ستمبر 2021 ءکو، ترکش ہاؤس نیویارک میں ایک اعلیٰ سطحی سرکاری تقریب منعقد کی گئی،جس میں صدر طیب اردوان نے بھی شرکت کی۔ تقریب کا آغاز ترکی کے اعلیٰ و معتبر عالم، صدر ڈائریکٹوریٹ مذہبی امور، جو 80,000 مساجد کو کنٹرول کرتا ہے، کی تلاوت سے ہوا۔ ترکی میں اِس عالم کا حال ہی میں بڑھتا ہوا سیاسی قد، علما اور اردوان حکومت کے مابین مضبوط ہوتے ہوئے اشتراک کی علامت ہے۔
تقریباً ایک صدی تک ترکی ایک مسلم اکثریتی معاشرہ ہوتے ہوئے بھی انتہائی جارحانہ سیکولر ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود علماا سٹیٹ الائنس مضبوط ہوا ہے۔ دریں اثنا، افغانستان میں، علماء کی قیادت میں طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھال لیا ہے۔ طالبان کے دورِ حکومت میں علمائے کرام محض ریاست کے اتحادی نہیں ہیں؛ بلکہ وہ باقاعدہ ’’ریاست‘‘ ہیں، جن کے پاس انتظامیہ، مقننہ اور عدالت کے اختیارات موجود ہیں اوروہ ریاست کے ان تمام پہلوؤں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔دنیا میں کُل 50 مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ ترکی کے پاس سیکولر ریاست ہونے کاطویل ترین تجربہ ہے جبکہ افغانستان کو اب تھیوکریٹک حکومت کا سب سے زیادہ عمیق تجربہ حاصل ہے (ایران کے ساتھ)۔ کئی دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں علماریاستی اتحاد میں اتار چڑھاؤ نظر آتا ہے۔ ان اتحادوں کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ تمام جمہوریت سازی اور ترقی کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
مسلم اکثریتی ممالک میں سے صرف سات ممالک میں منتخب جمہوریتیں ہیں۔ مسلم ممالک میں ترقی کے اشارے بھی نہایت کمزور ہیں، جس کی عکاسی سماجی و اقتصادی معیار جیسے فی کس مجموعی قومی آمدنی، معیارِ زندگی، تعلیمی سال اور شرح خواندگی میں عالمی اوسط کی سطح پردکھائی دیتی ہے۔ یہ مسلم ممالک مجموعی طور پر استبدادیت اور پسماندگی کے شیطانی دائرے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
جب ہم ان کی ابتدائی تاریخ میں سماجی، اقتصادی اور سائنسی ترقی پر غور کرتے ہیں تو مسلم ممالک میں عصری چیلنجز مزید پریشان کن نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر آٹھویں صدی اور گیارویں صدی کے درمیان، مسلما نوں نے دنیا کے بہت سے بڑےشاعر اور سرکردہ فلسفی پیدا کئے۔ یہ اس وقت مغربی یورپ سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھے۔
مسلم دنیا کی ابتدائی تاریخی آب و تاب اور موجودہ بحران کے درمیان اس فرق کوکیا چیز واضح کرتی ہے؟ اس کی دو وسیع وضاحتیں ہیں: اسلام اور مغربی استعماریت۔ یہ دونوں وضاحتیں غیر کارآمد ہیں۔ابتدائی مسلمانوں کی سائنسی اور سماجی و اقتصادی کامیابیوں کو نظر انداز کر کے اسلام کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دینا ایک ناکام اور کمزور وضاحت ہے۔ چار صدیوں تک، مسلم معاشروں میں متحرک فکری اور معاشی طبقات موجود تھے جنہوں نے ایک فلسفیانہ اور تجارت کا سنہری دور قائم کیا۔ مسلمان بلند پایہ دانشمندوں نے ریاضی، آپٹکس، اور میڈیسن میں شاندارعلمی حصہ ڈالا۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے مغربی یورپیوں کو بعض مالیاتی آلات اور کاغذ تیار کرنے کا طریقہ سکھایا۔
مغربی استعماریت پر مبنی وضاحت بھی مبہم ہے۔ مسلم دنیا کا سائنسی اور معاشی جمود اٹھارویں صدی میں وسیع پیمانے پر مغربی استعماریت کے آغاز سے کافی عرصہ قبل شروع ہو چکا تھا۔ مزید برآں، ایشیاء اور لاطینی امریکہ کے کئی نوآبادیاتی غیرمسلم ممالک ترقی اور جمہوری نظام کے حامل ہو چکے تھے؛ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ نوآبادیاتی ماضی ہونے کے باوجود ترقی ممکن ہے۔
علما۔ریاستی اتحاد:اس کی بجائے، زیادہ تر مسلم معاشروں میں استبدادیت اور پسماندگی کے مسائل کی بنیادی وجہ وہی رہی ہے جسے میں نے اپنی 2019 کی کتاب اسلام، آمریت اور پسماندگی میں ’’علما۔ ریاستی اتحاد‘‘ کا نام دیا ہے۔آٹھویں اور گیارویں صدی کے درمیان جب مختلف مذہبی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان سنہری دور کے قیام میں مسیحیوں، یہودیوں اور دیگر کے ساتھ تعاون کر رہے تھے تو اُس وقت علمائے کرام اور ریاست کےمابین ایک خاص حد تک فاصلہ موجود تھا۔ علمائے کرام کی بھاری اکثریت نجی طور پر تجارت میں مگن تھی۔ یہ تاریخی حقیقت اس جدید کہاوت کی تردید کرتی ہے کہ اسلام فطری طور پر مذہب اور ریاست کی علیحدگی کو مسترد کرتا ہے۔
تاہم، گیارویں صدی کے وسط میں علما ریاستی اتحاد ابھرنا شروع ہوا۔ اس اتحاد نے بتدریج آزاد مفکرین اور کاروباری افراد کو پسماندہ کر دیا جس کی وجہ سے مسلم دنیا صدیوں تک فکری اور معاشی جمود کا شکار ہو گئی۔انیسویں صدی کے دوران، اصلاح پسند حکمرانوں نے علمائے کرام کے ساتھ اپنے اتحاد کو کمزور کردیا، اور بیسویں صدی کے اوائل میں، تقریباً تمام مسلم ریاستوں کے بانیان سیکولر تھے۔ بہر حال، ان اصلاح پسند اور سیکولر حکمرانوں کا ایک مشترکہ مسئلہ تھا: وہ بہت زیادہ اسٹیٹ سینٹرک تھے۔ متحرک دانشور اور معاشی طبقات کے ابھرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے، انہوں نے سیاست اور معیشت پر فوجی اور سویلین بیوروکریٹس کے کردار کو وسعت دی۔سیکولرز کی ناکام پالیسیوں نے 1970 کی دہائی سے اسلام پسندوں کے عروج میں مدد فراہم کی۔ نصف صدی سے ایران، پاکستان، مصر اور ترکی سمیت کئی مسلم ممالک ایک سماجی، سیاسی اور قانون سازی کے منصوبے کے طور پر اسلامائزیشن کا تجربہ کرتے آئے جس سے علما ریاستی اتحاد بھی بحال ہوا۔
اس مستقل ساخیاتی چیلنج کو مد نظر رکھتے ہوئے، مستقبل کو نئی شکل دینے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں، میں نے دلیل دی کہ علما اسٹیٹ الائنس ختم کرنا اور معیشتوں کی تشکیل نو مسلم ممالک کی جمہوریت اور ترقی کے حصول کی صلاحیت بڑھانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
اختلافی سطح پر، صرف اسلام یا مغربی استعمار کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے، مسلم معاشروں کو صدیوں پرانی اینٹی انٹلیکچول ازم اور معیشت پر ریاستی کنٹرول پر سوال اٹھانے چاہئیں۔ اپنے آپ پر تنقیدی نظر دوڑانے کے ذریعے ہی مسلم معاشرے اپنے سیاسی اور سماجی و اقتصادی مسائل کو صحیح معنوں میں حل کر سکتے ہیں۔ کیا قرآن یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ’’خدا کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے باطن کو نہ بدلیں‘‘ (13:11)؟
پروفیسرأحمد ت كکورو امریکہ کی سان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور ’’اسلام، آمریت، اور پسماندگی: ایک عالمی اور تاریخی موازنہ‘‘ کے مصنف ہیں۔