ہر سال کی طر ح امسال بھی اُن نمایاں خواتین کی فہرست شائع کی گئی ہے، جنہوں نے گزرتے برس نمایاں کام کیے اور کسی نہ کسی طر ح اپنی اہمیت منوائی۔ برطانوی ادارے ’’یوگوو‘‘کی سراہی جانے والی شخصیات کی فہرست میں امریکا کی سابقہ خاتون اول مشعل اوباما ،ہیلری کلنٹن ،انجیلا مرکل ،کملا ہیرس اور ملالہ کا نام شامل ہے اور ’’بی بی سی‘‘ کی 100بااثر خواتین کی فہرست میں 3پاکستانی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی ،عابیہ اکرم اور لیلیٰ حیدر شامل ہیں ۔
ہر سال اس فہرست میں4کیٹیگرز میں خواتین کی نامزدگی کی جاتی ہے،مگر اس بار خصوصی طور پر افغانستان کی الگ کیٹیگری بنائی گئی ہے ،جس میں 50 افغان خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔ ان خواتین کو ان کی ہمت اور بہادری کی بنا ء پر اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ رواں سال کلچر اینڈ ایجوکیشن ،انٹرٹیمنٹ اینڈ اسپورٹس ،پولٹکس اینڈ ایکٹوزم ،سائنس اینڈ ہیلتھ کیٹیگریز شامل ہیں۔ ملالہ کلچر اینڈ ایجوکیشن ،عابیا پولٹکس اینڈایکٹوزم اور لیلیٰ ہیلتھ اینڈ سائنس کی کیٹیگری میں شامل ہیں ۔ذیل میں ان خواتین کے بارے میں اور رواںبرس اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے وا لی چند خواتین کے بارے میں مختصراً نذر قارئین ہے ۔
……مشعل اوباما ……
سابقہ خاتون ِاول مشعل اوباما 1964 ء میں شگاگو میں پیدا ہوئیں ۔یہ پہلی افریقی امریکی خاتون ہیں جن کو ریاست ہائے متحدہ میں خاتون اول ہونے کا اعزاز ملا ۔یہ اعزاز حاصل کرنے کے بعد انہوں نے غربت، تعلیم، نشوونما، جسمانی سرگرمیاں ،صحت بخش غذائوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہی فراہم کی ۔علاوہ ازیں انہوں نے امریکن ڈیزائنز کو بھی بہت زیادہ سپورٹ کیا اور اسی بنا ء پر ان کو فیشن آئیکن کہا جاتا تھا ۔چند سال قبل آنے والی ان کی کتاب نے خوب پذیرائی حاصل کی۔ ’’برطانوی ادارے’یوگوو‘‘ کی جانب سے جاری کردہ سراہی جانے والی شخصیات کی فہرست میں ان کا نام اول نمبر پر ہے ۔
……انجیلینا جولی ……
کیلی فورنیا میں پیدا ہوانے والی امریکی اداکارہ اور فلم ساز انجیلنا جولی کا شمار رواں برس کی سراہی جانے والی شخصیت میں ہوتا ہے ،اس فہرست میں وہ دوسرے نمبر پر ہیں ۔کئی دفعہ ان کا شمار امریکا کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ میں ہوا۔ انجیلینا اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی سفیر شپ کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دے چکی ہیں ۔اور وہ انسانی حقوق کے لیے کافی زیادہ سر گرم رہتی ہیں ،اس سلسلے میں وہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین سے بھی ملاقات کرچکی ہیں ۔
……ملکہ ایلز بتھ دؤم ……
ملکہ ایلزبتھ دؤم مملکت متحدہ کی ملکہ اور دولت مشترکہ قلمرو کی آئینی ملکہ ہیں۔ اِس کے علاوہ وہ دولتِ مشترکہ کے 54 ملکوں کی مُکھیا اور انگریزی چرچ کی عظیم حاکمہ بھی ہیں۔ ملکہ ایلزبتھ 21 اپریل 1926 کو لندن میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ 1947 ء میں ان کی شادی شہزادے فلپ سے ہوئی ۔اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ دولت مشترکہ کی صدر اور مملکت متحدہ، کینیڈا، اوسٹریلیا، نیو زی لینڈ، جنوبی افریقا، پاکستان اور سری لنکا کی حکمران بن گئیں۔
ان کی تاجپوشی سال 1953 میں ہوئی اور یہ پہلی تاج پوشی تھی جو ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی۔ 9 ستمبر 2015 کو انھوں نے ملکہ وکٹوریا کے سب سے لمبے دورحکومت کے ریکارڈ کو توڑ ا اور برطانیہ پر سب سے زیادہ وقت تک حکومت کرنے والی ملکہ بن گئیں۔ ان کو عالم میں سب سے عمردراز حکمران اور سب سے لمبے وقت تک حکومت کرنے والی ملکہ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔2021ء کی سب سے زیادہ سراہی جانے والی شخصیت میں ان کا نام تیسرے نمبر پر ہے ۔
…… انجیلا مرکل……
انجیلا مرکل جرمنی کی چانسلر اور یورپی یونین کی نہایت فعال اور زیر ک رہنما ہیں۔ انجیلا مرکل1954ءکو جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے جرمنی کی کارل مارکس یونیورسٹی سے طبیعات میں اعلیٰ سند حاصل کی۔ انہوں نے دیوار برلن کے گرائے جانے کے بعد ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک شروع کی ۔2003ءکے انتخابات میں وہ پارلیمان کی رکن منتخب ہوئیں۔ 2005ءکے انتخابات میں چانسلر منتخب ہوئیں۔
2019ءمیں وہ پانچویں بار الیکشن جیت کر چانسلر بنیں۔ ان کے مخالفین نے ان کی تارکین وطن سے ہمدردانہ پالیسی کی وجہ سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ،مگر وہ اپنی پالیسیوں پر ڈٹی رہیں۔اور پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ ہر تنقید کا سامنا کیا ۔اس سال ان کا نام سراہی جانے والی شخصیت میں بھی شامل کیا گیا ہے ،جس میں وہ 8 ویں نمبر پر ہیں ۔
……ملالہ یوسف زئی……
سوات سے تعلق رکھنے والی ملالہ یوسف زئی امن کا نوبیل انعام جیتنے والی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت خواتین کی تعلیم کے لیے سرگرم پاکستانی سماجی کارکن اور اقوامِ متحدہ کی سفیر براِئے امن ہیں۔ وہ 11 برس کی عمر سے خواتین کو تعلیم کے حصول کا حق دینے کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ملالہ نے اپنے ایکٹوازم کا آغاز بی بی سی اردو کے لیے بلاگ لکھنے سے کیا، جس کا موضوع پاکستان میں طالبان کے زیرِ اثر علاقوں میں خواتین کے حصولِ تعلیم پر پابندیاں تھی۔
انہوں نے یہ بلاگ ‘‘گل مکئی ‘‘ کے نام سے لکھنے شروع کیے تھے ۔ وہ اپنی تنظیم ملالہ فنڈ بھی چلا رہی ہیں، جس کا مقصد ایک ایسی دنیا کی تخلیق ہے جہاں ہر لڑکی بلا خوف و خطر تعلیم حاصل کر سکے۔ان کو کسی بھی شعبے میں نوبیل انعام حاصل کرنے والی کم سن فرد اور دوسری پاکستانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ان کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے۔ ملالہ کا نام ’’یوگوو‘‘ کی فہرست میں 9 ویں نمبر پراور ’’بی بی سی‘‘کی100 بااثر شخصیات میں بھی شامل ہے۔
……پرینکا چوپڑا……
بھارتی اداکارہ، پرینکا چوپڑا سابق مس ورلڈ بھی رہ چکی ہیں ۔ان کو بولی ووڈ کی فلموں کے علاوہ امریکی ٹی وی شو ’’کو انٹیکو ‘‘ سے بھی شہرت ملی۔ ایک بھارتی اداکارہ کی حیثیت سے امریکی ٹی وی سیریز میں مرکزی کردار ادا کرنا ان کے لیے ایک منفرد اعزاز تھا۔ پرینکا 2014 سے معروف میگزین ایلے(Elle) کے لیے ہر ماہ باقاعدہ کالم بھی لکھ رہی ہیں۔ برطانوی میگزین ایسٹرن آئی کی جانب سے گذشتہ دس برسوں میں چار مرتبہ انہیں ایشیاءکی پرکشش ترین خاتون قرار دیا جاچکا ہے۔ اور رواں برس ’’یو گوو‘‘کی فہرست میں 10ویں نمبر پر شامل کیا ہے ۔
……کملا ہیرس ……
کیلی فور نیا سے تعلق رکھنے والی 57 سالہ کمیلا ہیرس نے گزشتہ سال امریکا کی تاریخ میں پہلی نائب صدر بن کر نئی تاریخ رقم کی تھی ۔ہارورڈ میں چار سال رہنے کے بعد کملا ہیرس نے ہیسٹنگز میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے قانون کی ڈگری کی اور المیڈا کاؤنٹی ڈسٹرکٹ اٹارنی کے دفتر سے اپنے کریئر کا آغاز کیا۔وہ ریاست کیلی فورنیا کی سابق اٹارنی جنرل بھی رہ چکی ہیں اور نسلی تعصب کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس کے نظام میں اصلاحات کی حامی بھی رہی ہیں۔
انہوں نے 2003 ءمیں سان فرانسسکو کے لیے اعلیٰ ترین ڈسٹرکٹ اٹارنی بن کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔اس کے بعد وہ امریکا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلی فورنیا میں وکیل اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار کی حیثیت سے ابھریں ۔کیلی فورنیاکے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں ۔2021 کی سب سے زیادہ سراہی جانے والی خواتین کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل ہے ،جس میں وہ 11 ویں نمبر پر ہیں ۔علاوہ ازیں انہوں نے رواں برس 85 منٹ کے لیے امریکا کی پہلی خاتون صدر بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
……ہیلری کلنٹن……
ہیلری کلنٹن کو دنیا بھر کی خواتین کے لیے ہمت اور جرأت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ شکاگو میں پیدا ہوئیں ۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کےساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے قبل وہ اس دور کے مشہور واٹر گیٹ اسکینڈل کیس کی پیروی بھی کرچکی تھیں۔ بعدازاں ان کو آرکنساس یونیورسٹی کا فیکلٹی ممبر بنا دیا گیا ،ان کو وہاںکی پہلی معلمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔
پہلی معلمہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے ایجوکیشنل اسٹینڈر کمیٹی قائم کی، بچوں کے لیے اسپتال بنوایا اور بچوں کے حقوق کے سلسلے میں چلڈرن فنڈز قائم کیے ،جس کی بناء پر انہیں امریکا کی طاقتور ترین وکیل قرار دیا گیا۔ ہیلری کلنٹن2001سے2009تک بحیثیت سینیٹر بھی کام کرچکی ہیں۔2007 میں انہوں نے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی میں نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔’’یوگوو‘‘ کی فہرست میں ان کو 12 ویں پر رکھا گیا ہے ۔
……ایشوریا رائے ……
ایشوریا رائےکا شمار بھارت کی مشہور و معروف اداکارئوں میں ہوتا ہے ۔یہ 1994 ء میں مس ورلڈ کا اعزاز بھی حاصل کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی وہ بے شمار اعزازت جیت چکی ہیں۔2012ء میں حکومت فرانس نےانہیں آرڈیس آرٹس ایٹ ڈیس لیٹرز کا ایوارڈ یا۔ وہ دنیا کی حسین ترین خاتون کا لقب بھی اپنے نام کرچکی ہیں ۔ سراہی جانے والی فہرست میں ان کا نام 13 ویں نمبر پر ہے۔
……جیسنڈا آرڈن ……
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ،جیسنڈا آرڈن کا شمار گزشتہ سال کی کام یاب ترین رہنمائوں میں کیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔انہوں نے نیوزی لینڈ کی رہنمائی بھر پور طریقے سے کی ہے ۔ وہ 2017 ء سے وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں ۔اس سے قبل وہ ایک مخلوط حکومت کی سر براہ رہ چکی ہیں۔انہوںنے نمایاں کار کر دگی کی بنا ء پر اپنی پارٹی کو کام یاب بنایا۔عالمی وبا کورونا وائرس سے مقابلے کرنے کے لیے انہو ں نے متاثر کن پالیسی تیار کی اور اپنے ملک کو کورونا سے باہر نکالنے کے لیے سخت اقدام کئیں ۔
آخر کار وہ اپنےملک کو اس وبا سے بچانے میں کام یاب ہو گئیں ۔ جیسنڈا نے اپنی عوام کی صحت اور تحفظ کو اہمیت دیتے ہوئے ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ معیشت کو بھی بحال رکھنے میں کام یاب رہیں ۔وہ وزیر اعظم ہونے کا حق بھر پور طر یقے سے ادا کررہی ہیں۔ان کی خدمات کی بنا ء پر ان کا نام سراہی جانے والی شخصیات کی فہرست میں 20 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے ۔
…… لیلیٰ حیدری……
لیلیٰ حیدری کا خاندان بامیان (افغانستان) سے تعلق رکھتا ہے، مگر وہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے لیے قائم کیمپ میں پیدا ہوئیں۔وہ خود ایک سابقہ ’’کم سن دلہن‘‘ تھی جن کی 12 سال کی عمر میں شادی کردی گئی تھی ،مگرانہوں نے ہمت نہیں ہاری، وکالت کی تعلیم حاصل کرکے خواتین کے حقوق کی زبردست وکیل بنی ۔لیلیٰ حیدری نے منشیات کے عادی افراد کو نشے کی لت سے چھٹکارا دلانے کے لیے ایک ’’مدر کیمپ‘‘ قائم کیا ہے۔ وہ یہاں خواتین اور بچوں کو بھی مدد فراہم کرتی ہیں۔
انہوں نےمنشیات کے عادی افراد کے بارے میں تمام تر ممنوعہ تصورات کے باوجود 2010 سے کابل میں منشیات سے نجات کا واحد مرکز قائم کر رکھا ہے اور اب تک 6400 کے لگ بھگ افغانیوں کی مدد کر چکی ہیں۔ اس مرکز کے قیام کے لیے پہلے تو انہوں نے اپنی بچت سے سرمایہ کاری کی اور پھر ایک ایسا ریستوراں کھولا جسے انہی کے مرکز میں منشیات سے نجات پا جانے والے افراد چلاتے رہے، تاکہ اس مرکز کو مالی مدد ملتی رہے، مگر سقوطِ کابل کے بعد اس ریستوراںکو بند کرنا پڑا۔ واضح رہےکہ لیلیٰ کابل میں ریستوراں کھولنے والی پہلی خاتون ہیں۔2018ءمیں تمام تر دھمکیوں اور مخالفت کے باوجود اپنا مرکز بند نہیں کیا، اُن کی انہیں جدوجہد پر ایک دستاویزی فلم ’’لیلیٰ ایٹ دا برج‘‘ بنائی گئی، جس میں انہوں نے خود بھی اداکاری کی۔
……عابیا اکرم……
جسمانی معذوری کے ذاتی تجربے سے گزرنے والی عابیا اکرم 1997 میں اُس وقت سے جسمانی معذوری سے متعلق تحریک میں سرگرم ہیں جب انہوں نے بطور طالبہ ا سپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کا آغاز کیا۔ وہ پاکستان سے دولتِ مشترکہ کے کامن ویلتھ ینگ ڈس ایبلڈ فورم کے لیے نامزد کی جانے والی پہلی رابطہ کار ہیں۔ عابیا اکرم نیشنل فورم آف ویمن ود ڈس ایبلٹی کی بانی ہیں اور وہ اقوام متحدہ کے معاہدہ برائے حقوقِ و نشوونمائے معذورین کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔وہ جسمانی معذوری کو 2030 میں پائیدار ترقی اور اجتماعی پیش رفت کے لیے اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں شامل کروانے کے سلسلے میں بھی کام کر رہی ہیں۔
عابیا اکرم کا کہناہے کہ اگر کوئی شخص کسی قسم کی معذوری کا شکار ہے تو انہیںخود کو منوانے کے لیے تقریباً ہر دن ہی جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور انہیں خود بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا،معذورافراد کو لے کر لوگوں کے رویے بہت مختلف ہوتے ہیں، لوگوں کو لگتا ہے کہ معذور افراد کچھ نہیں کر سکتے، یہ باہر جا کر کیسے پڑھ سکتے ہیں،لوگوں کے دماغ میں میرے بارے میں بھی ایسی ہی رائے تھی، اس سوچ کو بدلنے کے لیے مجھے بہت جدوجہد کرنی پڑی۔ اگر کوئی معذور فرد باہر جاتا ہے تو اسے اوپر لانے کے لیے چار پانچ لوگوں کی مدد درکار ہوتی ہے،ہم سیڑھیاں تو بنا دیتے ہیں لیکن ریمپ نہیں بناتے ۔
لوگوں کو ان پرترس آتا ہے ۔ حالاں کہ معذوری کو اپنے اوپر سوار کر کے اسے کوئی مجبوری نہیں سمجھنا چاہیے، اپنی ڈس ایبلٹی کو قبول کریں، اسے اپنی طاقت بنائیں اور پھر سوچیں کہ آپ معاشرے کے لوگوں کے لیے کیا کرسکتی ہیں؟ کس طرح آپ مثبت انداز میں سوسائٹی کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں؟اور اسی سوچ نے مجھے آگے بڑھنے میں مدد دی ،ہمت نہیں ہارنے دی ۔
بی بی سی کی 100بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل چند افغان خواتین
…… شیلا انسان دوست……
لڑکیوں اور خواتین میں حقِ تعلیم کے بارے میں آگاہی کو فروغ دینا افغان معلمہ شیلا انسان دوست کی اولین ترجیح ہے۔ خود انہوںنے مذہبی تعلیمات میں ڈگری حاصل کی ہے اور اسکولوں میں تدریس میں مصروف رہی ہیں۔وہ سیاسی و سماجی امور میں خواتین کے کردار کے فروغ کے لیے سرگرم رہی ہیں اور خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حق کے بارے میں افغان میڈیا پر آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ حال ہی میں وہ کابل میں ہونے والے ایک عوامی مظاہرے میں شامل تھیں جہاں وہ ملک میں خواتین کے خلاف ظلم و ستم اور جور و جبر پر احتجاج میں شریک ہوئیں۔ایک معلّمہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ افغانستان میں خواتین کی کئی تنظیموں کی رکن بھی ہیں۔
……غوغہ……
افغانی گلوکارہ ، نغمہ نگار اور موسیقار غوغہ گزشتہ پانچ برس سے موسیقی کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ اُن کے زیادہ تر نغمے افغان لڑکیوں اور عوام کے بارے میں ہوتے ہیں ۔اور ان کے گانوں کے بول حالات ِحاضرہ پر احتجاج پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اُن کا تازہ ترین نغمہ ’تبسّم‘ اُن افغان بچوں کے نام ہے جن کے خواب جنگ کی وجہ سے چکناچور ہوگئے۔
انہوں نے نغمے اس لیے لکھنے شروع کیں ،کیوں کہ ان کے ملک میں کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ نے انہیں کبھی امن نہیں دیکھنے دیا ۔وہ اپنے دکھ کو نغمے لکھ کر ہلکا کرتی ہیں اور ان کا یہ دکھ نغموں کے بول میں جھلکتا ہے ۔
……زحل اتمر……
معیشت وتجارت کا پس منظر رکھنے والی زحل اتمر نے خواتین کی سرگردکی میں ردی کی ری سائیکلنگ کا کارخانہ 2016 میں کابل میں قائم کیا۔ اس کارخانے نے 100 ملازمتیں فراہم کیں جن میں 30 فی صد پر خواتین کام کرتی ہیں۔یہ کارخانہ غیر سرکاری اداروں سے ردّی جمع کرتا ہے اور ہر ہفتے قریباً 35 ٹن ردّی کی ری سائیکلنگ کر کے اسے ٹوائلٹ پیپر رول میں تبدیل کر دیتا ہے جو بعد ازاں ملک کے اندر ہی بیچ دیے جاتے ہیں۔زحل اتمر اس موضوع پر اکثر آواز اٹھاتی رہی ہیں کہ افغانستان میں کاروبار کا آغاز کرنے کے لیے خواتین کے لیے مالی مدد کا حصول کس قدر دشوار ہے۔
بھارتی حسینہ ہرناز سندھو، مس یونیورس بن گئیں
2021 ء کی مس یوینورس کا ٹائٹل بھارت کی 21 سال ہر ناز سندھو نے اپنے نام کرلیا ۔جنہوں نے79 ممالک کی حسیناؤں کو پیچھے چھوڑ کر مس یونیورس کا تاج حاصل کیا اور ساتھ ہی وہ مس یونیورس کا خطاب جیتنے والی تیسری ہندوستانی لڑکی بھی بن گئیں۔ ہرناز سندھو بھارتی ریاست پنجاب میں پیدا ہوئی ہیں اور ابتدائی تعلیم بھی مقامی اسکول سے حاصل کی۔ یہ پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کررہی ہیں۔
انہوں نے 17 سال کی عمر میں 2017 میں مس چندی گڑھ کا ٹائٹل جیتا تھا۔ 2019 میں وہ فیمینیا مس انڈیا پنجاب بھی رہیں اور پھر فیمینیا مس انڈیا میں ٹاپ 12 میں شامل تھیں۔ وہ مس دیویا 2021 کی بھی ونر تھیں اور اس کے بعد وہ اب مس یونیورس 2021 بھی بن گئی ہیں۔ مس یونیورس بننے کے بعد اب وہ امریکا کے شہر نیویارک میں رہیں گی اور دنیا بھر میں ہونے والی تقاریب میں شرکت کریں گی۔ان کو کھانے بنانے، ڈانس اور یوگا کا شوق ہے جب کہ وہ فارغ اوقات میں گھڑ سواری، سوئمنگ اور شطرنج کھیلنا پسند کرتی ہیں۔
نجلا بودن ،تیونس کی پہلی خاتون وزیر اعظم
2021 ء میں تیونس میں پہلی مرتبہ خاتون کو وزیر اعظم نامزد کرکے حکومت سازی کی دعوت دی گئی ۔نجلا بودن پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں اور وہ انجینئرنگ جیالوجسٹ کے طور پر تیونس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ورلڈ بینک کے تعاون سے وزارت تعلیم میں ہائر سائنٹیفک ریسرچ کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہیں۔ وہ اسی وزارت میں تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے (QEC) کے شعبے کی نگراں بھی ہیں۔
پاکستانی نژاد دردانہ انصاری ،برطانوی رائل نیوی کی پہلی مسلم خاتون کیپٹن
پاکستانی نژاد دردانہ انصاری مسلم دنیا کی پہلی خاتون بن گئی جن کو برطانوی رائل نیوی میں کیپٹن مقرر کیا گیا ہے ۔ دردانہ انصاری سولہ سال کی عمر میں پاکستان سے برطانیہ گئی اور تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف فلاحی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لینا شروع کردیا۔دردانہ انصاری ایک انٹر پرینیؤر اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن بھی ہیں۔
2012 میں انہیں مسلمان خواتین کی ترقی کے لیے پروگرام تشکیل دینے پر برطانیہ کی جانب سے آرڈر آف دی برٹش امپائر(او بی ای) سے نوازا گیا۔علاوہ ازیں وہ بی بی سی ورلڈ سروس کی چیریٹی ڈائریکٹر ،صحافی ،پیش کنندہ اور پروڈیوسر بھی رہ چکی ہیں ۔واضح رہے کہ رائل نیوی میں کیپٹن انتہائی سینئر عہدہ ہے۔ رائل نیوی کا کیپٹن برطانوی آرمی کے کرنل اور شاہی فضائیہ کے گروپ کیپٹن کے برابر عہدے کا حامل ہوتا ہے۔
دلشاد پری ،چترال میں پہلی خاتون ایس ایچ او
خیبر پختون خوا کے ضلع چترال میں پہلی بار خاتون کو ایس ایچ او تعینات کیا گیا ہے ۔چارج سنبھالنے کے بعد انہوںنے تھانے میں حوالات سیکیورٹی پوائنٹس سمیت مختلف شعبہ جات کا جائزہ لیا۔دلشاد پری لوئر چترال میں ویمن ڈیسک کی انچارج تھیں وہ پولیس میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پی اے ایس آئی بھرتی ہوئی ، انہوں نے پولیس کے ڈیپارٹمنٹل امتحان میں پورے ملاکنڈ میں اول پوزیشن حاصل کی ، جب کہ چترال میں ویمن ڈیسک کی انچارج بننے کے بعد چترال میں خواتین کے بنیادی مسائل، گھریلو جھگڑوں اور جعلی شادیوں سمیت خودکشی کے واقعات میں کمی کے لئے کمیونٹی لیول پر دلشاد پری کی خدمات کو سراہا گیا۔
میگڈالینا ،سویڈن کی پہلی خاتون وزیراعظم چند منٹ بعد مستعفی
سویڈن میں پہلی خاتون وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن نے وزارت غطمٰی کا منصب سنبھالا لیکن چند گھنٹے بعد ہی انہوںنے استعفٰی دے دیا ۔استعفی ان کے اتحادیوں کے حکومت چھوڑنے اور ان کی حکومت کا بجٹ پاس نہ ہونے کی وجہ سے دیا ،جس کے بعد پارلیمنٹ نے پوزیشن کا تیار کردہ بجٹ منظور کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک آئینی عمل ہے کہ مخلوط حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے جب کوئی ایک اتحادی پارٹی ساتھ چھوڑ دے۔
میں ایسی حکومت کی قیادت نہیں کرنا چاہتی، جس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے جائیں۔ میگڈالینا اینڈرسن نےاپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1996 ءمیں اس وقت کے وزیر اعظم گوران پرسن کی سیاسی مشیر کے طور پر کیا۔ وہ گذشتہ سات سال وزیر خزانہ کے طور پر کام کر چکی ہیں ۔
لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر، پہلی خاتون کرنل کمانڈنٹ آرمی میڈیکل کور
لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر خان پاک فوج میں ایک تین ستارہ جنرل ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر خان ضلع صوابی کے ایک گاؤں پنج پیر میں ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئیں۔ وہ کرنل قادر کی بیٹی ہیں جنہوں نے انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی ایس آئی) میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اپنی تعلیم 1978ء میں پریزنٹیشن کانونٹ گرلز ہائی اسکول، راولپنڈی سے حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے 1981ء میں آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور 1985ء میں گریجویشن مکمل کی۔
وہ پاک فوج کی تاریخ میں پہلی خاتون ہیں جو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچی ہیں۔اور تیسری خاتون ہیں جو میجر جنرل کے عہدے تک پہنچی ہیں۔ وہ آرمی میڈیکل کور سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر آرمی میڈیکل کور کی کرنل کمانڈنٹ بننے والی پہلی خاتون افسر ہیں۔ پاک فوج کی پہلی تھری اسٹار خاتون جنرل کے کرنل کمانڈنٹ بننے پر پاک فوج اور پوری قوم کو فخر ہے۔
نجلا المنقوش، لیبیا کی پہلی خاتون وزیر خارجہ
لیبیا کی پہلی خاتون وزیر خارجہ نجلا المنقوش پیشے کے اعتبار سے سفارتکار اور وکیل ہیں۔ انہوں نے بن غازی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی جب کہ جارج میسن یونیورسٹی سے تنازعات کے تجزیے اور حل کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی۔ 2011 میں لیبیا کے انقلاب کے دوران وہ لیبیا کی اُس قومی عبوری کونسل کی سربراہ تھیں، جس نے معاشرتی و قومی تعمیر کا کام انجام دیا۔
وہ امریکا میں قائم ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس میں لیبیا کی نمائندگی کر رہی تھیں۔ وہ مذاہب عالم سفارتکاری اور تنازعات کے حل کے لیے قائم عالمی ادارے سینٹر فار ورلڈ ریلیجنز ، ڈپلومیسی اینڈ کونفلکٹ ریزرو لوشن کے ساتھ قیامِ امن اور نفاذِ قانون کے منصوبوں پر کام کرتی رہی ہیں۔