کیا، تو کیا کبھی اس حوالے سے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: مَیں سوشل میڈیا پر بہت ایکٹیو ہوںاور افغانستان ، بالخصوص نوجوانوں سے متعلق ایشوز پر بات کرتی ہوں۔ یقین کریں،میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان ، افغانستان کے درمیان ایک پُل کا کام انجام دوںکہ میرا تعلق دونوں ہی ممالک سے ہے اور دونوں ہی جگہ میری فین فالوِنگ ہے، لیکن بد قسمتی سے لوگ میری باتوں کو توڑ مروڑ کے یا اپنی مرضی کا کلپ ایڈِٹ کرکے پوسٹ کردیتے ہیں، میرا تو بس یہی کہنا ہے کہ جو اینٹی پاکستانی ہے، وہ اینٹی نجیبہ ہوگا۔
جہاں تک طالبان کی بات ہے، تو مَیں اُن کے خلاف نہیں ہوں، لیکن جب وہ اس بار آئے تو افغانستان کی دیگر ورکنگ ویمن کی طرح مَیں بھی بہت سے خدشات کا شکار تھی کہ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں ان کا طرزِ عمل کیا رہا ہے۔ اسی لیے مَیں نے یہی کہا کہ افغانی سر زمین پر قبضہ تو کیا جا سکتا ہے، لیکن عوام کے دِلوں پر حکم رانی کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ مَیں طالبان سے یہی کہتی ہوں کہ عوام کے مسائل پر توجّہ دیں، ان کا دل جیتیں۔ اب دیکھیں کہ 70 سے زائد دن گزر چُکے ہیں اور ابھی تک افغانستان میں لڑکیوں کے اسکولز نہیں کھولے گئے، جو نا انصافی ہے۔
س: اب تک کتنے پراجیکٹس کر چُکی ہیں؟ پسندیدہ پراجیکٹ کون سا رہا ؟
ج: مَیں نے کئی پراجیکٹس جیسے، دل رُبا،شام سے پہلے، سنگِ مرمر، مَیں ٹوٹ گئی، کالا جادو( سیزن ٹو)، وَراثت ، ساون اور جیو فلمز کے بینر تلے بننے والی فلم، خدا کے لیے وغیرہ میں کام کیا ہے اور سب ہی میرے دل کے قریب ہیں۔
س: پسندیدہ فیلو آرٹسٹ کو ن ہے، نیز کس کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ابھی باقی ہے؟
ج: کسی ایک کا نام کیسے لوں کہ مَیں نے آج تک جتنے بھی لوگوں کے ساتھ کام کیا، سب ہی سے کچھ نہ کچھ سیکھا اور سب ہی اپنے کام پر عبور رکھتے ہیں۔ پسندیدہ فیلو آرٹسٹس میں نعمان اعجاز، فیصل قریشی، سکینہ سمّو، ثانیہ سعید، صبا حمیدوغیرہ شامل ہیں۔ نادیہ خان میری پسندیدہ میزبان ہیں، مگر مَیں ان سے کبھی نہیں ملی، تو ان سے ملنے کا بہت دل چاہتا ہے۔
س: کوئی آرزو ،جو پوری نہ ہوئی ہو؟
ج: معین اختر کی بہت بڑی مدّاح ہوں، آج بھی ان کے ڈرامے دیکھتی اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں، لیکن افسوس کہ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہو سکی۔ علاوہ ازیں،پاکستان اور افغانستان کے جوائنٹ وینچر میں کام کرنا چاہتی ہوں، تاکہ دونوں ممالک کے عوام قریب آسکیں اور غلط فہمیاں دُور ہو سکیں۔
س: وقت تھم سکتا تو کس لمحے کو روکنا چاہتیں؟
ج: بچپن روک لیتی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ بے فکری کا وہ زمانہ بہت جلد بِیت گیا، یہی وجہ ہے کہ مَیں نے اپنے اندر کی چھوٹی سی نجیبہ کو زندہ رکھا ہوا ہے تاکہ یہ کٹھن زندگی آسان بنی رہے۔
س: فلمز، ڈراما، ٹی وی شوز تینوں میں کام کر چُکی ہیں، پسندیدہ ترین میڈیم کون سا ہے؟
ج: ڈراما اور شو زکی میزبانی کرنا زیادہ پسند ہے کہ شوز کی وجہ سے دنیا بھر کے افغانی مجھے پہچانتے ہیں۔
س: شادی سے متعلق کیا رائے ہے؟ کب کر رہی ہیں؟ آفرز تو بہت ہوں گی؟
ج: شادی بالکل کروں گی، لیکن شادی سے بہت ڈر بھی لگتا ہےکہ واسطہ اچھے لوگوںسے نہ پڑایا شادی ناکام ہوگئی تو کیا ہوگا؟ لوگ تو یہی کہیں گے کہ شوبز انڈسٹری کی تھی، اسی لیے گھر نہیں بسا سکی۔ دَر حقیقت ، مجھے لگتا ہے کہ مَیں شادی کے بعد شوبز کو خیرباد کہہ دوں گی، ساری توجّہ اپنے شوہر اور گھر پر دوں گی، اسی لیے چاہتی ہوں کہ جس انسان کے لیے اتنے برسوں کی محنت سے قائم کردہ کیریئر چھوڑوں، تو وہ اس کے لائق بھی ہو۔ویسے فی الحال شادی کا فیصلہ قسمت پر چھوڑا ہوا ہے۔
س: فن کارہ ہونے کے ساتھ لکھاری بھی ہیں، تو اپنے اس شوق سے متعلق بھی کچھ بتائیں۔ کس زبان میں لکھتی ہیں؟
ج: میرے بہنوئی(کزن کے شوہر)صحافی اوربی بی سی سے وابستہ ہیں، تو جب مشعل خان کا واقعہ ہوااور مَیں ان سے اس بارے میں بات کر رہی تھی، تو میرے دلائل سُن کر انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم مجھے ایک کالم لکھ کر دو، مَیں اسے اپنے چینل کی ویب سائٹ پر شایع کروں گا۔
مَیں بہت ہچکچائی کہ کیسے لکھ سکتی ہوں، پر انہوں نے اصرار کیا تو مَیں نے انگریزی زبان میں کالم لکھ دیا، جسے انہوں نے پشتو میں ترجمہ کرکے شایع کیا۔اسی طرح افغانستان کے مزار شریف ملٹری کیمپ پر ہونے والےحملے پر لکھا، افغانستان میں حقوقِ نسواں پر وقتاً فوقتاً لکھتی رہتی ہوں۔
س: لکھنے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ حقوقِ نسواں کی بڑی علم بردار ہیں، تو افغانی ہوتے ہوئے ایسے بلاگز لکھنا یا ویڈیوز بنانا کچھ مشکل نہیں؟
ج: ایک کہاوت ہے کہ ’’جب کوئی عورت بولتی ہے(اپنے حق کے لیے)، تو وہ بے حیا ہے‘‘ یعنی اگر کوئی عورت اپنے حق کے لیے بات کرے، تو اسے بد کردار یا بے حیا قرار دے دیا جاتا ہے، اسی لیے مجھ پر بہت تنقید کی جاتی ہے ۔ حامد میر، سلیم صافی اور رحیم اللہ یوسف زئی (مرحوم) نے کئی مرتبہ مجھ سے کہا کہ ’’ تم صحافت کی طرف کیوں نہیں آتیں، کرنٹ افیئر شوز کیوں نہیں کرتیں کہ اتنا اچھا بولتی ہو، تمہیں اتنا علم ہے۔‘‘
س: پاکستانی فلم، ڈراما انڈسٹری میں کیا خامیاں اور خوبیاں دیکھتی ہیں؟
ج: خوبی یہ ہے کہ تجربات کرتے ہیں اور خامی یہ ہے کہ ثقافت پہ مبنی ڈرامے نہیں بناتے۔
س: وہ لڑکیاں جو شوبز میں آنا چاہتی ہیں یا کسی بھی فیلڈ میں کوئی مقام حاصل کرنا چاہتی ہیں، انہیں کیا پیغام دیں گی؟
ج: مَیں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ہمارے ہاں لڑکیاں بہت جلد شہرت کی بلندیاں چُھونا چاہتی ہیں، لیکن کام یابی حاصل کرنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ اسی لیے مَیں ہر لڑکی سے یہی کہنا چاہتی ہوں کہ چاہے کسی بھی شعبے کا انتخاب کریں، لیکن شارٹ کٹ کی کوشش نہ کریں۔