• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مارٹن لوتھر کنگ نے پچاس سال پہلے اگست کے مہینے میں امریکہ میں ایک ایسی تقریر کی جس نے افریقہ اور لاطینی امریکہ سے پکڑ کر لائے گے غلاموں کی اولادوں کو امریکہ کا حکمران بنا دیا۔ تقریر کا عنوان تھا "I have a dream"میں بھی ایک خواب رکھتا ہوں۔
علامہ اقبال نے مسلمانان ہند کی آزادی کا خواب دیکھا ہم نے اُس کی تعبیر پائی۔ حیدرآباد، کشمیر ، دکن اور اجنالہ کے لوگ ابھی تک خواب دیکھتے ہیں۔ خواب آور خطاب اور خواب سوچنے والوں میں بہت فرق ہے۔ خواب جدوجہد، تحریک اور مستقبل کا نقشہ ہوتے ہیں جن میں حقیقت کا رنگ بھرنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ عوامی جمہوریہ چین و جنوبی کوریا ہمارے بعد آزاد ہوئے۔ آج دنیا کی ہر بڑی معیشت یا ہر بڑی طاقت دونوں کے ساتھ تعلقات کو اچھے مستقبل کی ضمانت سمجھتی ہے۔ سچ بات ہے کہنا پڑے گی کہ ہم ماضیِ مرحوم کے قیدی ہیں لہٰذا خواب فروش بھی جنرل یحییٰ کے خوابوں سے باہر نہیں نکلتے۔ اُس کے کچھ خواب وہ ہیں جن کی تفصیلات نگار خانوں سے بر آمد ہوئیں ۔اب تو نگار خانے بھی یحییٰ خان کے سہالہ پھاٹک والے خواب کی طرح خوابِ پریشاں بن کر اُجڑ چکے ہیں۔سی ڈی اے کے دفتری ریکارڈ میں بریگیڈیئر یحییٰ کی وہ تصویر موجود ہے جہاں وہ دارالحکومت کمیشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔ اس تاریخ کے سائے میں بننے والا شہر اب شہرِ سکندری کہلاتا ہے۔ ڈی چوک سے شاہراہ دستور تک کلاشنکوف اور بندوق طاقت کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔ جسے یقین نہ آئے وہ اسلام آباد کی انتظامیہ سے پوچھے یا پنجاب اسمبلی کے باہر ریاستی تشدد کا نشانہ بننے والے خالی ہاتھ سیاسی کارکنوں سے معلوم کرے۔ جنرل یحییٰ کے اکثر خواب اُس کا آباد کردہ شہر پورے کر رہا ہے۔ ایک غیر مسلم جج صاحب کے ذریعے اسلامی نظام کا ناک نقشہ ہو یا عساکر کو شریکِ اقتدار کرنے والی نیشنل سیکورٹی کونسل کی تجویز۔ پہلی پر اُس کے ایک بالکے نے گیارہ سال محنت کی جس کا پھل آج پاکستان کے ہر گھر میں مفت پہنچ رہا ہے۔ دوسرے خواب کو ہماری پیاری جمہوریت نے قانون سازی اور پارلیمینٹ کی منظوری کے بغیر تعبیر عطا کر دی۔ کابینہ کی دفاعی کمیٹی ڈی سی سی کی تشکیل وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس کے تحت ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ کابینہ ہی کی سب کمیٹی ہے۔ اس سب کمیٹی کو ایکٹ آف پارلیمینٹ کے بغیر نہ کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی غیر منتخب ریاستی عہدیدار اس کے رکن بن سکتے ہیں۔ نیشنل سیکور ٹی کونسل نہ آئینی ادارہ ہے نہ قانونی۔ اسی لئے جنرل جہانگیر کرامت کے دور میں موجودہ وزیرِ اعظم نے اس کی تشکیل بہت غصہ میں نامنظور کر دی تھی پھر انہوں نے میثاقِ جمہوریت میں اسے تحریری طور پر ماورائے جمہوریت قرار دیا۔ اگر اٹھارہ سال بعد یہ قومی ضرورت ہے تو پھر جنرل جہانگیر کو امریکہ سے واپس بلا کر محسنِ جمہوریت کا تاج پہنانا چاہئے۔ اُس تقریب کا عنوان” نظریہٴ ضرورت زندہ باد“ رکھنا ہو گا۔ ضرورت سے یاد آیا بارہ کروڑ آبادی والے پنجاب کے ووٹر ہمیں صرف ووٹ دیتے وقت اچھے لگتے ہیں۔ وہ سندھ کے کچے کی طرح سیلاب میں ڈوب جائیں یا کالا باغ ڈیم کے لئے ترستے رہیں ۔ ووٹ ملنے کے بعد سرکار کے معیار بدل جاتے ہیں۔ چنانچہ ملک کے چیف ایگزیکٹو نے بھیڑ چال چلنے والوں کو ایک تازہ پیغام محبت بھیجا ہے اور وہ یہ کہ کالا باغ ڈیم پر نہ تو کوئی سوال پوچھا جائے گا اور نہ ہی کوئی جواب مانگے گا۔
وہ لوگ جنہیں کل تک دعو یٰ تھا رفاقت کا
تذلیل پہ اترے ہیں ، اپنوں ہی کے ناموں کی
بگڑے ہوئے تیور ہیں نوعمر سیاست کے
بپھری ہوئی سانسیں ہیں نو مشق نظاموں کی
حالانکہ ابتدائی سرکاری دستاویزات کے مطابق کالا باغ ڈیم کی جگہ کا انتخاب اور اسلام آباد کے مقام کی چوائس کرنے والا ایک ہی شخص تھا۔
نئی جمہوریت مئی کے شروع میں برسرِاقتدار آئی تھی اب اگست کا اختتام ہے ۔ پارلیمینٹ نے ان چار مہینوں میں عوامی مفاد یا قومی ضرورت پر مبنی ایک بھی قانون پاس نہیں کیا۔ قانون کے طالب علم کی حیثیت سے میں تو یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ سرکار اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر یا مُک مُکا سے انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تفتیش کے لئے جو کمیٹی تجویز کی ہے وہ کس قانون … ؟ کس ضابطے…؟ اور آئین کے کس آرٹیکل کے تحت بن سکتی ہے…؟ پاکستان کے آئین میں انتخابی تنازعے طے کرنے کے لئے آرٹیکل 225 کہتا ہے کوئی بھی انتخابی جھگڑا صرف اور صرف ایکٹ آف پارلیمینٹ کے ذریعے بنائے گئے الیکشن ٹریبونل کے علاوہ کہیں اور طے نہیں ہو سکتا۔ اب اگر پارلیمینٹ اپنے ہی بنائے ہوئے آئین اور پھر اسی آئین کے تحت بننے والے فورم کو بلڈوز کر کے انتخابی جھگڑے طے کرنے کا اختیار ہتھیانا چاہتی ہے تو اسے پہلے آئین بدلنا ہو گا۔ لگتا ہے نظریہٴ ضرورت والی چھوت کی بیماری شاہراہ دستور کے ہر بڑے گھر میں سیلابی پانی کی طرح پھیل رہی ہے۔
2010ء کے سیلاب میں مرکز اور صوبوں کے درمیان لفظوں کی گولہ باری اور فوٹو سیشن کے مقابلے کے بعد حالیہ سیلاب نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کے غریب ہاری اور محنت کش دیہاتی عوام جنتِ فردا کے دھوکے میں زندہ ہیں۔جہاں بڑوں کا مفاد آتاہے اسے قومی تقاضا کہہ کر یا مفاہمت کے نام پر سودا کر کے طے کر لیا جاتا ہے۔ دو سو گھرانوں کی لونڈی جمہوریت کو سرِبازار اور کبھی سرِ دربار نچوایا جاتا ہے۔ پچھلے الیکشن اور ضمنی الیکشن کی پوری مہم میں صرف ایک چیز کا نام نہیں آیا اور وہ تھے غریب عوام… باقی تاجِ برطانیہ سے لے کر شانِ سکندری تک سارا کچھ زیرِ بحث رہا۔ اگر چھیاسٹھ سال بعد سیاسی قیادت دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر اور جھولی پھیلا کر پاکستان کے ریٹائرڈ ججوں ، بزرگ ٹیکنو کریٹ اور فوجی قیادت سے مسئلے کا حل مانگتی ہے تو پھر اللہ اس کارواں کی خیر کرے،جس کے میر اور وزیر سیلاب میں ڈوبے کروڑوں ووٹروں کو ڈینگی مچھر جتنی اہمیت دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔ جنرل یحییٰ ایک سوچ، مخصوص طرزِ حکومت اور اپنی ذات کے قیدیوں کے کلب کا نام ہے۔ جمہوری معاشروں میں حکومتوں کے پاس دو راستے ہوتے ہیں یا وہ قومی معاملات پر فیصلہ کریں یا کسی اور کو فیصلہ کرنے دیں۔ میری خواہش ہے کہ فیصلہ وہ کریں جنہوں نے فیصلہ کرنے کا حلف اُٹھایا ہے۔ اگر فیصلہ سازی نہیں کر سکتے تو پھر یاد رکھیں کہ فرعون سے لے کر سیسی تک کوئی بھی سڑکوں، بازاروں اور کھلیانوں میں سجنے والے میدان اجاڑ نہیں سکتا۔ غریب بے طاقت ہیں، بے حمیت یا بے ہمت نہیں ہو سکتے۔ پاکستان طبقوں، فرقوں اور زور آوروں نے یرغمال بنا لیا ہے۔ قانون کی قوتِ نافذہ ، یحییٰ خان کے سوچے ہوئے شہر میں ایک بندوق بردار کے سامنے بے بس ہے۔ قومی انتخابی مہم میں غریبوں کو جو جنت دکھائی گئی اس کا جادو ضمنی الیکشن میں ٹوٹ چکا ہے۔ آدھے لوگ بھی گھروں سے باہر نہیں نکلے۔ ساھر لدھیانوی نے آج کے قومی منظر نامے پر تقسیم ِ ہند سے پہلے کہہ دیا تھا
فریب ِ جنت ِ فرد ا کے جال ٹوٹ گئے
حیات اپنی امیدوں پہ شرمسار سی ہے
چمن میں جشنِ ورودِ بہار ہو بھی چکا
مگر نگاہِ گل و لالہ سوگوار سی ہے
تازہ ترین