• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
ترکی کی معیشت جس طریقے سے تیزی سے گر رہی ہے اور لیرا بے وقعت ہوکے رہ گیا ہے۔ اس پر دنیا بھر سے ماہرین معاشیات اپنے اپنے خیالات تو دے رہے ہیں لیکن اس بات پر انہیں اتفاق ہے کہ68 سالہ صدررجب طیب ایردوان دراصل سرمایہ داری کے آزمودہ فارمولوں کو نظر انداز کرکے معیشت کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سرمایہ داری معیشت میں اگر افراط ذر بہت بڑھ جائے لیکن شرح سود میں اضافہ نہ کیا جائے تو معیشت بیٹھ جاتی ہے۔ اس وقت ترکی کی بڑی عجیب صورتحال ہے کہ روز گار موجود ہے لیکن اداروں کے پاس تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ ترک لیرا تقریبا 67 فیصد کم قدر پر جاچکا ہے ترکی پر 182 ارب ڈالر کے قرضے ہیں۔ تخمینہ یہ ہے کہ یہ آئندہ دو سال میں 300ارب ڈالر پر جاپہنچیں گے۔ اس وقت اگر آپ عام کاروباری اڈوں پر جائیں اور اگر آپ کے پاس لیرا نہیں ہے، لیکن یورو یا ڈالر ہے توآپ بطور کرنسی ااستعمال کرسکتے ہیں۔ اس لئے سیاح ترکی جاکر لیرا کم ہی خریدتے ہیں بلکہ یورو اور ڈالر ہی استعمال کرتے ہیں۔ آٹھ کروڑ کی آبادی کا یہ ملک جس کے پاس بڑی تعداد میں ہنر مند وار جوان فورس موجود ہے۔ تعمیرات وغیر میں پلاننگ کی نرم اور لچکدار پالیسی اور ٹیکس کی سہولیات کی وجہ سے ترکی کو بیرون ممالک کی سرمایہ کاری کیلئے بہترین جز تصور کیا جاتا ہے لیکن مقامی ترک بہت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اس وقت ترکی کے بنک ایک لاکھ لیرا فی کس سے زائد کی ضمانت دینے کو تیار نہیں۔ وہاںپانچ لیرا سے لیکر 200لیرا تک کے کرنسی نوٹ چلتے ہیں لیکن لوگوں کے پاس یہ پیسہ غائب ہے۔اس وقت پوائنٹ58ڈالر کے ایک ہزار ٹرکش لیرا آتے ہیں جس کی سے یورپی اور امریکی کرنسی کیلئے ترکی اس وقت سستی ترین جگہ ہے۔ معاشی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ترکی میں پرائیوٹ غیر ملکی کرنسی نے خسارے میں بہت اضافہ کردیا ہےاور وہ ایردوان کی آمرانہ حکمت عملی کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں یہ تو ہے تصویر کا ایک رخ،جسے مغربی میڈیا بیان کررہا ہے لیکن ترکوں کی بڑی آبادی جو کہ ایردوان کی سپورٹر ہے۔ وہ اس سب کچھ کو دراصل 1923میں سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے پر فاتح ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدہ لاسین Lausanneکے ساتھ جوڑتے ہیں جس کے خاتمے کا صدر ایردوان بے چینی سے منتظر ہے۔ یہ معاہدہ Treatyسلطنت عثمانیہ کو محدود کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔ جنگ عظیم اول میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ ، فرانس، جاپان، اٹلی، رومانیہ اور یونان نے مذاکرات کے طویل راؤنڈ کئےاور سلطنت کے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی گہری منصوبہ بندی کی گئی۔ پہلے 1920 میں معاہدہ ہوا۔ جس کی ترکوں نے شدید مزاحمت کی تاہم 1923 کا معاہدہ اپنی شرائط کے ساتھ لاگو کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل لا کے تحت کیسی بھی معاہدے یا ٹریٹی کی میعاد سو سال ہونے پر ختم ہوجاتی ہے۔ لاسین معاہدہ1923کے تحت ترکی سے عیسائیوں کو یونان جانے اور یونان سے مسلمانوں کو ترکی ہجرت کی اجازت دی گئی۔ لاسین معاہدے کے تحت ترکی کو سب سے بڑا دھچکا یہ لگا کہ اسے تیل سے مالا مال عرب سرزمین سے دستبرار ہونا پڑا۔ جبکہ مشرقی انٹولیا کو جدید ترکی کا حصہ بنادیا گیا۔ اب ترکی کے صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ معاہدہ جب منسوخ تصور ہوگا توجولائی 2023 کے بعد ترکی نہ صرف اپنا تیل نکال سکے گا۔ بلکہ بر آمد بھی کرسکے گا۔ ترکی پر معاہدہ لاسین کے تحت اپنا تیل نکالنے پر بھی پابندی عائد تھی۔ اورترکی اپنے معدنی ذخائر سے بھی مستفید ہونے لگے گا۔ تیل کی بر آمدات میں ترکی تیل برآمد ہونے والے بڑے ممالک میں شمار ہونے لگے گا۔ ترکی آبنائے باسپورس (جو کہ پہلے انٹرنیشنل آبنائےStartسمجھی جاتی تھی) پر اپنا کنڑول قائم کرکے راہداری ٹیکس عائد کرسکے گایہ آبنائے بحرہ عرب اسود (بلیک سی) اور بحیرہ مارمورا کو ملاتاہے۔ یہ آبنائےعالمی تجارت کیلئےبہت اہم ہے۔یہاں سے روزانہ سیکڑوںبحری جہاز عالمی مال برداری کا کام کرتے ہیںاس معاہدے کے خاتمے کے بعد ترکی اپنی کھوئی ہوئی سرزمین پر اپنا قلم بحال کرنا چاہتا ہے۔ جس میںجنوبی اردن سے لیکر مغربی سعودیہ تک کے علاقے شامل ہیں اور ان میںترک دعوے کے مطابق مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی آتے ہیں۔ اس ترک دعوے پر میں آئندہ کالم میں بات کرونگا۔ یہ ہے وہ مختصرخاکہ جو صدر ایردوان کے مائنڈ سیٹ کو ظاہرکرتا ہے۔ جس کے تحت ترکی کی کایا پلٹنے میں بس ڈیڑھ سال رہ گیا ترک عوام کیلئے دعا کرنی چاہیے۔
یورپ سے سے مزید