وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کی گئی، ایک آڈیو ٹیپ کئی دن میڈیا کی زینت اور موضوعِ بحث بنی، جب اس کا فرانزک کیا گیا تو وہ جعلی ثابت ہوئی۔
قومی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حلف نامے میں بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ماتحت ججز کو احکامات جاری کیے، 3 سال پہلے واقعہ ہوتا ہے اور 3 سال تک کوئی بات، کوئی اظہار نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا ہے کہ 3 سال بعد یہ معاملہ سامنے آتا ہے، حلف نامہ آتا ہے اور اسٹوری بریک ہوتی ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حیرانی ہے کہ جس جج پر یہ الزام لگایا گیا وہ اس بینچ کے ممبر ہی نہیں ہیں، اس سے اس کی صداقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ یہ بھی واضح ہوا کہ کس شہر میں کس کے سامنے یہ حلف نامہ ہوا، ہم سب کو اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف سب عدلیہ کی آزادی کے دعوے دار ہیں، مگر ہم کہتے کچھ اور کرتے کیا ہیں؟
وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم سب کو اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، ہمارے قول و فعل میں تصادم ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سپریم کورٹ پر حملے ہوئے، جسٹس قیوم سے فیصلے لینے کی کوشش کی گئی مگر وہ سب فائدہ مند ثابت نہیں ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ رانا شمیم کا معاملہ فی الحال زیرِ سماعت ہے، اس پر مزید بات نہیں کر سکتا، اس سب کا ہم سب کو نوٹس لینا چاہیے، یہ خطرناک معاملہ ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ہم اپوزیشن کی تنقید سے مثبت پہلو لیتے ہیں مگر تنقید برائے تنقید درست نہیں، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، مایوسی مت پھیلائیں۔
شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اپوزیشن ہمارا چیلنج نہیں، مہنگائی ہے، ہم نے گزشتہ برسوں میں مشکل فیصلے کیے، کڑوی گولی کھائی، اب ہم استحکام سے ریکوری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کہہ دینا کہ جو خرابی ہے وہ ایک نااہل معیشت کی وجہ سے ہے، حقائق کے برعکس ہے، ہماری معیشت اب مشکل صورتِ حال سے بہتری کی جانب گامزن ہے۔