کراچی نے جو تیز رفتار ترقی کی اس کی مثال شائد ہی دنیا کے کسی دوسرے شہر کی ملتی ہو۔ یہ ساری ترقی قیام پاکستان سے قبل کا قصہ ہے، جب ہندو، مسلم ، پارسی اور عیسائی اس شہر کی ترقی اور خوبصورتی کے لیے یک سو تھے۔ مشترکہ طور پر اپنے شہر کی دیکھ بھال کے لیے نمائندے منتخب کرتے۔ انہی منتخب لوگوں نے بغیر کسی بیرونی امداد کے بلدیہ کراچی کی عظیم الشان عمارت سمیت بے شمار یاد گاریں تعمیر کیں، جن پر آج بھی اہل کراچی آثار قدیمہ کے طور پر فخر کرتے ہیں۔
18 کلو میٹر دور سے صاف پانی لانے کا منصوبہ ہو یا بہترین ٹاون پلانگ، معیاری اور خوبصورت آرکیٹیکچر، انجینئرنگ ، تعمیر و ترقی، مرمت و دیکھ بھال، کشادہ و مضبوط سڑکیں، ان پر روشنیاں ، اسپتال، وسیع و عریض باغات اور تعلیمی ادارے، جن کی وجہ سے اس کو مشرق اور ایشیاء کے خوب صورت شہر کا خطاب ملا۔ انگریز جمہوریت پسند تھے۔ بلدیاتی ادارے مقامی افراد کی نگرانی میں دے دئیے گئے، عوامی نمائندوں کی قیادت میں یہ بنیادی جمہوری ادارے پھلتے پھولتے، عوام کے بنیادی مسائل حل ہوتے رہے، معاشرہ تیزی سے ترقی کرتا اور خوش حال ہوتا گیا۔
لیکن قیام پاکستان کے بعد کیا ہوا کہ ترقی کی بنیادی سیڑھی اور جمہوریت کی نرسری عوام کے دسترس سے دور ہوگئی۔ کراچی کا ہی نہیں پورے پاکستان کا برا حال ہوگیا۔ لیکن آج تو بڑے شہروں خاص طور پر کراچی کے شہریوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ پانی ،سیوریج کا نظام ناقض، اسٹریٹ لائٹ نہ ہونے کے برابر، عوامی ٹرانسپورٹ، شہری سہولیات غرض کوئی ایک ضرورت بھی پوری نہیں ہوتی۔ 75 برس گزرنے کے بعد بھی ترقی کا طیارہ ابھی رن وے پر ہی نہیں چڑھا، سیاست دان اور حکمران اس کی وجوہات خوب جانتے ہیں لیکن دانستہ اس کا حل نہیں نکالتے۔
اب کیسا ہو گیا میرا کراچی
عوام بنیادی مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی کمزوری، اس کی واحد وجہ ہے۔جمہوری اداروں کی پوری طرح نشو و نما نہ ہونا صرف سیاسی حکومتوں کا وقفے وقفے سے توڑنا اور مارشل لاءکا نفاذ ہی نہیں، خود سیاسی جماعتوں میں عدم جمہوریت، مقامی بلدیاتی اداروں کے ساتھ مارشل لاءکا جیسا سلوک کرنے سے جمہوریت کمزور اور ترقی کا سفر رکا ہوا ہے ۔ ہر آمر نے مقامی حکومتوں میں علحیدہ علحیدہ ماڈل کے ساتھ بنیادی جمہوریت بحال کی لیکن ان کے بعد اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی پارٹی نے ان اداروں کے ساتھ سخت رویہ اور ناروا سلوک روا رکھا۔
جیسے یہ ادارے مارشل لاءکے نفاذ کے ذمہ دار ہوں۔ جمہوری دور میں بلدیاتی اداروں کو توڑ کر بیوروکریسی کے حوالے کرنے سے نہ صرف بلدیاتی اداروں اور بنیادی جمہوریت کا ارتقاء مجروح ہوتا رہا بلکہ نرسری میں وہ پنیری ہی تیار نہ ہو سکی جس سے جمہوریت کا پھل ملنے کی توقع کی جا سکتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوری معاشروں میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والی مقامی حکومتوں پر پاکستان کی جمہوری حکومتوں نے نہ صرف اہمت ہی نہیں دی، بلکہ اس پر تہہ و تیغ سے حملہ آور ہوتی رہی۔
کشتہ تیغ ستم، بلدیہ کراچی ہمیشہ ان ستم گروں کے نشانہ پر ہی رہی جو جمہویت کا نعرہ لگا کر اسمبلیوں میں آتے رہے قانون سازی اور طاقت کے اختیار کو استعمال کرکے جمہوریت کی نرسریوں کو کچلتے رہے ۔ سیاسی جماعتیں اور سیاست دان شائد سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کا اختیار بنیادی سطح کے منتخب نمائندوں کے پاس ہو گا توان کا کنٹرول کم ہو جائے گا۔
ان اداروں کے ساتھ سیاسی لیڈروں کے مفادات وابستہ ہیں ،لہذا وہ کارکنوں کے حوالے کر کے ان کی مداخلت اور اپنا کنٹرول کم کرنے پر تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ جمہوری دور میں نہ بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں اور نہ بلدیاتی نظام مضبوط کیا جاتا ہے،بلکہ ان اداروں کو گذشتہ 13 سال کے دوران ایسے توڑا کہ اب نہ ان کی افادیت باقی رہی نہ اہمیت ۔
کراچی پر اس کے گہرے اثرات پڑے اور اس کی لوکل گورنمنٹ کو مفلوج بنا دیا گیا۔ تین کروڑ آبادی کے شہر میں کوئی بلدیاتی نظام ہی نہیں جو اس شہر کا پانی، سیوریج، بجلی صفائی، اسٹریٹ لائٹ گلیوں سڑکوں کو پختہ کرنے سمیت بنیادی شہری مسائل حل کرنے کا ذمہ دار ہو۔حکومت کوشش کر رہی ہے چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی کہ کچھ مسائل حل ہوں مگر طے شدہ اصولوں اور نظام کے بغیر کامیابی حاصل کرنا عبث ہے ۔
یہ شہر بہترین نظام حکومت اور طویل جدوجہد سے عظیم کہلایا۔ 18مئی 1882ءکو لارڈ ریپن نے عوام سے اپیل کی کہ وہ سماجی خدمت کے لئے آگے آئیں اور مقامی انتظامی اداروں کا حصہ بنیں، پالیسی بیان کے لئے وائسرائے ہند نے لاہور میونسپلٹی کی کونسل کو منتخب کیا جہاں اس نے عوام سے کہا کہ بہترین افراد آگے آئیں اور ان اداروں میں شامل ہوکر سیاسی تربیت حاصل کریں تاکہ اپنے کام خود کرسکیں، یہ حکومت ہی کے نامزد افراد کی کونسل تھی لیکن انگریز حکمران کے اس عمل سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پالیسی بیان کے لئے لاہور میونسپلٹی کا انتخاب بلدیاتی اداروں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
بعد میں برطانوی حکومت نے مقامی سطح کے تمام وسائل ، مقامی لوگوں کے حوالے کئے کہ وہ مقامی مسائل حل کریں ، پھر تیز رفتار اصلاحات ہوئیں اور انتخابات کے ذریعے تمام وسائل بنیادی اداروں اور عوامی نمائندوں کے حوالے کردیئے گئے۔ آنے والے وقتوں میں ہم نے دیکھا کہ بہت کم مدت میں عوام کے مسائل حل ہونا شروع ہوئے اور شہر ترقی کرنے لگے ۔ کراچی کی ترقی اور عظیم شہر کا خطاب انگریزوں کے انہی اقدامات کی وجہ سے ملا، جس کے تحت مقامی وسائل مقامی نمائندوں کے حوالے ہوئے۔
اب عوامی نمائندوں کی اس شہر کی ترقی میں خدمات ہیں، جن سے آج بھی لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں ۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ان خدمات کے لیے بلدیہ کو کبھی بھی بیرونی امداد نہیں ملی، کبھی کوشش بھی کی گئی تو حکومت کی طرف سے صاف انکار کر دیا جاتا رہا۔ برصغیر کے بڑے شہروں خصوصاََ کراچی کی تر ترقی میں مقامی قیادت کا ہی کردار ہے، جس نے مقامی سطح پر منتخب ہوکر اس ادارے کا کنٹرول سنبھالا اور اسے مضبوط کیا ۔1882میں جب عوامی نمائندوں کے لئے بلدیہ کراچی کا دروازہ کھولا گیا اور 1948 تک یہ کھلا رہا،جس کے بعد بلدیاتی نمائندے جبر سے سرکاری حکم نامے کے ذریعے بلدیہ سے نکالے جانے لگے۔
اس ادارے نے یہاں کے شہریوں کے لئے کیا کیا خدمات انجام دیں ،اُن پر قلم بند کیا جائے تو کتاب نہیں کتب خانہ تیار ہوسکتا ہے۔ ڈملوٹی کے کنویں تعمیر کرنا اور وہاں سے پانی نکال کر 20لاکھ گیلن یومیہ 80ہزار آبادی کو 25گیلن فی کس گھروں تک پہنچانا ، اُس زمانے کے لحاظ سے عجوبہ سے کم نہیں۔ یہ اُس وقت کے کراچی کے نمائندوں کی بہترین حکمت علمی اور مالی ڈسیپلین کی اعلٰی ترین مثال ہے ، جس کی بدولت بلدیہ کراچی شہریوں کو بہترین کوالٹی کا پانی وافر مقدار میں فراہم کرنے میں کامیاب ہوئی۔
1883 میں وفاقی حکومت نے اس خواہش پر کہ کراچی میں جدید عوامی ٹرانسپورٹ نظام قائم کرنے کی اجازت دی جائے ،بلدیہ کراچی کی قراردادوں کی منظوری دی، بلدیہ اس امتحان میں بھی پوری اُتری کہ دنیا کا وہ بہترین ٹرانسپورٹ نظام” کراچی ٹرام“ شروع کرنے میں کامیاب ہوئی جو اس وقت جدید اور ترقی یافتہ معاشروں میں پایا جاتا تھا۔
1884میں بلدیہ کی کونسل میں 16منتخب نمائندے داخل ہوئے جنہوں نے اس شہر کی منصوبہ بندی شروع کی۔ یکم نومبر 1884کو انتخابات ہوئے 8دسمبر 1884کو کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ 32 رکنی کونسل میں پچاس فیصد حکومت کے نامزد اراکین شامل کئے گئے۔ لیکن یہی پہلی کونسل ہے جس میں اتنے کثیر منتخب نمائندے شامل ہوئے جن کو مالی و انتظامی اختیارات بھی حاصل ہوئے۔، جب تک امن و امان کا کنڑول مقامی منتخب نمائندوں اور بلدیہ کراچی کے پاس رہا شہر کا امن و امان مثالی رہا۔ 120میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز بارش اور سمندر میں سوا ساتھ فٹ بلند موجوں نے بابا بھٹ اور دیگر جزائر سمیت شہر کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کردیا۔
بھپری لیاری ندی نے گارڈن سے کلفٹن تک کسی سہولت کو سالم نہ چھوڑا ۔ یہ آفات سماوی بھی کراچی کی قیادت کے عزم و ہمت کو شکست نہ دے سکی اور چند ماہ میں ہی شہر و جزائر کی تعمیر نو مکمل ہوگئی ،انہی خدمات پر اس سال بلدیہ کراچی کو برصغیر کی بہترین بلدیہ کا اعزاز دیا گیا۔1915 میں ٹاون پلاننگ ایکٹ کے تحت بلدیہ میں محکمہ آرکیٹیچر کا قیام عمل میں لایا گیا، جو 1979تک بلدیہ کے کنڑول میں رہا۔64 برسوں کے دوران تعمیر ہونے والے شہر کی خوبصورتی اور مضبوطی آج بھی نمایاں ہے ۔
1916میں بلدیہ کراچی جدید ٹیکنالوجی میں منتقل ہوئی ،26روپے 6 آنے میں پہلا ٹائپ رائٹر خریداگیا ، 1918میں بلدیہ کراچی میں ایک قرارداد کے ذریعے شہریوں کو پابند کیا کہ ہر بچہ اسکول میں داخل کیا جائے گا۔ ہر علاقے میں تعلیمی ادارے اور تربیت یافتہ اساتذہ کا انتظام کیا گیا۔ 1920میں ڈرگ روڈ کی پختہ تعمیر کرکے شہر کو ایئرپورٹ سے منسلک کیا گیا اسی سال کراچی کو دنیا کا صاف ترین شہر قرار دیا گیا، انگریزوں نے سال بہ سال محنت کرکے اس بلدیاتی نظام کو مضبوط اور عوامی قیادت کو پختہ کیا تھا ، پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ اور اس کے قائدین نے قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی اس پرکلہاڑا چلادیا۔
8 جولائی 1848کو کراچی کے منتخب میئر غلام علی الانہ کی کونسل توڑ کر میئر کے تمام اختیارات اپنے پاس منتقل کرلئے، پاکستان کے بلدیاتی اداروں کو توڑنے اور منتخب مقامی نمائندوں کو ان اداروں سے بے دخل کرنے کی روایت پاکستان کی خالق جماعت ہی نے ڈالی جو اتنی مضبوط اور پختہ ہوئی کہ کسی بھی جمہوری حکومت نے جمہوریت کی نرسری کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
1953میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔ 14دسمبر 1956کو پھر بلدیہ کو توڑ کر صدیق وہاب کو میئر شپ سے فارغ کردیا گیا ،سردار اے۔ کے ۔گبول کی سربراہی میں جو غیر منتخب 15 افراد پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی قائم کی گئی ،اُس میں صدیق وہاب سمیت 5سابق میئر بھی شامل تھے ۔ لیکن اُن تجربے کار اور ماہر سیاست دانوں کی ایڈوائزری کمیٹی بھی منتخب کونسل کا متبادل ثابت نہ ہوسکی۔
دوبارہ بلدیاتی انتخابات کی صورت میں 12جون 1958می کوایس ایم توفیق میئر منتخب ہوئے جن کی کونسل کو 13اکتوبر 1958کو توڑدیا گیا، 9نومبر 1979کو مئیر عبدالستار افغانی اور 1987 میں میئر ڈاکٹر فاروق ستار کی کونسل بھی اپنی مدت پوری نہیں کرپائی اور ہر ایک کو مسلم لیگ کی حکومت میں ہی گرفتار یا جان بچانے کے لیے مئیر ہوتے ہوئے بھی روپوش ہونا پڑا۔
1947سے 2000 تک کراچی کے عوام نے جن لوگوں کو بھی بنیادی اداروں کے لئے منتخب کیا اُن کو اپناوقت پورا نہیں کرنے دیا گیا۔ نواز شریف دور میں اکٹرائے ٹیکس ہی معطل کر دیا گیا جو بلدیہ کراچی کی سب سے بڑی آمدنی تھی۔ سیکڑوں سال سے نافذ یہ ٹیکس آج بھی معطل ہے،کسی کو اتنی توفیق نہیں کہ اس کی بحالی پر آواز ہی اٹھا لے۔ تو شہر کے مسائل کیسے کم ہو سکتے ہیں ۔