وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دسمبر 2021ء کے پہلے ہفتے میں حکومت کےگھرجانیکی افوا گردش میں تھی۔
افوا کی بنیاد یہ بتائی گئی کہ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے وطن واپس لوٹ رہے ہیں، لہٰذا اب حکومت کاجانا بس چند دن کی بات ہے۔
افوا سازی کی اس فیکٹری میں ٹی وی اینکرز کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے سورما بھی سرگرم تھے۔
اس افوا کا تاثراتنا مضبوط تھا کہ کم ازکم دو کمزوردل حکومتی وزیروں نے بھی دفاتر سے اپنا ذاتی سامان گھروں کو منتقل کردیا مگر افوا تو بہرحال افوا ہی ہوتی ہے۔
اسی دوران 23دسمبر2021ء کو ایک اور واقعہ رونما ہوگیا۔ ہوا کچھ یوں کہ نیب نے اپنے لاہور ریجن کے ڈائریکٹرجنرل شہزاد سلیم کو تبدیل کرکے ہیڈ کوارٹربھیج دیا اوراس اہم ترین عہدے پرجمیل احمد نامی ایک افسر کو تعینات کردیا گیا۔
جمیل احمد کچھ ہی عرصہ قبل خیبرپختونخوا میں گریڈ 22میں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔
نومبر2021ء کے آخری ہفتے میں انکی تقرری وزیراعظم عمران خان کےدستخطوں سےعمل میں آئی تھی اورمذکورہ افسروزیراعظم کے سیکرٹری اعظم خان کی تجویز پرقابل بھروسہ ہونے کےباعث تعینات کیے گئے تھے۔ جمیل احمد سے قبل شہزادسلیم سال 2017سے نیب لاہور میں تعینات تھے۔
وہ فوج کے ریٹائرڈ میجرہونے کے باعث اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعاون کیساتھ کام کرتے رہے۔حقیقت یہ ہے کہ سال 2018ءکے عام انتخابات میں وسطی پنجاب سے اگرنیب کی مدد سے کچھ سیاستدانوں کو آگے پیچھے کیا تھا تو اس میں شہزادسلیم کا کلیدی کردارتھا کیونکہ سیاستدانوں اوراہم بیوروکریٹس کے خلاف کیسزانہی کے حکم پر تیارکیے گئے تھے۔
شہزاد سلیم موجودہ حکومت کے ساتھ بھی کام کررہےتھےلیکن وہ سیاسی حکومت اوراسٹیبلشمنٹ کے کسی ایک ہی موضوع پر دو مختلف احکامات کی صورت میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کوترجیح دیتےتھے۔
شہزاد سلیم کےہوتے ہوئے وزیراعظم عمران خان اورانکےمشیرِاحتساب بعض اوقات بےبس ہو جاتے تھے لہٰذاحکومت نےنیب لاہورکو فتح کرنیکا فیصلہ کیا اوریوں جمیل احمد کووہاں تعینات کردیا گیا۔ ظاہر ہےیہ سب چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے حکومت کیساتھ تعاون کےسبب ہی ممکن ہوا۔ دوسری طرف جمیل احمد بھی کوئی بری شہرت کےحامل نہیں لیکن ظاہرہے کہ حکومت نےانکا تقررکیاہےتوانکی وفاداری حکومت کیساتھ ہی ہوگی۔
حکومت کاجمیل احمد کی لاہورتعیناتی کامقصد یہی دکھائی دیتاہے کہ وہ شہباز شریف کواگلےعام انتخابات سےقبل ترجیحی بنیادوں پراحتساب عدالت، لاہور ہائیکورٹ اورپھرسپریم کورٹ سے بدعنوانی کیس میں نااہل کروائیں۔
حکومت سمجھتی ہےکہ شہباز شریف کیخلاف ٹی ٹی کیس میں ٹھوس شواہد موجود ہیں یہ کیس تو سابق ڈی جی نیب لاہورشہزادسلیم کے دورکا ہی تیارکردہ ہےلیکن اب اس پرعملی جامہ جمیل احمد پہنائیں گے۔حکومت کی طرف سے اس اہم ترین تعیناتی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کے کھاتےمیں ڈال دیا گیااورکہا گیا کہ،’’نوازشریف ڈیل کرکےواپس آرہے ہیں اوروہ عدالتوں سے ریلیف لیں گےاسی مقصد کے لئےجمیل احمد کو نیب لاہور کا نیا ڈی جی مقررکیا گیا ہے‘‘۔
حقیقت مگر اسکے بالکل برعکس تھی۔ وزیراعظم نے جمیل احمد جیسےافسرکو نیب لاہورمیں تعینات کروا کے عملی طورپرنیب لاہورسےشہزاد سلیم کی تبدیلی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی چھٹی کرائی تھی۔
نیب لاہور میں جمیل احمد کی تقرری نے پہلے سے گرم افواہوں کو مزید گرم کر دیا۔
اس کے بعدحکومت کی طرف سےمنی بجٹ پیش کرنیکافیصلہ ہوا تو کرم فرمائوں نے یہ کہہ کرخود کو تسلی دی کہ اب حکومت منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش نہیں کرسکے گی۔
30 دسمبر 2021 کو جب منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو حکومت سے ناراض کچھ حکومتی ارکان نے استفسارپربتایا کہ جناب ہم تو ایوان میں نہ آتے مگرہمیں’’فون‘‘ آگیااب فون کرنے والوں کی ماننا تو پڑتی ہے۔یعنی اسٹیبلشمنٹ اورحکومت فی الحال ساتھ ساتھ ہیں اور جو لوگ ان کی’’کُٹی‘‘ کی خبریں دے رہے ہیں وہ محض خواہشات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مہنگائی کی صورت جو کچھ عوام کے ساتھ کیا جارہا ہےاسٹیبلشمنٹ کی مرضی سےکیا جارہاہے اور اسے معیشت کی بہتری کیلئےکیے گئےاقدامات سےتعبیر کیا جارہاہے ، نہ کہ بری کارکردگی سے۔
توقع کی جارہی ہے کہ پنجاب سے پہلے سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوجائیں گے۔بلوچستان میں جس طرح عام انتخابات کرائے جاتےہیں بالکل اسی طرح بلدیاتی انتخابات کرائےجائیں گے۔
عمران خان کے پاس اب وزیراعظم کی حیثیت سے صرف آخری 18 ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہےاسلئے وہ رواں سال کے وسط یا آخر میں بلدیاتی اداروں کوفنڈزکے اجرا کےبعد ڈالرکے مقابلےمیں روپے کی فلوٹنگ مصنوعی طریقوں سے بند کرنے،روپےکی قدرکومضبوط کرکے مہنگائی پرقابو پانےکی کوشش کرینگے تاکہ وہ خود کو اگلے عام انتخابات میں عوام کے سامنے جانے کے قابل بنا سکیں۔
حقیقت یہ ہےکہ پاکستان میں حکومتیں کارکردگی کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کےباعث گھروں کو بھیجی جاتی رہی ہیں اس بار مگر صورتحال مختلف ہےاوروہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندرابھی تک عمران خان اور تحریک انصاف سے نفرت پیدا نہیں ہوئی۔
ہاں اسٹیبلشمنٹ میں ایک انجانا خوف ضرورہےکیونکہ اسٹیبلشمنٹ کےمہرے فی الحال وزیراعظم کی مٹھی میں ہیں‘ ویسے بھی رواں سال ہی وزیراعظم نے نئےسپہ سالارکی تقرری کا غیرمعمولی فیصلہ بھی کرنا ہے۔
موجودہ سپہ سالارپچھلے سال اکتوبرکے پہلے ہفتے میں خارجہ ودفاع کمیٹیوں کے ارکان کو بتا چکے کہ وہ توسیع کے خواہشمند نہیں۔ نئے سپہ سالار کی تقرری نومبر میں ہونا ہے اگر حالات کو پلٹنے کی کوشش کی گئی تو ممکن ہے وزیراعظم یہ اعلان پہلے ہی کردیں۔
میں ذاتی طورپر اپوزیشن کے ذہن کا آدمی ہوں مگر اس وقت ملک میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ جو سیاسی جماعتیں اپوزیشن کہلاتی ہیں ان کے رہنما اکثر شامیں اسٹیبلشمنٹ کے افسران کیساتھ اورایک خفیہ ادارے کے دفتر میں گزارتے ہیں۔
انہیں جو کہا جاتا ہے وہ وہی کرتے ہیں۔ اگرکسی ایک جماعت کا کوئی ایک آدھ جلاوطن رہنما اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے بھی تو باقی پوری جماعت اسٹیبلشمنٹ کے قابو میں ہے۔ یعنی اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے اوراسٹیبلشمنٹ وزیراعظم کے قابو میں ہے۔اس پس منظر میں مجھے لگ رہا ہے کہ اس وقت عمران خان پانچ سال پورے کرنے والے پہلے وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔
ان کا اقتدارآخری 18ماہ میں داخل ہوچکا۔ اس وقت وزیراعظم کوصرف ایک شخص گھربھیج سکتا ہےاور وہ خود عمران خان ہیں کوئی دوسرا نہیں۔ ہمیں اچھا لگے یا برا، عوام خوش ہوں یا ناخوش، فی الحال کمپنی یہی چلےگی۔