صحت کارڈ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا فلیگ شپ پروگرام ہے جو پاکستان کی تاریخ میں حکومتوں کی طرف سے عوام کو سہولت فراہم کرنے کے باب میں اپنی مثال آپ ہے اور علاج معالجہ کی یہ سہولت پنجاب کے ہر شہری کے لیے یکساں طور پر متعارف کروائی گئی ہے اور صحت کارڈ کی عدم دستیابی کی صورت میں قومی شناختی کارڈ کو صحت کارڈ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب کا رہائشی کوئی بھی خاندان اب ایک سال میں مجموعی طور پردس لاکھ روپے کی خطیر رقم خود پر یا اپنے خاندان کے افراد کے علاج معالجہ کے لیے استعمال کرنے کا استحقاق رکھتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس حوالے سے تین برسو ں میں تقریباً462ارب روپے خرچ کرے گی۔
خیبر پختونخوا میں صحت کارڈ کی یہ سہولت بڑی کامیابی سے عوام کو فراہم کی جارہی ہے اور اب تک اربوں روپے اس مد میں اسٹیٹ لائف انشورنش کارپوریشن اور پرائیوٹ اسپتالوں کو ادا کئے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں 46 گورنمنٹ اور 127نجی اسپتال اس اسکیم کے تحت رجسٹر ہیں اور عوام کی کثیر تعداد نے نجی اسپتالوں سے اپنا علاج کروایا ہے اور سرکاری اسپتالوں میں عوام کا جو ہجوم ہمہ وقت دکھائی دیتا تھا اس میں بھی کمی دیکھنے میں آئی اور عوام بھی اپنے علاج معالجے میں ان سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں جو اس سے پہلے صرف اہلِ ثروت افراد کا مقدر تھیں۔ خیبرپختونخوا کی گورنمنٹ نے صحت کارڈ کی سہولت ستمبر2016میں شروع کی تھی اور اب تک تقریباً110ارب روپے کی خطیر رقم اس سلسلے میں خرچ کی گئی ہے۔2018میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس صوبے میں دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی اوراِ س کامیابی میں صحت کارڈ کی فراہمی نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
پنجاب میں مارچ تک تمام36اضلاع میں یہ سہولت عوام کے لیے دستیاب ہو گی اور مبصرین اسے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ایک بڑی کامیابی مان رہے ہیں۔ سہولت کارڈ صحت کے میدان میں ہونے والی ممکنہ سرمایہ کاری کے لیے ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ نجی شعبہ میں نجی اسپتال اور ڈسپنسریوں کا ایک جال بچھنے جا رہا ہے کیونکہ صرف نجی شعبہ سرمایہ کاروں کے لیے باعث کشش رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری شعبہ میں جدید رجحانات کا فقدان اور سرخ فیتے کا رواج پاکستانی معاشرے کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ ہے۔ پنجاب کے دور دراز کے دیہات میں معیاری علاج معالجہ کی عدم دستیابی سے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ایک بستر پر دو سے تین مریضوں کی صورت میں دکھائی دیتی تھی لیکن اب بہتری کی ایک کِرن دکھائی دی ہے کیونکہ قیامِ پاکستان سے اب تک صحت کاشعبہ شدید تنزلی کا شکار ہوا اور یہ تنزلی دوسرے شعبوں کی طرح شعبہ صحت میں بھی عام تھی جبکہ مہذب معاشروں میں یہ تنزلی شازونادر دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہمیشہ بڑے بڑے منصوبے اپنی تکمیل سے پہلے ہی سردخانے کا شکار ہوجاتے ہیں لیکن بڑے معاشی بحران کے باوجود عوام کی فلاح کے اس منصوبے نے عوام کی کثیر تعداد کی زندگیوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی کثیر تعداد کو اس سہولت کے متعلق مکمل آگاہی دینا حکومت کے لیے ایک اہم چیلنج ہو گا ساتھ ہی ساتھ کچھ حلقے اس منصوبے کی افادیت کے حوالے سے مختلف سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ اس پروگرام کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں کے فنڈز مزید کم کئے جائیں گے اور سرکاری شعبہ میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی عدم دستیابی سے عوام کی بڑی تعداد مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عام مریض اس سارے معاملے میں انشورنش کمپنی اور نجی اسپتال کی انتظامیہ کے درمیان میں ایک سینڈوچ کی سی کیفیت کا شکار ہو سکتا ہے بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں۔کوئی بھی منصوبہ شروع میں کسی کمی کا شکار ہو سکتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بہتری اور اصلاح کے مواقع بھی موجود ہوتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 260ارب روپے احساس پروگرام کی مد میں رکھے ہیں اور 120ارب روپے مہنگائی کے حوالے سے50 ہزار روپے سے کم آمدن والے خاندانوں کے لیے مختص کئے گئے ہیں یہ تمام پروگرامز درحقیقت ایک فلاحی مملکت کا پیش خیمہ ہیں کیونکہ ریاستی وسائل کا استعمال پاکستان کی غریب اور محکوم عوام کا بنیادی حق ہے اور پہلی مرتبہ ان وسائل کا رُخ ریاست کے کمزور طبقوں کی طرف موڑنا نہ صرف ملک کے استحکام کے لیے بہت ضروری تھابلکہ آئین کے آرٹیکل 9کے مطابق جو حقوق عوام کو مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ان کو ادا کرنے میں اب مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔
خیبرپختونخوا کی گورنمنٹ نے صحت کارڈ کی سہولت کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے میڈیا کو بتایا ہے کہ صوبے میں اس سلسلے میں تھرڈ پارٹی آڈٹ کا اہتمام کیا جا رہا ہے تا کہ اس سلسلے میں مزید بہتری کی گنجائش کے حوالے سے کام کیا جا سکے اور معاملات کو شفاف رکھا جا سکے اور اس سلسلے میں آئوٹ ڈور کے مریضوں کے علاج کی سہولت کو بھی صحت کارڈ کی اسکیم میں شامل کیا جا سکے اور اس سلسلے میں حکومت ایک صحت ایکٹ کے تحت اس کو قانونی حیثیت دینے جا رہی ہے تا کہ آئندہ آنے والی حکومتیں سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر اس پروگرام کوبند نہ کرسکیں۔
پنجاب میں وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق صحت کارڈ کا اجرا وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی اہم کامیابی تصور کی جا رہی ہے اور اب سرکاری اسپتالوں کی تعمیر و ترویج کے ساتھ ہی نجی شعبہ میں اسپتالوں کی تعمیر کو ایک خاموش انقلاب اگر مان لیا جائے تو یہ ریاستِ مدینہ کے اسلامی فلاحی فلسفہ کو عملی جامہ پہنانے کی طرف پہلا قدم ہو گا اور یہ پاکستانیوں کا حق ہے کہ وہ ریاستی وسائل کا استعمال اپنی زندگی میں بہتری لانے کے لیے کریں اور ایک باوقار قوم کا حصہ ہونے پر فخر محسوس کریں۔