• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’سابق وزیراعظم کو بیرون ملک بھیجنے کا حتمی فیصلہ موجودہ وزیراعظم نے کیا‘‘

اسلام آباد(فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے فیصلے کے بارے میں جو متضاد دعوے، ابہام پر مبنی قیاس آرائیاں اور الزام کی شکل میں ذمہ داریوں کا تعین کئے جانے کا سلسلہ جو طویل عرصے سے جاری تھا حکومت کے اہم وزیر اسد عمر نے یہ منکشف کر کے ختم کر دیا کہ میاں نوازشریف کو ملک سے باہر بھیجنے کا فیصلہ سوفیصد عمران خان کا تھا۔ 

انہوں نے یہ انکشاف ہفتے کی شب جیو ٹی وی کے پروگرام’’نیا پاکستان‘‘کے میزبان شہزاد اقبال کے سوال کے جواب میں کیا۔ 

گوکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میاں نوازشریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے فیصلے کے بارے میں کابینہ کے ارکان کی رائے منقسم تھی لیکن حتمی فیصلہ خود وزیراعظم عمران خان کاہی تھا۔ 

اس حوالے سے کچھ ملی جلی اور متنازعہ خبریں پہلے بھی سامنے آئیں تھیں لیکن ان کی صداقت قدرے متنازعہ تھی تاہم اسد عمر جنہوں نے یہ بات ایک عینی شاہد کے طور پر کہی کیونکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس وقت وزیراعظم کے بعض رفقا کے ہمراہ اس کمرے میں موجود تھے کابینہ کے اجلاس کے بعد جہاں وزیراعظم نے اپنے معتمدین کے ہمراہ یہ فیصلہ کیا اس لئے اسد عمر کی بات پر کسی تبصرے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ 

جیو ٹی وی کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘میں وفاقی وزیر اسد عمر کے دو ٹوک لفظوں میں اس انکشاف کے بعد سیاسی حلقوں میں اس حوالے سے مختلف پہلوئوں پر بحث شروع ہو گئی اور حال ہی میں حکومتی وزرا کا یہ دعویٰ کہ اپوزیشن کے چار اراکین اسمبلی نے ایک اہم ملاقات میں نئی حکومت میں وزارت عظمیٰ کے منصب کیلئے اپنی اپنی ’’CV‘‘پیش کی تو دوسری طرف حکومتی جماعت میں گروپنگ کی خبریں، اختلاف رائے کرنے والے ارکان جن میں تازہ حوالہ نور عالم کا ہے جنہوں نے حکومت کے بعض امور پر علیحدہ موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر قومی اسمبلی کے ایوان میں اگلی تین قطاروں پر بیٹھنے والے ارکان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیئے جائیں تو گورنس کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے (واضح رہے کہ اگلی قطار میں اہم وزرا کے ساتھ ساتھ وزیراعظم بھی اگلی نشستوں پر ہی بیٹھتے ہیں)نور عالم کے خلاف کارروائی اور انہیں بعض پارلیمانی ذمہ داریوں سے فارغ کرنے کا کام شروع ہو گیا۔ ان اقدامات کو حکومت کی کمزوری اور غیر جمہوری طرز عمل سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ 

پروگرام کے میزبان کی جانب سے اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومت اور اپوزیشن میں یہ صورتحال اپنی اپنی قیادتوں پر عدم اعتماد اور تبدیلی کی خواہش کے مترادف ہیں۔ 

اسد عمر نے اس کے جواب میں ہر چند میزبان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا تاہم ان کا اپنی جماعت اور قیادت کے حوالے سے دیئے جانے والے جواب میں یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت ایسی صورتحال نہیں ہے لیکن انہوں نے اس امکان کو قطعی طور پر مسترد نہیں کیا اور کہا کہ مستقبل قریب میں شاید ایسا ہو سکتا ہے لیکن اس وقت تحریک انصاف کا 99فیصد ووٹ عمران خان کا ہے۔ 

اسد عمر کی اس گفتگو نے حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ غیر جانبدارانہ حلقوں اور عوامی سطح پر بھی ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے جس میں یقیناً یہ سوال بھی شامل ہو گا کہ کیا واقع ہی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کسی ڈیل کا نتیجہ تھی جس میں وزیراعظم عمران خان کی رضامندی بھی شامل تھی؟

اگر ایسا ہے تو پھر ڈیل میں شامل لوگوں کے نام سامنے لائے جائیں اسی گفتگو میں حکومت کے دیگر وزرا اور ترجمانوں کی طرح اسد عمر نے بھی ایک سوال کے جواب میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت نے ترقی کی شرح 5.4 تک پہنچ گئی ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیس سے محروم زندگی کی بنیادی ضرورتیں جو ایک آدمی کی خواہش بنتی جا رہی ہیں۔

ان کا ان معاشی اعشاریوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟اس صورتحال میں عام آدمی اپنی ضرورتوں کے حوالے سے نہ صرف انفرادی سوچ رکھتا ہے بلکہ خودغرض بھی ہو جاتا ہے اور اس کی اولین ترجیح صرف اپنے گھرانے کی ضرورتیں ہوتی ہیں۔

اہم خبریں سے مزید