• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہالیانِ ملتان کے باکمال ہونے میں کس کو شک ہے۔ ہم تو مشورے ہی دیتے رہ جاتے ہیں، وہ کر گزرتے ہیں۔تازہ کارنامہ شہر کے جواں سال مصنف،صحافی، سیاح اور مہم جو قیصر عباس صابر نے سر انجام دیا ہے جوان تمام خوبیوں کے علاوہ معروف قانون داں بھی ہیں۔آپ کو یاد دلاتا چلوں،ڈیڑھ سال ہوئے جب دنیا کے نقشے پر ایک نئی وبا نے پنجے گاڑنے شروع کئے ۔ ایسی وبا جو پہلے کبھی دیکھی نہ سنی اور نہ پڑھی۔ کہتے ہیں کہ چین کی کسی کیمیاوی تجربہ گاہ سے جراثیم کے ایک غولِ بیابانی کو کسی طرح رہائی مل گئی۔ رہائی بھی ایسی کہ پھر اس نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا اور دانت بھینچ کر ساری دنیا پر ٹوٹ پڑا۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے کہا کہ انفلوئنزا کی ذات برادری لگتی ہے۔ مگر جب ہر چوک چوراہے پر لاشیں گرنا شروع ہوئیں یہاں تک کہ قبرستانوں میں دفنانے کو جگہ نہ رہی اور شمشان میں جلانے کو لکڑی نہ بچی تو حضرتِ انسان سوتے سے جاگے اور پوچھتے ہی رہ گئے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔

اُس وقت میں نے کہا کہ یہ تو نئی تاریخ بن رہی ہے، یہ تو نسل انسانی کی داستان میں نیا ہی منظر نامہ رقم ہورہا ہے۔ اس وقت میں نے کہا کہ لوگو، روزنامچہ لکھنے کی پرانی رسم کو زندہ کرو اور روز کہی جانے والی کہانی کو روز کے روز رقم کرو۔آنے والی نسلوں پر بعد میں چھان بین کرکے لکھنے کی ذمہ داری نہ چھوڑو۔ تاریخ لکھنے کا عمل باسی ہو جائے تو ا س سے بساند اٹھنے لگتی ہے۔ ہمارے بزرگوں کا یہ معمول تھا کہ اپنے دور کے واقعات ہاتھ کے ہاتھ لکھتے جاتے تھے، کبھی خطَوں میں تو کبھی ڈائریوں میں ۔یہ بات قیصر عباس نے گرہ سے باندھ لی۔وہ ٹھہرے بلا کے سفر نامہ نگار۔ لکھنے پر آجائیں تو کوہساروں سے نیچے نہیں اترتے اور وادیوں میں دھوم مچانے سے باز نہیں آتے۔ سفر نامہ لکھنے کے لئے لوگ لندن، پیرس، نیویارک یا پھر مکہ مدینہ جاتے ہیں۔ قیصر عباس گلگت اور ہنزہ یا اسکر دویا بلتستان سے اُدھر نہیں رکتے۔اس سے بڑا کارنامہ وہ اس کے بعد سرانجام دیتے ہیں،اپنی مہم جوئی بیان کرتے ہیں اور وہ بھی گویاشدید جاڑوں میں کسی آتش دان کے سامنے بیٹھ کر۔

اس بار قیصر عباس صابرکہیں نہیں گئے ۔پہاڑوں سے زیادہ بھاری بھرکم اور جھیلوں سے زیادہ گہری وبا خود چل کر ان کی دہلیز سے آ لگی۔وہ بھی ٹھہرے قلم کے مجاہد۔ انہوں نے کورونا نامی اس آفت کو کاغذ پر اتارا اور ہر روز بدلنے والے منظر کو کہانی کی شکل دے کر اخباری کالم میں ڈھالنا شروع کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے وقت کے بدلتے حلیے کو بھی تحریر میں ڈھالا اور جو ہوتا گیا، لکھتے گئے۔ ا س میں سیاست دانوں کی ریشہ دوانیوں سے لے کر فضا پر چھانے والی دھند تک ایک کے بعد ایک موضوع ضبط تحریر میں آتا گیا۔پھر دوسر ا بڑا کام یہ ہوا کہ قیصر عباس کی یہ تحریریں کتاب کی شکل اختیار کرکے عوام کے ہاتھوں میں آگئیں۔’کماں بدست‘ کے نام سے اس کتاب کی تعارفی تقریب ملتان کے مشہور ٹی ہاؤس میں ہونی طے پائی ہے۔

ملتان عجب سحر انگیز شہر ہے،پورا نگر جیسے کسی سے لو لگائے ہوئے ہے وہی لو جس میں حرارت بھی ہوتی ہے اور روشنی بھی ہے۔ ملتان محبت کا اور محبت کرنے والوں کا شہر ہے۔ میں بارہا وہا ں گیا، اُن دنوں بھی جب شہر میرے لئے اور میں شہر کے لئے اجنبی تھا اور اُن دنوں بھی جب شہر سے گزرتے ہوئے ذرا دیر کے لئے رُکا تو احباب نے میرے سامنے میری ہی لکھی ہوئی کتابوں کا مینار کھڑا کردیا اور کہاکہ بس ان پر اپنے دست خط کرتے جائیے۔جاتا ہوں تو احباب اپنی مصروفیات ترک کرکے مجھے لینے ہوائی اڈے آتے ہیں اور پیڑوں والی لسی سے لے کر کبھی کسی صوفی کے حلوے اور کبھی کسی قاری کے حلوے سے تواضع کرتے ہیں۔میری کبھی شام ثریا ملتانیکر کے ساتھ گزرتی ہے اور کبھی شاہدہ رسول کے ہمراہ جو اگرچہ بینائی سے محروم ہے لیکن قدرت نے ذہانت کی بیش بہا دولت دے کر ساری تلافی کردی ہے۔ پچھلے دنوں شاہدہ کا پیغام آیا تھا کہ میرا پنا گھر بن گیا ہے۔ آئندہ آپ کسی ہوٹل میں نہیں ،میرے ہاں ٹھہریں گے۔

ملتان شہر پر قدامت کا جو رنگ چھایا ہوا تھا، ہم اسی کا دم بھرتے تھے۔ اب وہاں فائیو اسٹار ہوٹل ، برگر اور پیزا نے زور پکڑا ہے۔وہ لسی والا بھی چل بسا جو یخ بستہ لوٹے میں لسی بنایا کرتا تھا اور اسی دوران کھوئے کے پیڑے گن کر نہیں، بس مٹھی بھر کر لسی میں ڈالتا تھااو ر آخر ہاتھ اونچا کرکے وہ برفانی لسی ہاتھ بھر لمبے گلاس میں بھر کر ہمیں پلاتا تھا۔ آخر میں پوچھتاکہ اور کچھ پیش کروں۔ میں ہمیشہ کہتا کہ اس کے بعد تو بس کمبل اور تکیہ۔وہی تکیہ جسے اہل پنجاب سرہانہ کہتے ہیں، اہل پنجاب کی کون کون سی ادا کی بات کہیں کہ ان کی ہر بات انوکھی اور ہرادا نرالی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین