وزیر خزانہ شوکت ترین نے سال 2019ء کی پارلیمنٹرینز ٹیکس ڈائریکٹری کا افتتاح کردیا ہے۔
اسلام آباد میں منعقدہ تقریب کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہاکہ ٹیکس کلچر بنانا ہے تو شروعات پارلیمنٹرینز سے ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس سسٹم میں شفافیت اور آسانی لانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں، معاشرے کی ترقی میں ٹیکس کا بڑا اہم کردار ہے۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ملکی معیشت کی حالت یہ ہے کہ کرنٹ اخراجات بھی اپنے ریونیو سے پورا نہیں کرپارہے ہیں، ادھار لینا پڑتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس سمیت صرف 2 قسم کا ٹیکس ہونا چاہیے، صرف انکم ٹیکس اور کنزمپشن ٹیکس ہونا چاہیے، ہر آدمی کی آمدنی کے مطابق اس کا ٹیکس کاٹا جائے گا۔
شوکت ترین نے یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس ڈیڑھ کروڑ افراد کے نام ہیں، انہیں استعمال کریں گے، ہمیں پروگریسو ٹیکسیشن کی طرف جانا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ارکان پارلیمان ٹیکس ادائیگی میں دیگر لوگوں کےلیے مثال بنیں، ٹیکس نظام میں اصلاحات کا مقصد شفافیت لانا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کسی کو ہراساں نہیں کریں گے، اعداد و شمار سامنے رکھیں گے، جیسے جیسے ٹیکس نیٹ بڑھتا جائے گا ٹیکس کم کرتے جائیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 74 سالوں میں12، 13 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی سے اوپر نہیں گئے، سب نے ٹیکس دینا ہے، کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے۔
شوکت ترین نے کہا کہ جس کا جتنا زور لگتا ہے ٹیکس چھپاتا ہے، جاری اخراجات کو بھی آمدن سے پورا نہیں کرسکتے، ترقیاتی اخراجات کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں کو ہم آہنگ کرنا ایف بی آر کے لیے چیلنج ہے، ود ہولڈنگ ٹیکس اس لیے لیتے ہیں کہ ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکتے، آمدن اور اخراجات پر ٹیکس ہونا چاہیے۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ نادرا کے ساتھ مل کر ٹیکس کا دائرہ کار بڑھا رہے ہیں، یڑھ کروڑ افراد کا ڈیٹا مل چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوری سے لوگوں کو نوٹسز بھیجنا شروع کردیں گے، اگر کسی کو اعتراض ہے تو تھرڈ پارٹی سے رابطہ کرے، 6 سال میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 15 سے 20 فیصد تک کریں گے۔