ملک میں دسمبر اور جنوری میں گیس کی قلت سے متعلق اعداد و شمار سامنے آگئے۔
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس چیئرمین عمران خٹک کی زیر صدارت ہوا، جس میں ایم ڈی سوئی سدرن گیس نے بریفنگ دی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ دسمبرمیں گیس طلب ساڑھے 1200 اور فراہمی 1000 ایم ایم سی ایف ڈی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دسمبر میں 250 اور جنوری میں 280 ایم ایم سی ایف ڈی کی قلت ہے، وزارت سے ملنے والے لوڈ مینجمنٹ پلان پر عمل کررہے ہیں۔
اجلاس کو منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) سوئی سدرن گیس نے یہ بھی بتایا کہ کراچی میں انڈسٹری نے حکم امتناع لے لیا ہے، جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کو مکمل گیس نہیں مل پا رہی ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے اس پر ایم ڈی سوئی سدرن سے استفسار کیا کہ جب یہ سب کچھ پہلے سے علم تھا تو اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟
ارکان کمیٹی نے گیس کی قلت پر اظہار برہمی کیا اور کہا کہ ایران کے ساتھ گیس خریداری کا معاہدہ کیا لیکن اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر 15 دن بعد رد و بدل کیا جاتا ہے، اضافہ زیادہ اور کمی معمولی سی کی جاتی ہے، ایران سے سستا پٹرول اورگیس کیوں نہیں خریدی جاتی؟
اجلاس میں دی گئی بریفنگ میں حکام نے بتایا کہ ایران پر پابندیاں عائد ہیں۔
دوران اجلاس حکام نے بتایا کہ اکتوبرمیں 8 کارگوز کے ٹینڈر جاری کئے گئے مگر کوئی بولی موصول نہیں ہوئی۔
حکام نے بتایا کہ کارگوز نہ ملنے سے گیس کی قلت کا سامنا کرنا پڑا، کمپنیوں کا 12 ارب کا سرکلر ڈیٹ کھڑا ہو گیا ہے۔
اس پر ایڈیشنل سیکریٹری پٹرولیم نے کہا کہ ہمیں گیس کی جتنی ڈیمانڈ آتی ہے، اتنی ہی گیس منگوائی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں گیس اسٹوریج کی گنجائش نہیں ہے، گیس کے انڈرگراؤنڈ اسٹوریج سے متعلق اسٹڈی کرارہے ہیں۔
اجلاس کو دی گئی بریفنگ میں حکام نے بتایا کہ ملک میں 80 فیصد گیس کی پیداوار ہے، 20 فیصد گیس درآمد کی جاتی ہے۔
حکام کے مطابق کیپیٹل پاور، سیمنٹ اور سی این جی پر گیس کا کٹ لگایا ہے، پاورسیکٹر کی گیس میں بھی کمی کی جارہی ہے۔