کراچی کی آبادی کے غیر سرکاری اعداد و شمار (تقر یباً ڈھائی کروڑ ) کو تسلیم کیا جائے یا سرکاری اعداد و شمار ( ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ) کو ، دونوں کے مطابق یہاں پر قائم سرکاری جا معات کسی طرح بھی آبادی کے حساب سے اطمینان بخش نہیں ہیں ۔
دوسرے شعبوں کی طرح عوام کو تعلیمی سہولت بہم پہنچانا بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب ریاست اس ذمہ داری کو کس حد تک پورا کر رہی ہے یہ سب جانتے ہیں۔ کراچی کا موازنہ تعلیمی میدان میں دوسرے شہروں سے نہیں کر سکتے، کیوں کہ موازنہ ہمیشہ ہم پلہ چیزوں کے درمیان کیا جاتا ہے ۔ خیر اس ہفتے کراچی کی چند مشہور سرکاری جامعات کے بارے میں پڑھیے۔
کراچی یونیورسٹی
قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں اعلی تعلیم اور تحقیق کے ذرائع بہت محدود تھے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نہ ہونے کے برابر تھے تو غلط نہ ہو گا ۔ملک میں تعلیم کی سہولتوں کا اضافہ کرنا تعلیم کے زیادہ سے زیادہ مواقع مہیا کرنے میں ملک میں اعلی سرکاری تعلیمی اداروں کی اشد ضرورت تھی ۔ ، جسے پورا کرنے کے لئے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے ایک جامع پالیسی مرتب کی اس پالیسی کی بدولت جامعہ کراچی کی بنیاد پڑی ۔اس کا قیام ایک ایکٹ کے ذریعہ جون 1951 ء میں عمل میں آیا ۔پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر اے۔بی۔ حلیم تھے، جنہوں نے 23 جون ء کو اپنی ذمہ داری سنبھالی اور 22 جون 1957 ء تک اس عہدے پر فائز رہے ۔
یونیورسٹی کا آغاز دو فیکلٹیز آرٹس اور سائنس سے ہوا ۔ تقریباً1279 ایکڑ پر پھیلی ہوئی یہ یونیورسٹی اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی مانی جاتی ہے ۔اس وقت جامعہ کراچی میں 9 فیکلٹیز ، 53 سے زائد شعبہ جات ، اور تقریباً 19 ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ،800سے زیادہ تعلیمی ماہرین اور 2500 سے زیادہ معاون اسٹاف کام کر رہا ہے ۔ پاکستان کی سب سے بڑی پبلک لائبریری بھی اسی جامعہ میں محمود حسین لائبریری کے نام سے قائم ہے۔
یونیورسٹی کو برطانیہ کی ایسو سی ایشن آف کامن ویلتھ یونیورسٹیز کا رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔2008 ء میں جامعہ کراچی کو دنیا کی ٹاپ 600 یونیورسٹی میں شامل ہونے کا پہلی بار اعزاز حاصل ہوا ، جب کہ 2009 میں دنیا کی ٹاپ 500 یونیورسٹیز میں ، 2016 ء دنیا کی 701 ویں اور ایشیا ء کی ٹاپ 250 یونیورسٹیز میں شامل کیا گیا۔ 2019 میں دنیا کی 801 ویں یونیورسٹی بن گئی اور ایشیا ء کی 251 ویں یونیورسٹی قرار پائی ۔ جامعہ کےآخری باقائدہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اجمل خان تھے جو 24 جنوری 2017 ء کو اپنے عہدے پر فائز ہوئے اور 4 مئی 2019 ء کو اُن کا انتقال ہوا، اس وقت وہ وائس چانسلر تھے۔ اس وقت عبوری وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی ہیں، انہوں نے یہ عہدہ 5 مئی 2019 ء کو ڈاکٹر محمد اجمل خان کے انتقال کے باعث سنبھالا ۔
این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لوجی
این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لوجی کراچی کا شمار پاکستان کی قدیم یونیورسٹی میں ہوتا ہے ۔ 1921 ء میں پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی جسے بعد میں ایک پارسی زمیندار نادر شاہ ایڈویلجی ڈنشا کے نام سے موسوم کردیا گیا نادر شاہ ایڈ ویلجی ڈنشا نے کالج کی تعمیر میں نہ صرف عملی جد و جہد کی بلکہ اس کی تعمیر میں اس وقت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے سے مالی تعاون بھی کیا جسکی بدولت اسکی تعمیر ممکن ہوسکی ۔ اور پرنس آف ویلز انجینئرنگ کالج کے نام قائم ہونے والا یہ ادارہ این ای ڈی کالج ہوگیا ۔
برطانوی دور حکومت میں 1923 ء میں اس کالج کا عارضی طور پر بمبئی یونیورسٹی سے الحاق ہوا ، بعد ازاں فروری 1927 ء میں کالج کا بمبئی یونورسٹی سے الحاق ہو گیا،1947 ء تک یہ بمبئ یونیورسٹی سے منسلک رہا ۔ 1947 ء کے بعد یہ کالج این ای ڈی گورنمنٹ انجینئرنگ کالج ہوگیا اور اس کا انتظام سندھ حکومت کے حوالے کر دیا گیا ۔ کالج کے پہلے مستقل پرنسپل جی این گھوکلے تھے جنہوں نے یکم جولائی 1923 ء کو اپنے عہدے پر فائز ہوئے، جبکہ کالج کے پہلے پروفیسر اور وائس پرنسپل مسٹر ایس بی تھے ۔
یونیورسٹی کا موجودہ کیمپس یونیورسٹی روڈ پر 1975ء میں قائم کیا گیا۔مارچ 1977 ء میں اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا اور اس کا نام اسی نادر شاہ ایڈویلجی ڈنشا کے نام پر ہی رہا ۔ اس کی وجہ نادر شاہ کی اس کے قیام میں بڑی خدمات شامل ہونا ہے ۔ اس کے پہلے وائس چانسلر اے ایم اخوند تھے جبکہ موجودہ وائس چا نسلر پروفیسر ڈاکٹر حشمت لودھی ہیں اور آج یہ این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لوجی کے نام سے ہی قائم ہے جو سندھ حکومت کےزیر انتظام ہے۔
یونیورسٹی ایسوسی ایشن آف کامن ویلتھ ( یو –کے ) کی ممبر بھی ہے ۔ اس سے منسلک یا وابستہ کالج کی تعداد تقریباً آٹھ ہے اور یونیورسٹی کی فیکلٹیز میں سول ، پیٹرولیم ، میکینیکل، الیکٹریکل ، کمپیوٹر، انفارمیشن اینڈ مینجمیٹ سائنسز، ٹیکسٹائل ، اور آرکیٹیکچرل شامل ہیں۔ یونیورسٹی انڈر گریجویٹ ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی کی سطح کے ڈگری پروگرامز کے کورسز کرواتی ہے ۔ا س کا شمار پاکستان کی سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹیز میں صف اول کی یونیورسٹیز میں ہوتا ہے ۔ (جاری ہے)