ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 9 میں سے ایک شخص کی عُمر60سال یا اس سے زیادہ ہے۔ اس شرح میں 2050ء تک مزید اضافے کی توقع ہے، جس کے بعد ہر پانچ میں سے ایک فرد معمّر شہری ہوگا۔ دنیا بھر میں جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کی صورتِ حال انتہائی پریشان کُن ہے، وہیں بزرگ افراد کی تعداد میں اضافہ بھی ایک عالمی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ خصوصاً جنوبی ایشیاء میں بزرگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
پائیدار ترقی کا ہدف متعین کرنے والے عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ کے Sustainable development goals programe کے مطابق، پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کی فہرست میں چھٹے اور ساٹھ برس سے زائد عُمر کے افراد کی تعداد کےاعتبار سے پندرہویں نمبر پر ہے کہ یہاں عُمر رسیدہ افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور اگر تعداد میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا، تو تین دہائیوں میں یہ تعداد چار کروڑ44لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
بلاشبہ، ہمارے معاشرے میں معمّر افراد کو عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ ہمارے لیے ایک اہم اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں، اُن کی موجودگی گھنے سائے کی مانند ہے،مگر دنیا بھر میں ایسا نہیں ہے، اُن کی اسی اہمیت، اُن کی تکالیف، ضروریات اور حقوق کی جانب توجّہ دلانے کے لیے اقوامِ متحدہ کے تحت ہر سال یکم اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’بزرگوں کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے اور اس موقعے پر عمر رسیدہ افراد کو درپیش مسائل اور معاشرے میں اُن کے رُتبے، مقام پر روشنی ڈالنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف تقریبات، سیمینارز اور ورکشاپس کا بھی انعقاد ہوتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ معمّر افراد کی دیکھ بھال اور ان کے حقوق سے متعلق آگاہی حاصل کرسکیں۔ مانا کہ معمّر افراد کی عزّت و تکریم کے لیے کسی مخصوص دن کی قید نہیں ہونی چاہیے، تاہم مغربی ممالک کی بے حد مصروف زندگی اور معاشرتی مسائل کے سبب جہاں بزرگوں کو دارالامان (اولڈ ایج ہومز) میں داخل کروانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، وہاں خصوصی طور پر اس دن کا انعقاد ایک اچھا اور احسن اقدام ہے۔
ایک جائزے کے مطابق خیبر پختون خوا میں بزرگ شہریوں کی تعداد 28 لاکھ سے زائد ہے۔ جنھیں صوبائی حکومت ہر ممکن سہولت و آسائش بہم پہنچانے میں سرگرداں ہے۔ ضلعی حکومت کی طرف سے صوبے کے چھے اضلاع میں ہر ضلعے کے 333 بزرگ شہریوں کو سالانہ چھے ہزار روپے دیئے جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ ضلعی حکومت کی طرف سے دی جانے والی اس امداد کا سلسلہ عوامی نیشنل پارٹی کے دورِ حکومت میں شروع ہوا تھا۔ بعدازاں، تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت نے صوبہ خیبر پختون خوا میں بزرگوں کو بنیادی سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے 2014ء میں ’’سینئر سٹیزن ایکٹ‘‘ منظور کیا۔
جب کہ اسی طرح کی ایک قانون سازی حکومتِ سندھ نے بھی کی، جس کے مطابق، بزرگ شہریوں کو پینشن اور دوسرے واجبات میں معاونت، ٹرانسپورٹ کرایوں میں 50فی صد رعایت، تفریحی مقامات پر رعایت، ضلعے میں کم ازکم ایک اولڈ ایج ہوم اور کیئر سینٹر کے قیام، آمدن اور منافعے پر ٹیکس سے چُھوٹ، طبّی اور معاشی مسائل کے لیے زکوٰۃ فنڈ اور بیت المال سے معاونت سمیت قانونی معاونت کی فراہمی وغیرہ کا عندیہ دیا گیا۔
تاہم، قانون منظور ہوجانے کے باوجود اب تک اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے معمّر افراد کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ بزرگوں کی پریشانیوں کا احساس کرتے ہوئے خیبرپختون خوا کی صوبائی حکومت نے فروری 2018ء میں سینئر سٹیزن کارڈ کی فراہمی کے لیے اخبارات میں اشتہارات مشتہر کروائے، جس کے تحت صوبہ بھر سے چھے لاکھ 30 ہزار افراد نے مذکورہ کارڈ کے حصول کے لیے فارمز جمع کروائے۔ مگراس وعدے کو بھی ماہِ فروری میں چار سال کا عرصہ ہوجائے گا، لیکن اب تک کسی معمّر فرد کو کارڈ جاری نہیں کیا گیا۔
یعنی حکومت کی جانب سے مذکورہ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے سے صوبے کے چھے لاکھ 30 ہزارسے زائد رجسٹرڈ معمّر افراد تاحال حکومتی امداد سے محروم ہیں۔ واضح رہے کہ خیبرپختون خوا میں تحریکِ انصاف کی پچھلی حکومت نے 2014ء میں صوبائی اسمبلی سے مذکورہ قانون پاس کیا، تو اسے مُلک بھر میں سراہا گیا۔ اس کے تحت سرکاری ٹرانسپورٹ میں 50فی صد رعایت، لائبریریز، عجائب گھروں اور دیگر تفریحی مراکز میں مفت داخلے سمیت صوبے کے تمام اسپتالوں میں بزرگ شہریوں کے لیے علیٰحدہ کاؤنٹرز کے قیام، او پی ڈی پرچی اور داخلہ فیس سے استثنیٰ اور مفت علاج کے علاوہ خصوصی طور پر ادویہ میں رعایت دینے کے احکامات جاری کیے گئے، لیکن سات سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ان احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔
اس ضمن میں معلوم ہوا ہے کہ محکمہ خزانہ نے منصوبے کے لیے صرف ایک کروڑ روپے مختص کیے، حالاں کہ محکمے کو اب تک6لاکھ30 ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔ اس حوالے سے محکمہ سوشل ویلفیئر کے ڈپٹی ڈائریکٹر، عبدالقیوم نے ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ’’بزرگ افراد کے لیے قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے کام جاری ہے، تاہم، اس قانون کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وسائل کی عدم دست یابی ہے۔ بہرحال، اس ضمن میں محکمہ سماجی بہبود نے ’’سینئر سٹیزن ایکٹ 2014ء‘‘ کے تحت صوبائی کائونسل تشکیل دے دی ہے، جو بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے ضمن میں سرگرمی سے کام کررہی ہے۔
جہاں تک بزرگ شہریوں کو کارڈ جاری کرنے کی بات ہے، تو اس حوالے سے جب نادرا سے بات ہوئی، تو ان کی طرف سے225روپے فی کارڈ چارج وصول کرنے کی تجویز پیش کی گئی، جس پر اربوں روپے کا خرچ آرہا تھا، لہٰذا اب صوبائی حکومت نے ایم آئی ایس سسٹم شروع کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ اس سسٹم کے تحت تمام بزرگ افراد کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے اور رجسٹریشن مکمل ہونے کے بعد تمام بزرگوں کو کم لاگت پر سینئر سٹیزن کارڈ جاری کردیا جائے گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا، محمود خان بزرگ شہریوں کے لیے اسپتالوں میں بیڈز مختص کرنے کے احکامات بھی جاری کرچکے ہیں۔ نیز، اُن کے لیے سوشل ویلفیئر دفاتر میں ہیلپ لائن ڈیسک قائم کی گئی ہے۔ جہاں تک ماہانہ اعزازیے کی بات ہے، تو کارڈز جاری کیے جانے کے بعد حکومت اس حوالے سے بھی جلد حتمی فیصلہ کرلے گی۔‘‘
’’سینئر سٹیزن ایکٹ 2014ء‘‘ پر عمل درآمد سے متعلق خیبر پختون خوا کے پارلیمنٹیرینز اور اعلیٰ افسران کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں مذکورہ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس موقعے پر خیبر پختون خوا کے محکمہ قانون، محکمہ سماجی بہبود اور دیگر اداروں کے اعلیٰ افسران نے پارلیمنٹیرینز کو مذکورہ قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجوہ سے آگاہ کیا۔
ڈپٹی اسپیکر خیبر پختون خوا، محمود جان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وزیراعلیٰ کے معاونِ خصوصی، تاج محمد اور عارف احمد زئی، چیئرپرسن قائمہ کمیٹی برائے صحت، ڈاکٹر سمیرا شمس، یو این ڈی پی کے چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر، ڈیرن نینس، خیبرپختون خوا، یو این ڈی پی کے کوآرڈی نیٹر، بلال خٹک سمیت دیگر پارلیمنٹیرینز، اعلیٰ افسران اور قومی اسمبلی کے اسپیکر، اسد قیصر نے بھی خصوصی شرکت کی۔
اس موقعے پر ڈپٹی اسپیکر، محمود جان نے بتایا کہ ’’صوبے کے بزرگ شہریوں کے مسائل کے پیشِ نظر ’’سینئر سٹیزن ایکٹ 2014ء‘‘ میں کچھ ترامیم تجویز کی گئی ہیں، تاکہ صوبے کے بزرگوں کی فلاح بہبود اور حقوق کا تحفّظ کیا جاسکے۔ ایک شق کے تحت انھیں بیش تر سہولتیں مفت مہیّا کی جائیں گی، جن میں لائبریریز، پارکس اور میوزیمز وغیرہ میں داخلے سمیت، مالی تعاون کی سہولت بھی شامل ہے۔‘‘ وزیرِاعلیٰ کے معاونِ خصوصی برائے معدنیات، عارف احمد زئی نے بھی اس موقعے پر یقین دلایا کہ ’’بہت جلد اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا اور اس ضمن میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔‘‘
اسی حوالے سے بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’’ہیلپنگ ایج‘‘ سے وابستہ، وقاص قریشی نے بتایا کہ ’’پاکستان میں ساٹھ سال سے زائد عُمر کے افراد ملک کی کُل آبادی کا تقریباً سات فی صد ہیں، جن کی تعداد ایک کروڑ 13 لاکھ بنتی ہے، اور اندازہ ہے کہ 2050ء تک یہ تعداد بڑھ کر چار کروڑ 44 لاکھ ہوجائے گی۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے دیگر صوبوں پر سبقت حاصل کرکے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ’’سینئر سٹیزن ایکٹ‘‘ 2014ء میں پاس کیا، لیکن تاحال عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے اس قانون کا کوئی فائدہ نہیں۔
سندھ میں بھی اس حوالے سے 2016ء میں قانون پاس کیا گیا، لیکن اصل مسئلہ قانون پر عمل درآمد کا ہے، قانون کے تحت بزرگ شہریوں کے جو حقوق حاصل ہیں، وہ انہیں تاحال نہیں دیئے گئے۔ ہماری جدوجہد کامقصد بھی یہی ہے کہ سینئر سٹیزنز کو اُن کے حقوق ملیں اور انہیں کسی بھی معاملے میں تکالیف و مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس لیے بلاتاخیر ’’سینئر سٹیزن ایکٹ‘‘ پر عمل درآمد شروع کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔‘‘
بلاشبہ، معمّر افراد کودُنیا کے کسی بھی معاشرے میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ہر حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُنھیں مراعات و دیگر ضروری سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ اُن کے آرام و آسائش کا بھی خیال رکھا جائے۔ اگرچہ مغربی ممالک کے برعکس ہمارے ملک میں عمر رسیدہ افراد کو زیادہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ہمارے یہاں بزرگ افراد کو متعدد مشکلات کا بھی سامنا ہے۔
اُنھیں صحت، تفریح اور معاشی حقوق سمیت دیگر بہت سے حقوق حاصل نہیں۔ اس ضمن میں ’’سینئر سٹیزن ایکٹ 2014ء‘‘ ایک مکمل قانونی دستاویز ہے، جس کے تحت بزرگ شہریوں کی نگہداشت، علاج معالجے، مالی ضروریات، روزگار، فلاح و بہبود اور امداد کے لیے بیت المال و زکوٰۃ فنڈ میں ایک حصّہ مقرر کیا جانا ہے، اُن کی زندگیوں کو سہل اور بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔