وقت ایک ایسا پرندہ ہے جو ایک پل کے لیے بھی اپنی اُڑان نہیں روکتا اور اُڑتا چلا جاتا ہے ، اس اُڑان میں بہت کچھ پیچھے رہ جاتا ہے اور بہت کچھ نیا اس کی جگہ آجاتاہے، یہی وقت کے رنگ ڈھنگ ہیں۔ وقت کی تیز رفتاری میں2021 آخری سانس لے رہا ہے۔ اس گزرتے سال نوجوانوں پر کیا بیتی، اُنہوں نے کیا کچھ کیا؟ اُن سے کیے گئے کتنے وعدے وفا ہوئےیا وہ صرف گر میٔ گفتار اور لہجے کی مٹھاس دونوں کا صرف مزا لیتے رہے۔ نئی منزلوں کی چمک اور سہانے خوابوں کی تعبیر ملی یا اپنے خوابوں کی دہلیز پار نہ کرسکے۔ زیرِ نظرجائزہ رپورٹ میں ملاحظہ کریں۔
آرزو، اُمید، دُعا، روشنی، خواب، خیال، ہمّت حوصلہ، طاقت جوش، جذبہ، تعلیم، ہُنر اورکل… یہ وہ خوبصورت استعارے ہیں جن سے ذہن میں صرف ایک لفظ اُبھرتا ہے ’’نوجوان‘‘ پاکستان کی 60فیصد آبادی جواں سال ہے۔ 10 سے 24سال کی عمر کے ساڑھے چھ کروڑ سے زائد نوجوانوں کے ساتھ پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی نوجوان آبادی والا ملک ہے یہ نوجوان ہماری اُمید، ہماری آرزو، ہماری دُعا اور ہمارا کل، ہمارا مستقبل ہیں تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ نوجوان ذہنی، جسمانی، تعلیمی اور سماجی طور پر کتنے آسودہ اورکتنے صحت مند ہیں، پوری دُنیا میں اچھے اور تابناک مستقبل کےلئے نوجوانوں کی تعلیمی صحت اور شخصی آزادی کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ہم بھی سوچتے اور دیکھتے ہیں کہ ہمارا نوجوان سال 2021ء کے اختتام پر کہاں کھڑا ہے۔ الحمد اللہ کورونا کی وباء کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ آخرکار انسان نے اس وباء کو کسی حد تک شکست دے ہی دی، مگر اس وباء سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ ایک بہت بڑا نقصان ہمارے نوجوانوں نےاُٹھایا ہے، وہ ہے’’ تعلیمی نقصان‘‘۔ دُنیا کے نوّے فیصد طالب علموں کی تعلیمی سرگرمیاں کورونا وائرس کی وباء کی وجہ سے متاثر ہوئی ہیں۔ ان میں 75فیصد طالب علم ایسے ہیں جو بہتر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع کھو چکے ہیں۔
پاکستان میں آن لائن تدریس کا نظام اور معیار زیادہ تر خراب ہی رہا جس میں انٹرنیٹ کا سلسلہ اور اساتذہ کی عدم دلچسپی بھی وجہ بنی۔ صد شکر کہ گزرتے سال کے وسط میں تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں، مگر وہ سارے طلباءجو اسکولوں اور کالجوں کی بندش کے دوران آن لائن کلاسز اٹینڈ نہیں کر سکے، کہیں بجلی کی بندش، کہیں نیٹ کی عدم دستیابی اور کہیں لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون جیسی سہولیات کا میسر نہ ہونا تھا۔ ان طلباء کے لئے کوئی پریشان ہے…؟ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی نوعیت کو ہم ابھی سمجھنا نہیں چاہ رہے۔ یوں ہمارے طالب علم دیگر ممالک کے طالب علموں سے تعلیمی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔
ان کے مستقبل اور فنّی کیریئر بھی متاثر ہوں گے۔ طلباء کی پڑھائی کا دورانیہ بڑھا دینا چاہئے تا کہ وہ اضافی پڑھ سکیں اس طرح ان کی تعلیمی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی تک رسائی کو بھی آسان بنانا چاہئے، کورونا کی وباء میں غریب گھرانوں کے طالب علم سب سے زیادہ متاثرہوئے ہیں،نہ ان کے پا س اچھا انٹرنیٹ کنکشن تھا اور نہ وہ ٹیوشن لے سکتے تھے، تعلیمی اداروں سے ہٹ کر بھی طلباء کی فنّی تربیت کے منصوبے شروع کئے جانے چاہئیں۔
یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں شرح خواندگی صرف 60 فیصد ہے۔ پاکستان میں قریباً 2 کروڑ بائیس لاکھ بچّے اسکول نہیں جاتے۔ صوبائی سطح پر دیکھیں توبلوچستان میں 60فیصد بچّے تعلیم سے محروم ہیں۔ سندھ میں 51فیصد اور پنجاب میں 30 فیصد بچّے اسکول سے باہر ہیں۔ کے پی کے، میں یہ تناسب 45فیصد ہے۔ پاکستان کے سماجی اور معیار زندگی کی پیمائش پی ایس ایل ایم (PSLM) سروے کے مطابق گزشتہ 10 سال میں پاکستان کی شرح خواندگی جمود کا شکار ہے۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد قریباً 20فیصد اور غیرتعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد 80 فیصد ہے، جس کی وجہ سے معاشرتی ماحول میں منفی سوچ بڑھتی جا رہی ہے۔
دُنیا روبوٹک سائنس، مصنوعی ذہانت اور نینو ٹیکنالوجی اپنا رہی ہے اور 2021میں ہم یکساں نصاب تعلیم کے چکر میں پڑے رہے۔ یکساں نصاب تعلیم جس پر ملک کے تمام صوبے متفق نہیں ہیں۔ اس کا اطلاق اگست 2021ء سے ہو چکا ہے جس کا بنیادی مقصد طبقاتی فرق کو ختم کرنا ہے۔ ایسا یکساں نصاب تعلیم جس میں آکسفورڈ اور کیمبرج الگ الگ نصاب کے ذریعے تعلیم کو جاری رکھیں گے تو کیا یہ اشرافیہ اور عوام کی تقسیم نہیں ہے؟ دُوسری طرف اعلیٰ اذہان کو عام سلیبس پڑھنے پر مجبور کرنا تعلیمی جبر تو نہیں کہلائے گا۔
کیا وزراء، بیورو کریٹس اور سرکاری افسران کے بچّوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ بھی اسی یکساں تعلیمی نصاب سے تعلیم حاصل کریں۔ کیا ان کے بچّوں پر پابندی ہوگی کہ وہ باہر کے تعلیمی اداروں میں بنیادی تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے یا وہ آکسفورڈ اور کیمبرج سسٹم کی تعلیم حاصل نہیں کریں گے، کیونکہ غریب غربا کےبچّے تو آکسفورڈ یا کیمبرج سسٹم میں داخلہ حاصل کرنے کی نہ سکت رکھتے ہیں اور نہ جرأت کرسکتے ہیں۔
کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ہم یکساں نصاب کی بجائے یکساں نظام تعلیم پر زور دیتے۔یکساں نصاب انقلاب سے نہیں بلکہ ارتقاء سے ممکن ہے، جس کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یکساں نصاب نعرے سے رائج ہو جائے۔ پہلی کوشش نظام تعلیم بہتر بنانے کی ہو نی چاہئے تھی۔ کچھ ایسا خوش کن انتظام کیا جائے جس میں طالب علم ذہنی دبائو کا شکار نہ ہوں بلکہ یکسوئی اور اطمینان کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کر سکیں۔
ملک میں کچھ ایسے بھی اسکول ہیں جہاں بچّے ندی کے پانی میں سے روزانہ گزر کر اسکول پہنچتے ہیں اور کچھ ایسے لڑکیوں کے اسکول بھی ہیں جہاں واش رومز کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں نے اسکول آنا چھوڑ دیا ہے۔ کیا ہمارے نزدیک اسکول کی عمارت، فرنیچر،تعلیم اور تربیت یافتہ اساتذہ سے زیادہ یکساں نصاب کی اہمیت ہے۔ اس وقت پاکستان میں کم و بیش دو کروڑ بیس لاکھ 5 سے 16برس کے بچّے اسکول سے باہر ہیں اور ہم اپنے وسائل وقت اور سیاسی سرمایہ یکسانیت کے معاملات پر لگانے میں مصروف ہیں۔ کیا یکساں نصاب تعلیم یا کتب اور امتحانی عمل کے ذریعے ملک کے بچوں کے درمیان تفریقات میں کمی واقع ہو جائے گی؟ نہیں، کیونکہ ان تفریقات کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ ذرا سوچیے یہ دو کروڑ سے زائد بچّے اسکولوں سے باہر ہوں گے تو بڑے ہو کر صرف محنت مزدوری ہی کر سکیں گے یا اسٹریٹ چلڈرن بنیں گے۔
ضلع شہید بے نظیر آباد میں 250 اسکول بند ہیں، اساتذہ غائب ہیں، ہزاروں بچّے تعلیم سےمحروم آوارہ گردی میں مصروف ہیں۔
تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو کے گائوں رڑلی میں اسکول کی مرمت چار سال گزرنے کے باوجود گزرتے سال بھی مکمل نہیں ہو سکی ۔ اس وجہ سے 100 سے زائد بچّے 5 کلومیٹر پیدل سفر کر کے گائوں ہرگن کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ ہے کوئی پریشان ان کے لیے؟
کسی بھی ملک کو مہذب بنانے کا فارمولا بچّوں اور بچّیوں کے لئے درسگاہیں کھولنا سمجھا جاتا ہے ،جبکہ سندھ میں جہاں شرح خواندگی 51 فیصد ہے وزیر تعلیم و ثقافت نے سال2021کےآخر میں اسکولوں کو بند کرنے کی نوید سُنائی ہے اور ان اسکولوں کی عمارتوں کو کمیونٹی ویلفیئر کے استعمال میں لایا جائے گا۔5000اسکولوں میں سے 2600 اسکول پہلے مرحلے میں بند کر دیئے جائیں گے۔ ’’لطیف شناسائی جو ہفتو‘‘ کے پروگرام میں وزیر صاحب نے اسکول بند کر دینے کے اعلان کے ساتھ یہ بھی کہا کہ نوجوانوں کو شاہ لطیف بھٹائی کی شاعری کو ضرور پڑھنا اور سمجھنا چاہیے، اسکول بند ہو جانے کے بعد بغیر تعلیم کے؟ اور کیا کمیونٹی ویلفیئر تعلیم سے بڑھ کر ہے؟ کیا ہم ’’تعلیم دُشمن‘‘ لوگ ہیں؟ ہاں ہم تعلیم دُشمن لوگ ہیں۔
گوادر میں نامعلوم افراد نے گورنمنٹ ہائی اسکول گوادر کی درسی کتابیں سمندر میں پھینک دیں اور فرار ہوگئے۔ یہ کتابیں محکمۂ تعلیم کی جانب سے اسکول کے طلبہ میں مفت تقسیم ہونا تھیں۔محکمہ تعلیم نے ایکشن لیتے ہوئے اسکول کے ہیڈماسٹر کو معطل کر دیا ہے۔ یہ بھی خبر ہے کہ کراچی کے نجی اسکول میں فیس ادا نہ کئے جانے پر ایک بچّی کو ہراساں کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ والد کی مداخلت پر اس کے ساتھ بھی بدسلوکی کی گئی۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے پر کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔
ہمارے ملک میں لاتعداد مدارس ہیں، جہاں طلبہ دینی تعلیم کے ساتھ درسی کتب بھی پڑھتے ہیں۔ دینی مدرسے علم و دانش کے گہوارے ہوا کرتے تھے، مگر کس قدر شرمناک بات ہے کہ جامعہ منظورالاسلامیہ صدر لاہور کے طالب علم نے مفتی عزیزالرحمٰن کے خلاف جنسی زیادتی اور بدکاری کی ایف آئی آر درج کروائی ہے۔ مفتی صاحب گرفتار ہو چکے ہیں۔ دُوسری طرف راولپنڈی پیرودھائی کے مدرسے میں زیرتعلیم 16 سالہ طالبہ کے ساتھ زیادتی کیس میں مفتی شاہ نواز اور معاونت کرنے پر معلّمہ بھی گرفتار ہو چکی ہیں۔
تعلیم کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ہم نے اسے تباہ کرنے کا پکّا ارادہ کر لیا ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں بچوں پر بے تحاشہ ذہنی دبائو ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں 18 سالہ طالبہ نے ہوسٹل کی چھت سے کود کر خودکشی کر لی۔ وہ ٹیسٹ کی وجہ سے اسٹریس کا شکار تھی اور کلاس میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ ٹیچرز نے ہمدردی کے بجائے اس کی سرزنش کی اور طالبہ نے خودکشی میں مسئلے کا حل نکالا۔
انٹر پاس کرنے والے طالب علم جو میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں داخلے کے خواہش مند ہوتے ہیں ، Entry Test کے تکلیف دہ اور جان لیوا مرحلے سے کیسے گزرتے ہیں وہ اور ان کے والدین اچھی طرح جانتے ہیں۔ پہلے کالجوں کی فیس اور پھر کوچنگ اور ٹیوشن سینٹرز کے اخراجات، متوسط طبقہ کیا بچّوں کی اعلیٰ تعلیم کے خواب دیکھنا چھوڑ دے؟
اس وقت ملک میں 1.5ملین اسٹریٹ چلڈرن ہیں، جن کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ان بچّوں کا کوئی گھر کوئی دَر نہیں ۔ والدین کے بجائے فٹ پاتھ اور دُکانوں کے تھلّوں نے انہیں اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ وجہ وہی غربت، بھوک، جہالت اور تشدد ہے۔ کتنے ہی بچّے گھر میں بھوک اور نامساعد حالات کی وجہ سے گھر چھوڑ دیتے ہیں اور سڑکوں پر زندگی گزارتے ہوئے جسمانی اور جنسی تشدد برداشت کرتے ہیں۔ یا پھر جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ کیا ان کی فلاح کیلئے کوئی منصوبہ ہے…؟
نوجوانوں کی ذہنی صحت
اگر نوجوانوں کی صحت کی بات کریں تو کورونا سے ہٹ کر نوجوانوں کی ذہنی صحت پر بہت سے سوال اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مسلسل تعلیم اور کام سے دُور رہنے کی وجہ سے معاشرے میں منفی سوچ بڑھتی جا رہی ہے۔ وباء کی وجہ سے معاشی مسائل اور غربت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ بینک کے ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح ایک فیصد اضافے کے ساتھ 5.4 ہوگئی ہے۔ کچھ نوجوان تو معاشی حالات کی بہتری اور اپنے گھر والوں کی سہولیات کےلئے دن رات مزدوری کرتے ہیں،حتیٰ کہ کم عمر بچّے گھروں میں ملازمت ، چائے خانوں اور ورکشاپس پر مزدوری کرتے ہیں اور کچھ بھیک بھی مانگتے ہیں۔
دُوسری طرف نوجوانوں کا ایک طبقہ آوارہ گردی کرتے ہوئے مختلف جرائم پیشہ افراد کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ ان کے اندر دُرست غلط، حرام اور حلال کا احساس اور فرق ختم ہو جاتا ہے اور وہ اخلاقیات کی تمام حدود عبور کر لیتے ہیں۔ مقدس رشتوں کی بے حرمتی ان کے نزدیک کوئی گناہ نہیںرہتی۔ میں اس طرح کے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے لئے چھوٹے بچّوں، طلبہ اور طالبات اور خواتین کی بے حرمتی معمولی بات ہے۔ ان کی گفتگو کا انداز غیرشائستہ اور نامناسب ہوتا ہے۔
ایسے جوانوں کی اخلاقی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے مینارِ پاکستان جیسے سانحات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ صرف لوگوں کو گرفتار کر لینا حل نہیں۔ اس واقعے کی وجوہات پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ ایسا کیوں ہوا؟کیونکہ سارے گرفتار نوجوان آخرکار عدم ثبوت کی بناء پر رہا ہو جائیں گے ،مگر سوال اپنی جگہ موجود رہے گا…! اسی اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ میں کچھ بدبخت جوانوں کا اپنے والدین پر تشدد کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔
صدر پاکستان کے تحفظ والدین آرڈیننس2021 کے تحت کراچی میں والدین سے ناروا سلوک پر اور سوات میں والدین کو گھر سے نکالنے پر ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں۔ ادھر ملتان میں نوجوان نے باپ کو پیسے نہ دینے پر چھری کے وار سے قتل کر دیا۔ شاید سزا کے خوف سے نوجوان والدین سے ناروا سلوک نہ کریں، مگر بات پھر بھی تربیت کی ہے۔ اس پر فوکس کون کرے گا…!
خودکشی کا بڑھتا ہوا رُجحان
نوجوانوں میں خودکشی کا رُجحان بھی بڑھا۔ ذہنی ناآسودگی، جذباتی مسائل اور تعلیم کے حصول میں مشکلات، زیادہ نمبروں کے حصول کی دوڑ میں ناکام ہو جانے پر نوجوان موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ ضرورت ان کی نفسیاتی تربیت کی بھی ہے کہ، انہیں مشکل حالات کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔ انسان سازی کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
لاہور میں صرف جولائی 2021 میں مہینے میں سات خودکشیاں رپورٹ ہوئیں۔ ایک نوجوان پھندے سے جھول گیا۔ لڑکا اور لڑکی نے زہر کھا لیا۔ ایک نے خود کو گولی مار لی، ایک نہر میں کود گیا۔ ادھر سندھ خصوصاً تھر میں نوجوانوں میں خودکشی کا رُجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سال کے دوران 1200 سےز ائد افراد نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا، جس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔
منشیات کا استعمال
نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کا رُجحان بھی کافی بڑھا۔ شُنید ہے کہ منشیات کی خرید و فروخت میں حکام اور پولیس افسران کی اجازت اور نرمی بھی شامل ہے۔ پورے ملک خصوصاً اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔ اشرافیہ کے بچّے آئس، شیشہ، شراب اور ہیروئن جیسے نشے میں گرفتار ہیں تو مڈل کلاس اور غریب غرباء کے بچّے مین پوری، گٹکا، چرس اور بھنگ جیسے نشے جسے وہ نشہ سمجھتے ہی نہیں استعمال کر کے مُنہ، گلے اور چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ سندھ کے شہروں اور گرد و نواح کے گوٹھوں میں منشیات کی فروخت عروج پر ہے اور نوجوان نسل نشے کی لعنت کے باعث تباہ ہو رہی ہے۔ ہے کوئی روکنے والا…؟
ان سارے حالات میں روشنی کی ہلکی سی کرن نظر آئی جب ٹھری میرواہ فیض گنج تحصیل میں مختلف اسکولوں کےسیکڑوں طالب علموں کی جانب سے منشیات کے خاتمے کےلئے ریلی نکال کر اس بات کا ثبوت دیا کہ انہیں ابھی غلط اور دُرست کا فرق معلوم ہے اور اپنا مستقبل عزیز ہے۔ اربابِ اختیار کو سوچنا چاہئے اور ملک کے دُوسرے طالب علموں کو بھی ان کی پیروی کرنی چاہئے۔
ذہنی دباؤ کا شکار
ملک کے نوجوان ذہنی دبائو کا شکار رہے ، ان کے چہروں کی رونقیں اُجڑ چکی ہیں۔ انہوں نے ہنسنا چھوڑ دیا ۔ یہ نوجوان کم اور اسٹریس کے مریض زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کووڈ کی وجہ سے ان کی تفریح اور کھیل کے مواقع بھی کم ہوگئے تھے۔ نوجوانوں میں توانائی زیادہ ہوتی ہے اگر انہیں کھیل کود کے مواقع نہ ملیں تو یہ سڑکوں پر اسکوٹر دوڑاتے اور ون ویلنگ جیسے خطرناک کھیل کھیلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو دائو پر لگا دیتے ہیں یا پھر زندگی بھر کے لئے اَپاہج ہو کر معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ایساماضی کی طرح2021 میں بھی ہوتا رہا ہے۔
کووڈ کے دوران نوجوانوں میں موبائل کا استعمال بہت زیادہ بڑھا۔ ساتھ ہی ٹک ٹاک کی وباء بھی جس سے لڑکیوں سمیت درجنوں افراد موت کا شکار ہوگئے۔ چند ماہ کے دوران صرف کراچی میں 110 ٹک ٹاکرز جان کی بازی ہار گئے۔ پشاور ریگی میں ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے دوستوں کی فائرنگ سے 19 سالہ حافظ قرآن گولی لگنے سے جا ں بحق ہوگیا۔ اگر پورے ملک میں مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو کئی نوجوان نہروں میں اور سوئمنگ پول میں چھلانگ لگاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئے تو کبھی چلتی ٹرین کے سامنے آ کر ویڈیو بناتے ہوئے خود اپنے آپ سے جینے کا حق چھین لیا یا پھر اسلحہ اُٹھا کر فائرنگ کرتے ہوئے… غرض یہ نوجوان ٹک ٹاک ایپ پر کسی مثبت سرگرمی کے بجائے خطرات سے کھیلنے کی ویڈیو بناتے ہیں۔ حکومت پہلے بھی کئی مرتبہ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر چکی ہے، مگر پھر کچھ عرصے بعد یہ پابندی ختم ہو جاتی ہے۔ نوجوانوں یا حکومت کسی ایک کو سنجیدہ ہو جانا چاہئے۔
روشنی کی کرنیں
سارے نامساعد حالات کے باوجود سب بُرا نہیں ہے۔ روشنی کی کرنیں اب بھی موجود ہیں جو پورے منظر کو تابناک بنانے کےلئے بے قرار ہیں۔
٭…2021ء کی پہلی سہ ماہی میں زارا نعیم ڈار نے چارٹرڈ اکائونٹینسی ACCA کے مشکل ترین امتحان میں دُنیا بھر کے اُمیدواروں میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور گلوبل پرائز حاصل کر کے دُنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ 179 ممالک کے طالب علموں میں Topper ہونا یقیناً بہت بڑی کامیابی ہے۔
٭…19 سالہ کوہ پیما شہزور کا شف نے ایک سال کے دوران ایورسٹ اور کے ٹو کو سر کے دُنیا کے کم عمر ترین کوہ پیما بن کر گنیز بُک میں نام شامل کروا لیا۔ ایک سال میں دو بڑی چوٹیاں سر کرنا بڑا اعزاز ہے۔
٭…پاکستان کی ٹین ایجیر دانا نیرمبین کی ایک ایک وائرل ویڈیو شاٹ کو 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے فالو کیا جسے ایک ہندوستانی کمپوزر نے ری مکس کیا۔ اس ری مکس ویڈیو کو یو ٹیوب پر پچاس لاکھ مرتبہ دیکھا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ دانا نیر کی ویڈیو نے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔
٭…چترال کی کم عمر آئی سرجن زبیدہ سرنگ پاکستان کی پہلی نوجوان سرجن بن گئیں۔ جن کی آنکھوں کے امراض کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب کو ممتاز بُک اتھارٹی کی لسٹ میں شامل کیا گیا۔ اس کتاب کا نام’’ Optics Made Easy The Last Review of Clinical Optics ‘‘ہے۔
اس کتاب کو آج تک آنکھوں کے امراض کے بارے میں لکھی جانے والی بہترین کتاب قرار دیا گیا ہے۔
٭…عمیر مسعود جو Comcast یونیورسٹی ایبٹ آباد کے طالب علم ہیں انہوں نے جنوری 2021ء میں امریکہ کا ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ (Young Scientist Award) مالیکیولر ڈائیگنوسٹک ٹیکنیک (Molecular Diagnostic Techniques) میں کام کر کے اپنے نام کیا اور ملک کا نام روشن کیا۔
٭…علیزہ ایاز پائیدار ترقیاتی مقاصد کے لئے اقوام متحدہ کی نوجوان ایمبیسیڈر بن گئیں۔ جو ان کے Climate Action کےلئے اَن تھک کام کا اعتراف ہے۔ ملالہ یوسف زئی کے بعد علیزہ دُوسری نوجوان پاکستانی ہیں ،جنہیں اقوام متحدہ نے اپنا سفیر چُنا۔
٭…وومن پولیس آمنہ بیگ کو تبدیلی لانے کا عالمی ایوارڈ ملا ہے۔ دنمارک کے سفیر نے انہیں Integrity Icon Award دیا ہے۔
٭…کاشف علوی اپنی غیرمعمولی ذہانت کی وجہ سے پہلے ’’مختلف طور پر قابل‘‘ Differetly Abled پاکستانی ہیں جو Microsoft Certified ہیں۔
٭… سندھ کا پرکاش کمار جس کا تعلق اسلام کوٹ ڈسٹرکٹ تھرپارکر کے گائوں سے ہے ،جو ایک غریب مستری کا بیٹا ہے۔ اس نے MDCAT (میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن) کے امتحان میں پورے سندھ میں ٹاپ کیا ہے۔ 7797طلبہ میں پہلی پوزیشن لے کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے صرف محنت کی ضرورت ہے اور یہ کہ پرائیویٹ اسکول اور ٹیوشن سینٹرز میں تعلیم حاصل کئے بغیر کم وسائل کے باوجود اوّل پوزیشن حاصل کی جا سکتی ہے۔
٭…حسن علی کاسی جس کا تعلق کوئٹہ سے ہے اس نے Internationl Quran Recitation Competition جو افغانستان میں منعقد ہوا جہاں 25 سے زائد ممالک کے نوجوانوں نے حصہ لیا تھا۔ مقابلے میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی ہے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یہ کامیابیاں حاصل کرنے والے نوجوان اسی ملک کے باسی ہیں جہاں نوجوانوں کیلئے خاصی مشکلات ہیں ملکی حالات اور مسائل کو دیکھتے ہوئے نوجوانوں کو کیا کرنا چاہئے؟ صرف حالات کے بہتر ہونے کا انتظار یا پھر اپنے اُوپر بھروسہ، اپنی طاقت اور توانائی کو استعمال کرتے ہوئے تدبیر یقیناً اس تدبیر سے ہی تقدیر بدل جاتی ہے۔ طلبہ یونینز پر پابندی ہے مگر پھر بھی کوشش کرنا چاہئے کہ ہر طبقۂ فکر اور مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلبا اور طالبات ایک فورم پر جمع ہوں۔ ٍ
اپنی تنظیمیں بنائیں اس یقین کے ساتھ کہ ’’ہم کر سکتے ہیں‘‘ جہاں طالب علموں کے ساتھ ساتھ ورکشاپ پر کام کرنے والا ’’چھوٹا‘‘، چائے خانے کا ’’چھورا‘‘ گھروں میں کام کرنے والی چھوٹیاں اور چھوٹے اسٹریٹ چلڈرن حتیٰ کہ سڑک پر ہاتھ پھیلانے والے نوجوان بھکاری بھی رابطے میں ہوں۔ چاہے ان کا مذہب زبان قوم اور فرقہ کوئی بھی ہو بس ایک پاکستان بن کر ایک نصب العین کے ساتھ یکجا ہو جائیں کہ ہمیں اس وطن کو بہتر بنانا ہے اور اس کا مستقبل روشن کرنا ہے۔
آئو کہ کوئی خواب بُنیں کل کے واسطے، ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی ڈَس لے گی جان و دِل کو کچھ ایسے کہ جان و دِل تا عمر پھر نہ کوئی خواب نہ بُن سکیں ،ہمیں مل کر نوجوانوں کی فلاح، اصلاح اور تحفظ کیلئے کام کرنا ہے۔
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے کے مصداق محبت کی جستجو، علم کی خواہش اور انسانیت پر ہونے والے مظالم پر تکلیف محسوس کرے۔ اس کے لئے ہمیں تین نکات پر فوکس کرنا ہوگا۔
Educate سکھانا
Protect حفاظت
Compete مقابلہ
ایجوکیٹ کرنے کےلئے سب سے پہلے خود آگہی کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا مقصد زندگی کیا ہے؟ خود کو مہذّب بنانا اور ساتھ ہی دُنیا کے علوم سیکھنے کی کوشش کرنا اور دُوسروں کو سکھانا۔ انہیں ذہانت، اخلاقیات اور سماجی مسائل کے حل کیلئے ہدایات دینا۔ انہیں سہولت مہیا کرنا، اپنی اور اپنے دوستوں کی کردار سازی میں مدد کرنا، تحمل اور برداشت سیکھنا، لائن میں کھڑے ہونا، ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا، سلام کرنا، مسکرا کر بات کرنا، مریض کی عیادت کرنا اور مشکل میں گھرے لوگوں کی رضاکارانہ مدد کرنا۔ یہ سب جب ہی ممکن ہے جب ہم خود کو ایجوکیٹ کر لیں۔
دُوسرے نمبر پر ہے، حفاظت یا بچانا۔ یہاں بھی سب سے پہلے خود کو منفی سوچ اورمنفی کاموں سے بچانا اور مثبت سوچ اپنانا، مثبت سوچ والے انسان کے دوست احباب بھی مثبت سوچ اپنانے لگ جاتے ہیں۔ سوال اور مکالمہ کرنے کی صلاحیت حاصل کریں، ذہن کو وسعت دیں کیا سوچنا ہے کہ بجائے کس طرح سوچنا ہے پر فوکس کریں۔ جواب سیکھنے کے بجائے سوال کرنے کا حوصلہ پیدا کریں ۔
اسی طرح دوسروں کو بھی منفی سوچوں اور منفی کاموں سے بچانے کی کوشش کریں۔ اس کوشش میں منشیات، تشدد اور جنسی ہراسگی سے بچنا اور بچانا شامل ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور باقی ذرائع پر موجود غیراخلاقی مواد سے خود کو اور ساتھیوں کو بچانا بھی اسی حفاظت کا حصہ ہے۔ اس کے لئے اسکول، کالجوں، محلّے اور کمیونٹی سینٹرز میں لیکچرز کا اہتمام کرنا چاہئے، جو طالب علم مشکل یا مسائل سے دوچار ہوں ان کی مدد کرنا بھی ضروری ہے۔
اور آخر میں Compete یا مقابلہ ہے۔ اس میں سب سے پہلا مقابلہ خود اپنے آپ سے ہے۔ موجودہ حالات میں رہ کر خود اعتماد اور خود اطمینانی حاصل کرنا ہی بڑی بات ہے۔ اپنے اندر ترتیب، ترکیب اور توازن پیدا کریں، تا کہ دُنیا کے چیلنجرز کا مقابلہ کر سکیں۔ کرن کو چمکنے سے خوشبو کو پھیلنے سے اور سُورج کو اُبھرنے سے کوئی روک سکا ہے بھلا…
! تو میرے نوجوانوں کوآگے بڑھنے، کامیابیاں حاصل کرنے اور دُنیا میں چھا جانے سے کون روک سکتا ہے۔
اُجالے لوٹ آئیں گے
کہ اب کی بار ہم نے جو
چراغ شب جلایا ہے
اسے آندھی حوادث کی
بجھا سکتی نہیں ہرگز
عزائم ہیں بلند اتنے
یقین محکم بھی ایسا ہے
کہ صبح نو گلستان میں
بہاریں لے کے آئے گی
ہم ہی وہ لوگ ہیں کہ جو
کبھی مایوس نہ ہوں گے
کبھی مایوس نہ ہونا
اُجالے پھیل جائیں گے
نئی صبح بھی آئے گی
اخلاقی طور پر نوجوانوں کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار موبائل کا ہے
29نومبر2021میں القادر یونیورسٹی (جہلم )کے اکیڈمک بلاکس کی افتتاحی تقریب سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ آئندہ نسلوں کو سیرت النبیؐ اور اولیاءکرام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور کردار سازی کےلئے القادر یونیورسٹی اور رحمت اللعالمین اتھارٹی تحقیق کے اہم مراکز ہوں گے۔ قرآنی احکامات کے باوجود معاشرے میں اجتہاد سے دوری بدقسمتی ہے، اخلاقی اقدار کے حامل معاشرے کو ایٹم بم بھی تباہ نہیں کرسکتا، لیکن ہمارے نوجوان جو موبائل فون میں گم ہیں یقیناََ موبائل فون انقلاب ضرور لایا ۔
نوجوانواں کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار بھی موبائل فون کا ہی ہے، بچوں اور نوجوانوں کی سرگرمیوں کی نگرانی ضروری ہے ۔ پاکستان اپنے قیام کے بعد تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔ 1960 کی دہائی میں دنیا میں پاکستان کی ایک حیثیت تھی اور پاکستانیوں کی دنیا میں بہت عزت تھی، پھر ہم نے یہاں زوال آتے دیکھا۔ جب تک ہم سیرت النبیؐ پر نہیں چلیں گے ،علامہ اقبال کےخواب کی تکمیل نہیں کرسکیں گے۔ آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اخلاقی اقدار کے بارے میں بتانا ہوگا۔
ہمارا تعلیمی نظام ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک طرف انگریزی نصاب تعلیم دوسری طرف اردو اور پھر دینی مدارس ان تین متوازی نظام تعلیم سے تین مختلف طبقات نکلنا شروع ہوئے جن کا ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس لئے ہم نے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔
(لے آؤٹ آرٹسٹ شاہدحسین)