• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمّد ہمایوں ظفر

عکّاسی: محمّد اسرائیل انصاری

موسمِ سرما میں خشک میوہ جات کو قدرت کا بہترین تحفہ کہا جائے، تو غلط نہ ہوگاکہ یہ نہ صرف غذائیت بلکہ ذہنی اور جسمانی توانائی کا بھی سبب ہیں۔ سردموسم کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں بادام، پستہ، اخروٹ، کاجو، مونگ پھلی، چلغوزے، خوبانی، ناریل، کشمش، انجیر اور دیگر خشک میوہ جات کے ڈھیرنظر آنے لگتے ہیں۔ جب کہ اس موسم میں ان کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوجاتا ہے۔ گزشتہ سال کی نسبت اس برس تادمِ تحریر خشک میوہ جات کی قیمتوں میں 30 فی صد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ پچھلے برس اعلیٰ کوالٹی کے چلغوزے کی قیمت یک دم تقریباً تین ہزار روپے فی کلو اضافے کے بعد آٹھ ہزار روپے تک جا پہنچی تھی، تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ رواں برس اس کی قیمتوں میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ 

جب کہ پستہ، بادام، کاجو، کشمش، اخروٹ اور انجیر کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کراچی کے تاجر، میوہ جات کی قیمتوں میں اضافہ اور عام فرد کی پہنچ سے دُور ہونے کا سبب اس کی مانگ میں کمی اور کاروبار کی مندی بتاتے ہیں۔ بے تحاشا گرانی کے باعث جہاں گوشت، مچھلی اور دیگر موسمی پھل عوام کی پہنچ سے دُور ہوچکے، وہیں اب خشک میوہ جات بھی اُن کی دسترس سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ 

موسمِ سرما کا آغاز ہوتے ہی ملک کے بڑے شہروں میں خشک میووں کی بہار دکھائی دینے لگتی ہے۔ پستے، بادام، اخروٹ، کاجو اور کشمش سے بھرے مرتبان کی طرف دل کھنچنے لگتا ہے، مگر اُن کی قیمتیں سُن کر گویا کرنٹ سا لگتا اور چکّر آجاتے ہیں۔ قدرت کے اس بیش بہا، خوش ذائقہ اور خشک میووں کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے اور عوام کی دسترس سے دُوری کے اسباب جاننے کے لیے ہم نے شہرِ قائد، کراچی کے مختلف بازاروں کے بیوپاریوں اور خوردہ فروشوں سے تفصیلی بات چیت کی۔

کراچی میں یوں تو کم ہی سردی پڑتی ہے، مگر نومبر، دسمبر میں اس کا آغاز ہوتے ہی شہر کی مختلف بڑی دکانوں سمیت گلی محلوں کی چھوٹی دکانوں اور فٹ پاتھوں پر خشک میوہ جات کی بہار آجاتی اور اس کی فروخت شروع ہوجاتی ہے۔ کراچی کا جوڑیا بازار، ایمپریس مارکیٹ، واٹر پمپ، لیاقت آباد، ناظم آباد، قائد آباد میں اچھی خاصی خشک میوہ جات کی بہت سی چھوٹی بڑی دکانیں ہیں، مگر اچھی اور معیاری اشیاء کے حصول کے لیے عوام نے اب دیکھا دیکھی منہگے اور بڑے اسٹورز کا رخ کرنا شروع کردیا ہے، جہاں ٹھنڈے اور پُرامن ماحول میں بہ یک وقت ایک ہی جگہ ساری چیزیں مل جاتی ہیں۔ اچھی پیکنگ اور بھائو تائو سے دُور گاہک کے لیے یہ خریداری انتہائی آسان ہے۔ آج کل گلشن اقبال، کلفٹن، ڈیفینس، صدر اور دیگر پوش علاقوں کے ڈپارٹمنٹل اسٹورز میں سب کچھ بآسانی مل جاتا ہے۔ اگرچہ شہر کی دیگر دکانوں کے برعکس یہاں قیمتیں زیادہ ہیں، مگر بہترین خدمات، سیکیوریٹی انتظامات اور سب سے بڑھ کر پُرسکون ماحول میں خریداری کا الگ ہی لُطف ہے۔

ایمپریس مارکیٹ کے ہجوم سے گزرتے ہوئے جب ہم ایک بڑی دکان کے پاس پہنچے، تو وہاں خریداروں کا رش تھا، دکان کے مالک کو متوجّہ کرکے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ خشک میوہ جات کہاں سے منگواتے ہیں اور نرخ وغیرہ کیا ہیں، مگر اسے تو سر کھجانے تک کی فرصت نہیں تھی، مشکل سے ہماری بات سُن کر اُس نے اپنے بیٹے کو ہماری جانب متوجہ کیا، جس نے ہمیں بیوپاری سمجھ کر رٹے رٹائے انداز میں بتانا شروع کیا کہ ’’آپ کو اگر اچھا مال چاہیے، تو کیماڑی کے گودام میں چلے جائو، بہتر کوالٹی کا مال ملتا ہے، وہاں بڑے بڑے ڈیلرز آتے ہیں، جو منہ مانگے پیسے دے کر کنٹینر خرید لیتے ہیں، ہمارے پاس اتنا مال نہیں کہ کنٹینر خرید سکیں، کیوں کہ کنٹینر میں اچھا اور خراب ہر طرح کا مال نکلتا ہے، جس کے پاس پیسا ہے، وہ رسک لیتا ہے، ایمپریس مارکیٹ کے سب دکان دار اُن ہی سے اپنی ضرورت کے مطابق سو پچاس کارٹن خرید لیتے ہیں، زیادہ مال لینے سے اس لیے ڈرتے ہیں کہ کراچی کے موسم کا کچھ پتا نہیں ہوتا، ابھی یہی دیکھ لو کہ دسمبر کا مہینہ ہے، مگر گرمی سے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ 

عوام کو بھی جب جاڑے کے موسم میں سرد ہوا لگتی ہے، تو اپنی طلب اور ضرورت کے تحت اِدھر آتے ہیں۔‘‘ ایمپریس مارکیٹ کی دکانوں سے عام دنوں میں شادی بیاہ میں میٹھا پکانے کے لیے بھی لوگ بڑی تعداد میں خشک میوہ جات کی خریداری کرتے ہیں۔ دکان دار بھائو تائو کے دوران مختلف قیمت بتاتے ہیں، بُھنے ہوئے کاجو کی قیمت دریافت کی جائے، تو کہیں ایک کلو کے 22سو تو کہیں 26سو روپے بتائے جاتے ہیں۔ ان دنوں ایمپریس مارکیٹ میں مختلف معیار کے نمکین پستے کی قیمت 19سو سے 2600سو روپے، بادام15سو سے 17سو روپے، انجیر800سے 12سو روپے، اخروٹ 14سو، خوبانی 800 اورکشمکش 800سے ایک ہزار روپے فی کلو ہے۔ 

چلغوزے کی قیمت پوچھی، تو دکان دار نے ہماری طرف ترحم بھری نگاہوں سے دیکھا اور کہا ’’پانچ ہزار روپے کلو ہے، خریدوگے؟‘‘ کھوڑی گارڈن کی ایک تنگ گلی میں چند عمررسیدہ افغانی بوریوں کے پاس بیٹھے تھے، گفتگو کے دوران اُن میں سے ایک بزرگ امانت اللہ نے بتایا ’’ہم تو صرف چلغوزے کا کاروبار کرتے ہیں، پہلے کسی زمانے میں سستا ملتا تھا، تو ٹرک بھر کے لاتے تھے، مگر جب سے پشاور اور بنّوں کی مارکیٹوں میں منہگائی بڑھی، ہمارا کام بھی ٹھنڈا ہوگیا۔‘‘ قریب ہی کھڑے ایک شخص صابر علی نے میوہ جات کے حوالے سے ہماری گفتگو سُنی، تو بلا تمہید مخاطب ہوکر کہا ’’جناب! کراچی میں ’’چورمے‘‘ کے نام سے ایک لذیذ حلوہ بنتا تھا، جس میں خشک میووں کی بھرمار ہوتی تھی اور وہ مغزیات سے بھرپور ہوتا تھا، مگر یہ آج کی نسل کے لیے ناپید ہوگیا ہے۔ 

اُس وقت کراچی میں کڑاکے کی سردی پڑتی تھی، لحافوں میں دبک کر حلوہ کھایا جاتا تھا، جو جسم کو نہ صرف گرمائش دیتا، بلکہ صحت مند بھی رکھتا تھا۔ آج نہ تو وہ سرد ہوائیں ہیں، نہ آگ کے گرد حلقہ بنا کر قصّے کہانیاں سُنانے کا رواج۔ ان محفلوں میں پستے، بادام اس طرح کھائے جاتے تھے، جیسے رئیسوں کی محفل ہو، مگر اب تو امیر لوگ بھی مونگ پھلی ہی کھاتے دکھائی دیتے ہیں، اور وہ بھی اب گرانی کے باعث عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہے۔‘‘

برنس روڈ کی نصف صدی قدیم ایک دکان میں بیٹھے ابوبکر نامی شخص نے ہمیں بتایا کہ ’’خشک میوے کا کاروبار کرتے عرصہ بیت گیا، میرے والد بھی یہی کام کرتے تھے، جب انہوں نے میووں کا ٹھیلا لگایا، تو وہ صدر ایوب خان کا زمانہ تھا، اُس وقت کراچی کی آبادی محدود تھی، اس لیے ضرورت کی چیزیں سستی دست یاب ہوتی تھیں، ہمارا پورا ٹھیلا پانچ سو روپے کے مال سے بھر جاتا تھا۔ اب لوگوں کا معیار ِ زندگی بدل گیا ہے، قیمتی گاڑی میں سفر کرنے والے سڑک پر کھڑی ریڑھی سے میوہ لیتے شرماتے ہیں، وہ بڑے اسٹور اور شاپنگ پلازا میں جاکر خریداری کرنے کو زیادہ اچھا محسوس کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اونچی دکان میں پکوان پھیکے نہیں ہوں گے، مگر میں آپ کو بتائوں کہ آپ یہ خشک میوے چاہے جوڑیا بازار سے خریدیں یا کلفٹن سے، کوالٹی سب کی ایک ہی ہے، بس بیچنے کا انداز الگ ہے۔‘‘

ایم اے جناح روڈ کی ایک معروف دکان کے جہاں مٹھائیاں تیار کی جاتی ہیں، 70سالہ کاری گر، امتیاز عالم نے لکھنوی لہجے میں بتایا ’’اجی حضرت! اب وہ میوے کھانے والے رہے، نہ کھلانے والے، بس کاروبار رہ گیا ہے، ورنہ ایک زمانہ تھا، جب ہم بچّے تھے، تو ہماری امّاں جیبیں بھر بھر کے پستے، بادام دیتی تھیں۔ اب تو وہ وقت الف لیلوی داستان کی مانند ہوگیا ہے۔ تیس چالیس برس قبل کراچی کی قدیم آبادیوں کے باسی مجھے بلا کر ایک خاص قسم کا لڈو تیار کرواتے، اس میں مختلف قسم کے میوہ جات کے ساتھ، آٹے میں دیسی گھی، خشخش، بادام، پستے، کاجو، گڑ اور الائچی ملائے جاتے تھے۔ 

اس کی تیاری میں مقدار و تناسب کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔‘‘ بولٹن مارکیٹ کی ایک گلی میں ڈرائی فروٹ کے ایک ڈیلر، شہباز خان سے ہم نے خشک میوہ جات کے حوالے سے پوچھا، تو اس نے پشتو لہجے میں بتایا ’’آج کل کاروبار بہت مندا ہے، سیلز ٹیکس کی ادائیگی اور ڈالر کی قیمت روز بروز بڑھنے کے عمل نے ہماری کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ دبئی، امریکا وغیرہ سے آنے والا مال ہم بذریعہ ٹرانسپورٹ کراچی لاتے ہیں، مگر منہگا ہونے کی وجہ سے یہ میوہ جات لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔ میں نے تو اب پستے، بادام کا کام چھوڑ کر کشمش کا کاروبار شروع کردیا ہے، جس میں اگرچہ فائدہ کم ہے، مگر نقصان بھی نہیں ہے۔‘‘

جوڑیا بازار اور ڈینسو ہال سے متصل گلیوں میں انجیر، پستہ، کھجور، بادام، اخروٹ اور خوبانی کے مرتبان بھرے پڑے ہیں، مگر خریداروں کی کمی کے باعث دکان دار تشویش میں مبتلا ہیں۔ دکان داروں کا کہنا ہے کہ وہ مختلف ٹیکسز کی وجہ سے ان میووں کی قیمت کم کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب عوام کے لیے ان میوہ جات کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے مختلف پھل اور خشک میوہ جات بیرونِ ملک برآمد کیے جاتے ہیں، جس کی وصولی ڈالر کی صورت میں ہوتی ہے، لوگ 22سو روپے فی کلو کاجو کے بجائے بیس روپے کی مونگ پھلی گھر لے جانے میں خوش ہیں۔ تاہم، ڈھائی سو گرام مونگ پھلی کی قیمت، جو پچھلے سال 120روپے تھی، اب 180روپے میں فروخت ہورہی ہے۔ جب کہ دیگر خشک میوہ جات کی قیمتوں میں بھی گزشتہ سال کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔

البتہ صرف چلغوزے کی قیمتوں میں کچھ کمی آئی ہے۔ معیاری چلغوزے کی قیمت گزشتہ برس 7 سے 8ہزار روپے فی کلو تھی، جو کم ہوکر 5سے ساڑھے 6ہزار روپے ہوگئی۔ عالمی منڈی کے نرخوں میں بڑے پیمانے پر کمی اور درآمدات کے فروغ کے باوجود پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے صارفین کو خشک میوہ جات کی خریداری میں دشواری کا سامنا ہے۔ کراچی کے مختلف بازاروں کے دورے کے دوران دکان داروں اور بیوپاریوں نے خشک میوہ جات کی مختلف قیمتیں بتائیں۔ 

کراچی ہول سیل کی سب سے بڑی مارکیٹ، جوڑیا بازار کے ایزان عثمان، برنس روڈ کے راشد شاہد، شاہ فیصل کالونی کے عبدالمجید، لانڈھی کے عبدالاحد اور ملیرٹنکی کے کریم اللہ نے میوہ جات کی قیمتوں کے حوالے سے الگ الگ نرخ بتائے۔ تاہم، صدر ایمپریس مارکیٹ میں فٹ پاتھ پر ڈرائی فروٹ بیچنے والی خواتین میں سے ایک خاتون چندا سے نرخ دریافت کیا، تو اس نے انتہائی کم نرخ بتائے۔ اس حوالے سے موقعے پر موجود بعض افراد کا یہ کہنا تھا کہ یہ کلو کے بجائے سیر کے حساب سے اپنا مال فروخت کرتی ہیں۔ بہرحال دکانوں سے حاصل شدہ مجموعی نرخ کے مطابق، اس برس خشک میوہ جات کی قیمتیں کچھ اس طرح ہیں۔ 

امریکن بادام 15 سو اور تلواری بادام 17سو، ہندوستانی کاجو 21 سے 22سو، پستہ چھلا ہوا تین ہزار، بغیر چھلا 19سو روپے، اخروٹ چھلا ہوا 14سو، بغیر چھلا 5سو، انجیر 12سو، کشمش ساڑھے پانچ سو سے ایک ہزار روپے اور چلغوزہ ساڑھے چار ہزار سے پانچ ہزار روپے کلو تک فروخت ہورہے ہیں۔ کوالٹی اور ورائٹی کے لحاظ سے بھی ان کےالگ الگ ریٹ مقرر ہیں، مثلاً اخروٹ کی ورائٹیز میں پشاور، بنڈی، چائنا، امریکن اور چلّی شامل ہیں۔

چلغوزے عنقا ہوگئے.....

کراچی ایمپریس مارکیٹ کے دکان دار، جہاں زیب نے چلغوزے کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے اور اس کی کم یابی پر اظہار ِ خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ’’آپ چلغوزے کی بات کررہے ہیں، یہاں تو سارے میوے ہی غریب کی پہنچ سے دُور ہوتے جارہے ہیں۔ چند سال سے متواتر قیمت بڑھنے سے یہ مارکیٹ ہی سے غائب ہوگئے۔ امیروں کے لیے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر غریب اس کا ذائقہ بھی بھولتے جارہے ہیں۔‘‘ چلغوزے کی پیداوار کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’’اس کے جنگلات پاکستان کے پہاڑی علاقوں خصوصاً چترال، گلگت میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ 

چلغوزے کی پیداوار ایک مشکل عمل ہے، درخت میں لگے چلغوزے ظاہر نہیں ہوتے، یہ ناریل کی طرح ملفوف ہوتا ہے، جسے کھولا یا توڑا جائے، تو پھولوں کی طرح پنکھڑیاں کِھل اٹھتی ہیں، جن میں سے بہت سے دانے نکل آتے ہیں، انھیں ایک خاص طریقے سے اتار کر دو ہفتے تک زمین میں رکھتے ہیں، بعدازاں ایک مہینہ سُکھانے کے لیے دھوپ میں رکھا جاتا ہے۔ پھر انھیں بوریوں میں بھر کر بنّوں کی آزاد منڈی میں پہنچادیا جاتا ہے۔ منڈی میں ہر ٹھیکیدار کی اپنی بھٹّی ہوتی ہے، جہاں یہ بھونا جاتا ہے۔ شمالی علاقوں اور جہاں جہاں چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے، وہاں عام مزدوروں کا معیارِ زندگی بلند ہورہا ہے، وہ سخت محنت کے قائل ہیں، چلغوزے کی پیداوار اور طلب نے اُن کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ 

کسی زمانے میں وہ اس کی اہمیت سے آگاہ نہ تھے، مگر جوں جوں یہاں تعلیم اور ہنرمندی عام ہوئی، ان میں شعور آتا گیا۔‘‘ جہاں زیب نے چلغوزے کی قیمت کے حوالے سے بتایا کہ ’’گزشتہ سال کی نسبت اس سال اس کے نرخ میں ڈھائی سے تین ہزار روپے کمی ہوئی ہے، لیکن یہ عارضی ہے، ڈرائی فروٹ کے ریٹ بڑھتے رہے، تو اس کے ریٹ بھی بڑھ جائیں گے۔‘‘ دکان پر موجود ایک گاہک سیّد محمد محسن، جن کا تعلق کچّی آبادی محکمہ سندھ سے ہے، ہماری گفتگو سنی، تو برملا کہا ’’جناب! چلغوزہ دل کو مضبوط کرتا ہے، لیکن خریدنے سے دل کم زور ہوجاتا ہے۔‘‘

اللہ کی عطا کردہ نعمتیں ضرور کھائیں، مگر اعتدال کے ساتھ

پروٹین سے بھرپور خشک میوہ جات کے استعمال سے جہاں انسانی صحت کو فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہیں اس کے چند نقصانات بھی ہیں، جنہیں جاننے کے بعد اسے غذا کا حصّہ بنانا چاہیے۔ چلغوزے، مونگ پھلی، اخروٹ، پستہ، بادام وغیرہ میں لحمیات اورپروٹین کی کافی مقدار کے علاوہ خاصے حرارہ جات بھی ہوتے ہیں۔ وہ بچّے جو کہ پہلے ہی صحت مند اور زیادہ وزن رکھتے ہیں، انہیں خشک میوہ جات کے استعمال میں احتیاط برتنا چاہیے کہ جسم میں لحمیات کی زیادتی سے کہیں مزید نقصان نہ ہو، کیوں کہ جسم میں پروٹین کی ایک خاص مقدار کی گنجائش ہوتی ہے۔ 

ماہرین کے مطابق ایک بادام میں 10حرارے ہوتے ہیں، اسی طرح مونگ پھلی میں ایک دانے میں دس جب کہ پستے اور کشمش کے دانوں میں آٹھ سے دس حرارے ہوتے ہیں۔ تین بادام میں ایک گلاس دودھ کی قوت ہوتی ہے۔ سردی کے دنوں میں جب جسم کو زیادہ قوت اورگرم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، تو یہ خشک میوہ جات ہمیں انرجی بہم پہنچاتے ہیں۔ تاہم، گرم میوہ جات زیادہ مقدارمیں کھانے سے جِلد کی خشکی اور خارش ہوسکتی ہے۔ کشمش میں وٹامن سی کے علاوہ دوسرے وٹامنز بھی ہوتے ہیں۔ مونگ پھلی، چلغوزہ، اخروٹ وٹامنز سے بھرپور ہوتے ہیں۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ضرور کھائیں، مگر اعتدال کے ساتھ۔ بہرحال، خشک میوہ جات اپنے ذائقے اور لذت کے حوالے سے جہاں ہر عمر کے لوگوں میں پسند کیے جاتے ہیں، وہیں انھیں فائبر اور دیگر غذائی عناصر کی وجہ سے انسانی صحت کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس میں کیلوریز کی بھی بڑی مقدار پائی جاتی ہے اورخشک میوے کھانے والے امراضِ قلب سے دُور رہتے ہیں، پندرہ بیس کاجو کھانے سے ایک سو اسّی کیلوریز حاصل ہوتی ہیں، پستے نظر کی کم زوری دُور کرتے ہیں، اخروٹ دماغ کو صحت مند رکھتا ہے، فالج کے خطرات کم کرتا ہے، چلغوزے تھکاوٹ اور بے چینی بھگاتے ہیں۔

تازہ ترین