بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی
ازمنۂ قدیم سے تاحال کسی بھی دَور میں خواتین اور سولہ سنگھار کا ساتھ نہیں چُھوٹا۔ہاں، یہ ضرور ہے کہ پہلے کبھی بناؤ سنگھار کا اہتمام گھروں ہی میں کرلیا جاتا تھا یا پھر کوئی خاتون جو ذرا اس کام میں مہارت رکھتی، اُسے گھر بلوا کر اس کی خدمات حاصل کرلی جاتیں۔
حتیٰ کہ دلہن کے بناؤ سنگھار کا کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا جاتا تھا، مگر پھروقت کے ساتھ جہاں بیوٹی پارلرز، سیلونز کا رواج عام ہوا، وہیں آرائش و زیبائش کے انداز بھی بدلتے چلے گئے اور موجودہ دَور میں تو یہ انڈسٹری بہت تیزی سے فروغ پارہی ہے،جس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ لاک ڈاؤن کے دوران کئی مُمالک میں ’’موبائل بیوٹی سیلون‘‘ سروس متعارف کروائی گئی، جواب بھی اپنی خدمات پیش کررہی ہے۔
اگرچہ ہمارے یہاں یہ سروس موجود نہیں، لیکن دَورِ حاضر کے مطابق سجنے سنورنے کی تمام ترجدید سہولتیں ضرور دستیاب ہیں۔ تو، آج ہم اپنے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ میں آپ کی ملاقات معروف میک اَپ آرٹسٹ، سیّدہ ثناء نصرت سے کروارہے ہیں، جنہوں نے متعدّد بین الاقوامی معروف شہرت کے حامل میک اَپ آرٹسٹس سے تربیت حاصل کی اور بعد ازاں اپنی بہن کے ساتھ مل کر سیلون قائم کیا۔ تو لیجیے، ثناء سے ہونے والی ملاقات کا احوال پیشِ خدمت ہے۔
س: اپنے خاندان، جائے پیدایش، ابتدائی تعلیم و تربیت ،بہن بھائیوں سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: میرے والدین سیّد گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ علی گڑھ، بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے، جب کہ میری جائے پیدایش کراچی ہے۔ مَیں نےوائٹ ہائوس گرامر اسکول، کراچی سے میٹرک کیا اور میٹرک میں پورے کراچی میں میری 42ویں پوزیشن تھی، جس پر مجھے گولڈ میڈل بھی ملا۔ سینٹ جوزف کالج سے انٹرکے بعد مَیں نے جامعہ کراچی سے گریجویشن اور ہم درد یونی ورسٹی سے مارکیٹنگ میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ایم بی اے میں بھی میری پوزیشن آئی تھی۔ جہاں تک تربیت کی بات ہے، تو اس معاملے میں والدین سے زیادہ نانی نے سختی برتی۔
مَیں کلاس تھری میں تھی، تو انہوں نے مجھے سلائی، سوئیٹر بُننا، کھانا بناناحتیٰ کہ چائنیز کھانے تک سکھانے شروع کر دئیے تھے۔ نانی کا کہنا تھا کہ لڑکیاں جتنا بھی پڑھ لکھ جائیں، مگر انہیں گھر داری ضرور آنی چاہیے۔ مجھے یاد ہے، مَیں اسٹول پر کھڑے ہوکر کھانا بناتی تھی، اس کے باوجود انہوں نے کوئی رعایت نہیں برتی۔ اور آج میرے کھانے خاندان اور دوستوں میں بہت پسند کیے جاتے ہیں، بلکہ فرمائش کرکے بنوائے جاتے ہیں۔ ہم5بہن بھائی ہیں۔ سب سےبڑے بھائی ہیں، پھر میرا نمبر ہے۔ میرے بعد سارہ اور اس کے بعد دو بھائی اور ہیں۔
س: بچپن کی کچھ یادیں، باتیں شئیر کریں؟
ج: مَیں بچپن میں شرارتی ہونےسے کہیں زیادہ حسّاس تھی اور اب بھی ہوں۔ایک بات آج تک ذہن میں نقش ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایک ڈاکٹر صاحب اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے، جن سے اچھے مراسم تھے، تو اگر گھر میں کسی کی معمولی سی بھی طبیعت خراب ہوجاتی، تو مَیں بھاگ کر ڈاکٹر صاحب کو بُلا آتی۔ بار بار ایسا کرنے پر بالآخر ابّو نے ڈاکٹر صاحب سے کہہ دیا کہ’’اب ثناء کے علاوہ اگرگھر کا کوئی فرد آپ کو بلانے آئے، تو آئیں، ورنہ نہیں۔‘‘
س: آپ نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک کاسمیٹکس کمپنی سے بطور برانڈ مینجر کیا اور اب ایک معروف سیلون کی اونر ہیں، تو یہ سفر کیسے طے ہوا،کس قدر مشکلات برداشت کیں؟
ج: مَیں میک اپ آرٹسٹ نہیں تھی، مگر مجھے کاسمیٹکس سے خاصی دِل چسپی تھی، لہٰذا ماسٹرز کے بعد ایک معروف کاسمیٹکس کمپنی سے بطور برانڈ منیجر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔جہاں میرا کام پاکستانی مارکیٹ کی مناسبت سے فرینچ، اٹالین اور دیگر کاسمیٹکس برانڈز منتخب کرنا اور ان کی اسٹریٹیجی بنانا تھا۔ تین سال بعد ہی اچھی کارکردگی پر ٹریننگ ہیڈ بنادیا گیا۔ جس کے بعد مجھے مختلف مُمالک کے معروف میک اپ آرٹسٹس سے ٹریننگ کا موقع ملا اور اس کام میں مہارت حاصل ہوگئی۔
بعد ازاں، دورانِ ملازمت مَیں نے سارہ کے ساتھ ذاتی کام شروع کردیا، جس کا اس قدر اچھا ریسپانس ملا کہ دو سال بعد ہی ملازمت چھوڑدی۔ مشکلات کی بات کروں، تو ہر ایک ہی کو برداشت کرنی پڑتی ہیں، مگر شُکر ہے کہ مَیں ہر مشکل میں ثابت قدم رہی۔ ویسے مجھے جس مشکل کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ مختلف سیلونز یا پارلرز کا ہماری تربیت یافتہ لڑکیوں کو زائد تن خواہ پر ہائر کرلینا ہے۔اسی لیے اب ہم نے ٹریننگ دینی کم کردی ہے۔ پھر فیملی اور بزنس میں توازن رکھنا بھی مشکل ہے۔مگر میرا ماننا ہے کہ اگر زندگی میں مشکلات نہ ہوں، تو ہم آگے بھی نہیں بڑھ پاتے کہ جب کوئی گہرے پانی میں ڈوب رہا ہو تو ہی بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا، جدوجہد کرتا ہے۔
س: کورسز کون کون سے اور کہاں کہاں سے کیے ؟
ج: الحمد للہ، مَیں نے دُنیا بَھر کے تقریباً تمام ہی معروف میک اپ آرٹسٹس سے تربیت حاصل کی ہے۔ جیسے فرینچ میک اپ آرٹسٹ زارا کدوم، ماریو (Mario) وغیرہ سے، مگر کسی پاکستانی میک اپ آرٹسٹ سے تربیت حاصل نہیں کی۔
س: آپ کے سیلون کی کتنی برانچز ہیں اور یہاں کیا کیا سہولتیں دستیاب ہیں؟
ج: فی الحال تو دو ہی برانچز ہیں، دونوں کراچی میں ہیں۔ جلد ایک اور برانچ نارتھ ناظم آبادکے علاقے میں بھی کُھل رہی ہے۔ رہی بات سہولتوں کی، تو ہمارے سیلون میں ہر طرح کے اِسکن ٹریٹ منٹ سے لے کر میک اَپ اور بالوں کے لیے جدید ترین سروسز فراہم کی جاتی ہیں، جب کہ ہم دونوں بہنیں ہر سال بیرون مُلک جاکر اپنی فیلڈسے متعلق ری فریش کورسز بھی کرتی ہیں، تاکہ سیلون کا معیار اور کام دَورِ حاضرسے ہم آہنگ رہے۔ نیز، مستقبل میں ہمارا لاہور، اسلام آباد اور حیدرآباد میں بھی برانچز کھولنے کا ارادہ ہے۔
س: عام طور پر ڈرماٹالوجسٹ فیشلز تجویز نہیں کرتے،اس حوالے سے آپ کیا کہیں گی؟
ج: دیکھیں، فیشل ہمیشہ جِلد کی مناسبت سے کروانا چاہیے، تاکہ مضر اثرات ظاہر نہ ہوں۔ ہماری دونوں برانچز میں باقاعدہ کنسلٹنٹس موجود ہیں، جو جِلدکی مناسبت سے فیشل تجویز کرتے ہیں اور ہمارے پاس مینول سے لے کر گیلوینک فیشل (Galvanic Facial) تک کی سہولتیں دستیاب ہیں۔
س: آج کل میک اَپ اور ہیئر اسٹائل میں کیا اِن ہے؟
ج: آج کل بہت سافٹ اور Glowy میک اپ اِن ہے۔ یاد رکھیں، میک اَپ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سب کچھ ایک ساتھ چہرے پر اپلائی کرکے میک اَپ کی دکان بن جائیں۔ میک اَپ کا مقصد ہوتا ہے کہ چہرے کے جو فیچرز اچھے ہیں، اُنہیں نمایاں کیا جائے اور جو درست نہیں، انہیں ٹھیک کردیا جائے۔ بعض خواتین کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں، تو کسی کے ہونٹ چھوٹے، بڑے یا آنکھوں کی مناسبت سے نہیں ہوتے، تو جو پرابلم ایریا ہوتا ہے، اسے ٹھیک کرنا ہی میک اَپ آرٹسٹ کی مہارت ہے۔ ہیئر اسٹائل کے حوالے سے بھی مَیں یہی کہوں گی کہ ہمیشہ وہی ہیئر اسٹائل اپنائیں، جو چہرے کی مناسبت سے اچھا بھی لگے،نہ کہ 5یا10 سال بعد جب آپ اپنی تصویر دیکھیں، تو خود ڈر جائیں۔
س: اب تک کن کن اداکاراؤں کے میک اَپ کرچُکی ہیں؟
ج: اداکارائوں میں ہم عائزہ خان، منال خان، سارہ خان، سنیتا مارشل، زارا عباس، ایمن خان، نیلم منیر اور طوبیٰ عامر وغیرہ کے مختلف شوٹس کے لیے میک اَپ کرچُکےہیں۔ ویسے تو ان سب ہی کے ساتھ کام کرکے اچھا لگا، مگر سب سے زیادہ نیلم منیر، طوبیٰ عامر اور سارہ خان کے ساتھ مزہ آیا۔ویسے ہمارے سیلون میں کئی اور بھی معروف اداکارائیں آتی ہیں، جو مختلف سروسز سے مستفید ہوتی ہیں۔ جیسے سارہ خان نے اپنی شادی کی تمام سروسز یہیں سے کروائیں۔
س: کیا کچھ فیشن شوز کے لیے بھی کام کیا ہے؟
ج: جی، کچھ فیشن شوز کے لیے کام کیا تھا، مگر تجربہ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا، تو فی الحال فیشن شوز کے لیے کام نہیں کرنا۔ ویسے بھی ہمارا فوکس فیشن شوز یا میڈیا انڈسٹری میں نام کمانے سے زیادہ کلائنٹس پر ہے ،تب ہی تو اندرونِ سندھ، خصوصاً حیدرآباد، سکھر وغیرہ سے بھی لڑکیاں برائیڈل میک اَپ کروانے آتی ہیں۔
س:کسی چینل سے میک اوور وغیرہ کے لیے کوئی آفر ہوئی یا مارننگ شوز کے مقابلوں میں کبھی شرکت کی؟
ج: جی بالکل، جیو سمیت کئی چینلز کے مارننگ شوز میں شرکت کی۔ رہی بات میک اوور کی، تو آفرز تو کئی ہیں، مگر ہم اُتنا ہی کام کرنا چاہتے ہیں، جس سے معیار متاثر نہ ہو۔
س: برائیڈل میک اَپ اور منہدی وغیرہ کے چارجز بڑے شہروں میں زیادہ کیوں ہیں، حالاں کہ چھوٹے شہروں میں بھی میک اپ کے لیے معیاری کاسمیٹکس ہی کا استعمال کیا جاتا ہے؟
ج: جہاں تک مَیں سمجھتی ہوں تو چھوٹے شہروں میں لوگوں کی معاشی حالات کے پیشِ نظر چارجز کم رکھے جاتے ہیں۔ لاہور، اسلام آباد سے ہمارے پاس جو لڑکیاں، دلہن بننے آتی ہیں، تو وہ بتاتی ہیں کہ وہاں اگر سیلون اونر سے میک اَپ کروایا جائے تو ایک لاکھ روپے سے زائد چارجز بھی وصول کیے جاتے ہیں۔ کراچی میں بھی بعض پارلرزکے چارجز بہت زیادہ ہیں، البتہ ہمارا شروع ہی سے یہ ٹارگٹ رہا کہ ہم معیاری کام کے ساتھ چارجز بھی نارمل رکھیں۔
س: منہگائی کے اس دَور میں کیا متوسّط گھرانے کی لڑکیوں کے لیے کوئی سستا پیکیج بھی موجود ہے؟
ج: جی، ہمارے پاس صرف پیکیجز ہی نہیں، کئی ایسی ڈیلز بھی ہیں، جن سے متوسّط گھرانوں کی لڑکیاں باآسانی مستفید ہوسکتی ہیں۔ جب کسٹمرز بُکنگ کے لیے آتی ہیں، تو اُن کی رینج پوچھ لی جاتی ہے، جس کے مطابق اونر، ایکسپرٹ یا جونئیر میک اپ آرٹسٹ سے میک اَپ کروایا جاتا ہے اور ان تینوں کیٹیگریز میں میک اَپ کے لیے ایک ہی پراڈکٹ استعمال کی جاتی ہے، بس اِسکلز کا فرق ہے۔
س: مشرقی و مغربی میک اَپ میں کیا فرق ہے؟
ج: ہمارے یہاں کلرفُل اور ڈرامیٹک میک اَپ پسند کیا جاتا ہے۔ پہلے کبھی دلہنیں فرمایش کرتی تھیں کہ میک اپ کے ذریعے اُن کا رنگ گورا کردیا جائے،تو انہیں سمجھانا مشکل امر بن جاتا تھا، مگر اب لڑکیاں یہ بات سمجھتی ہیں کہ میک اَپ چہرے اور رنگت کی مناسبت ہی سے کیا جائے، تو جچتا ہے۔ اگرچہ مغربی میک اَپ میں بھی تمام تر کاسمیٹکس استعمال کی جاتی ہیں، مگر ان کے ذریعے فیچرز بیلنس کیے جاتے ہیں، تاکہ لُک نیچرل لگے۔
س: بڑی عُمر کی خواتین کو اینٹی ایجنگ میک اَپ کے لیے کیا مشورہ دیں گی؟
ج: اگر میک اَپ سے قبل چہرے پر اینٹی ایجنگ سیرم لگا کر5سے10منٹ کے لیے چھوڑ دیں اور اس کے بعد میک اَپ کریں، تو جِلد شاداب و تروتازہ لگے گی۔بڑی عُمر کی خواتین کو چاہیے کہ ہلکا میک اَپ کریں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں چہرے اور جِلد کی مناسبت سے کاسمیٹکس استعمال ہی نہیں کی جاتیں۔
س: بعض پیشے ایسے ہیں، جن کے لیے روزانہ کئی کئی گھنٹے میک اَپ ناگزیر ہوتا ہے، تو اس صُورت میں چہرے کی جِلد کی حفاظت کے لیے کیا کیا جائے؟
ج: اس صُورت میں اپنی جِلد کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھیں۔ رات سونے سے قبل کلینزنگ لازماً کریں، پھر سیرم لگا کر نائٹ کریم لگائیں اور آج کل تو آنکھوں کے لیے بھی سیرم دستیاب ہے۔ صُبح اُٹھنے کے بعد بھی یہی اِسکن کیئر روٹین فالو کریں، بس نائٹ کریم کی جگہ سَن بلاک کا استعمال کیا جائے۔
س: وقت کے ساتھ فیشلز کی اقسام میں بھی اضافہ ہورہا ہے، اس حوالے سے کیا مشورہ دیں گی؟
ج: اس وقت تو فرینچ برانڈز کے مشینی فیشلز اِن ہیں، جن کا رزلٹ بھی بہت اچھا ہے۔ اس کے علاوہ وائٹننگ اور اینٹی ایجنگ فیشل کی بھی کئی اقسام ہیں، لیکن فیشل وہی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے، جو اِسکن کنسلٹنٹ تجویز کرے۔
س: کیا آپ بھی دیگر بیوٹیشنز کی طرح میک اَپ کا کوئی برانڈ متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
ج:حال ہی میں ہم نے اپنے سیلون کے لیے اٹلی کی ایک معروف کاسمٹیک برانڈ کے رائٹس حاصل کیے ہیں،جو سو فی صد آرگینک برانڈ ہے۔ اس کے علاوہ ہم اگلے مہینے دسمبر میں ’’ثنا ءساراز پرفیوم‘‘ بھی متعارف کروارہے ہیں۔
س:فارمل گیدرنگز کے لیے کس طرح کے ہیئر اور میک اَپ اسٹائلز اچھے لگتے ہیں؟
ج: یہ بات گِرہ سے باندھ لیں کہ میک اَپ میں توازن لازم ہے۔اگر آپ نےآئیز میک اَپ ڈارک کیا ہے، تو لپ اسٹک ہلکے رنگ کی استعمال کریں اور اگر آئیز میک اَپ لائٹ ہے، تو لپ اسٹک کا شیڈ ڈارک رکھیں۔
س: آج کل فیشن ایبل گھرانوں میں مَردوں سے میک اَپ کروانے یا ہیئر اسٹائلنگ کو کچھ زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا، لیکن مِڈل کلاس خواتین آج بھی اسے بُرا جانتی ہیں، کیا آپ کے یہاں ان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور پارلر میں باحجاب یا پردے دار خواتین کے لیے الگ انتظام موجود ہے؟
ج: ہمارے یہاں میل ہیئر اسٹائلٹس موجود ہیں، لیکن اگر کوئی کسٹمر خود اُن سے کام کروانے کی خواہش کرے، تو ہی کروایا جاتا ہے، بصورتِ دیگر نہیں۔ اور میل ہیئر اسٹائلٹس کے کمرے بالکل الگ ہیں، وہ اُن ہی تک محدود رہتے ہیں، تاکہ باحجاب باپردے خواتین کو کوئی مسئلہ نہ ہو۔
س: اپنی نجی زندگی سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟
ج: میں بہت باتونی ہوں، جب کہ میرے شوہر بہت کم بولتے ہیں۔ ان کی اپنی ادویہ ساز کمپنی ہے، تو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ذرا کم ہی ملتا ہے۔ البتہ ہم دونوں کا تینوں بچّوں کی تربیت پر بہت فوکس ہے۔مَیں نے گھر اور بزنس دونوں میں توازن قائم رکھا ہے، اس لیے نجی زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔
س: اگر اس فیلڈ سے وابستہ نہ ہوتیں، تو…؟
ج: توپھر میرا اپنا ریستوران ہوتا کہ میرے ہاتھ کے بنائے کھانے بہت مشہور ہیں۔
س: چہرے کے نکھار کے لیے کیا ٹپس دیں گی؟
ج: زیادہ سے زیادہ پانی پئیں۔سونے سے قبل میک اَپ صاف کریں۔ اِسکن کئیر روٹین ضرور فالو کریں اور آرگینک کاسمیٹکس استعمال کریں۔
س: خواتین کو گرومنگ کے لیے کچھ آسان سے مشورے کیا دیں گی؟
ج: اس کے لیے ہمارے سیلون میں تین روزہ گرومنگ کورس کروایا جاتا ہے، جس کے چارجز 25ہزار روپے ہیں۔ اس کورس میں کسٹمرز کو بتایا جاتا ہے کہ ان پر کون سا ہیئر اسٹائل، ہیئر کلر اچھا لگے لگا۔ میک اَپ کس طرح کا جچے گا اور عموماً یہ کورس وہ لڑکیاں کرتی ہیں، جن کی عنقریب شادی ہونے والی ہوتی ہے۔