• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: تعویذ کی حقیقت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیا ہے؟

جواب: تعویذ کی حیثیت دوا کی طرح ایک تدبیر کی ہے،جس طرح دوا کی صورت میں تدبیرجائز ہے ،اسی طرح تعویذ کی صورت میں بھی تدبیر جائز ہے اورجس طرح دواپاک یا ناپاک یاحلال یاحرام ہوسکتی ہے، اسی طرح تعویذبھی جائز یا ناجائز ہوسکتا ہے۔

احادیث طیبہ کو سامنے رکھ کرفقہاء تحریر کرتے ہیں کہ جس تعویذ کامعنی و مفہوم معلوم ہو ،اس میں کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، اس کے بذات خود مؤثر ہونے کا عقیدہ نہ رکھا جائے، خود تعویذ کا مواد اوراس کا طریقہ کار بھی جائز ہو اورسب سے بڑھ کر جائز مقصد کے لیے اس کااستعمال ہوتو ایساتعویذ جائز ہے۔

بعض حدیثوں میں ’’تمیمۃ‘‘ کی ممانعت آئی ہے، مگر ’’تمیمۃ‘‘ سے مراد قرآن وحدیث یا جائز کلمات پر مشتمل تعویذ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد جانور کی ہڈی یا ڈوری وغیرہ ہے، جسے زمانہ جاہلیت میں لوگ گلے میں لٹکا دیا کرتے تھے اور اس کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ مؤثر بالذات ہے، اور ہمیں آفات و مصائب سے بچاتا ہے اور ہماری مرادیں حل کرتا ہے۔ 

ظاہر ہے جب کسی چیز کے متعلق مؤثر حقیقی ہونے کاعقیدہ رکھاجائے گا تو وہ ناجائز ہی ٹھہرے گی، لیکن اگر جائز کلمات ہوں اور جائز مقصد کے لیے اس کااستعمال ہو اور ایک تدبیر کے طور پر اسے اختیار کیاجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔