کراچی جہاں روشنیوں اور رنگوں کا شہر ہے وہیں اپنی قدیم اور تاریخی عمارات کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ دو سو سے زائد ایسی عمارات اور مقامات ہیں جنہیں تعمیر ہوئے سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن یہ عمارات آج بھی اپنے حسن و دلکشی برقرار رکھے ہوئے ہیں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ تاریخی عمارات کراچی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ کراچی کی شان اور شہر کے تاریخی اور معتبر ہونے کا حوالہ ہیں۔
1 اکتوبر 2021ء میں تاریخی عمارت فریئر ہال کو عوام الناس کے لئے کھولنے کی 156 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک کنزرویشن پروجیکٹ کا افتتاح کیا گیا جس کے تحت فریئر ہال کی بحالی میں امریکی قونصلیٹ اور سندھ ایکسپلوریشن اینڈ ایڈونچر سوسائٹی اس عمارت کی بحالی کے لئے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ساتھ تعاون کرے گی ،یہ ایک قابل تحسین اعلان ہے۔
اس موقع پر باقاعدہ ایک تقریب ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ثقافتی ورثہ تحفظ پروجیکٹ کے تحت فریئر ہال کی تاریخی عمارت کو اس کی اصل شکل میں بحال کیا جائے گا جس سے عوام الناس، کراچی کی یادگار اور تاریخی عمارتوں سے مستفید ہوسکیں گے۔ امریکی قونصل جنرل MARK STROH نے بتایا کہ فریئر ہال کی بحالی کے پروجیکٹ کے لئے امریکی قونصلیٹ نے ثقافتی تحفظ کے لئے مختص فنڈز سے گرانٹ جاری کی ہے اور امریکہ نے پاکستان میں ایسے 30 ثقافتی پروجیکٹ کے لئے 6.4 ملین ڈالرز مختص کئے ہیں تاکہ پاکستانی ثقافتی ورثے کو محفوظ کیا جاسکے۔
فریئر ہال کی عمارت کے موجودہ اسٹرکچر اور اس کے تحفظ میں حائل مسائل کا تجزیہ کرکے تفصیلی رپورٹ بھی تیار کی جائے گی تاکہ مستقبل میں اس قسم کے پروجیکٹس پر عملدرآمد میں مدد مل سکے۔ فریئر ہال کی بحالی کے لئے جو کام کئے جائیں گے ان میں مرکزی ہال کے قدیم زینے کو مضبوط بنانا، پہلی منزل کے لکڑی کے فرش کو محفوظ بنانا، دروازوں اور کھڑکیوں کو محفوظ کرنا، بارش کے پانی سے بچاؤ، واٹر پروف چھت کی مرمت ، بجلی کی نئی وائرنگ ، عمارت کے ٹاور اور نچلےحصے کی مرمت و بحالی شامل ہے۔
فریئر ہال بحالی کا یہ پروجیکٹ صوبہ سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل ثقافتی منصوبوں کے تحفظ کے لئے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر امریکی قونصلیٹ کے کمٹمنٹ کا ثبوت ہے۔ اس موقع پر ایڈمنسٹریٹر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا کہ فریئر ہال کی عمارت ایک شاندار تاریخی ورثہ ہے اس کی اصل حالت میں بحالی ہماری اولین ترجیح ہے۔
اس سے قبل بھی فریئر ہال کی تزئین و آرائش کے لئے 6 اپریل 2018 ء کو شہر کی معروف شخصیات ، تاجروں، صنعتکاروں، ماہر ین قانون، فنون لطیفہ، میڈیا سے وابستہ شخصیات، سینئر سٹیزن اور بلدیاتی نمائندوں پر مشتمل 19 رکنی گارجین بورڈ تشکیل دیا گیا تھا،جس کے سرپرست اعلیٰ اس کے وقت کے میئر وسیم اختر تھے جبکہ بورڈ کے چیئرمین کے طور پر شاہد فیروز نے گارجین بورڈ کے قائم کرنے کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے تھے۔
بورڈ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس تاریخی ورثے کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے بھی مثبت کردار ادا کرے گا جبکہ گارجین بورڈ کو بھی اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ یہاں سے ہونے والی آمدنی اسی پروجیکٹ ایریا کی بہتری پر خرچ کی جائے۔ بورڈ کو فریئر ہال کی عمارت بشمول صادقین آرٹ گیلری اور لیاقت لائبریری کے علاوہ باغ جناح بھی دیا گیا تھا لیکن یہ بورڈ خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکا اور فریئر ہال کی مرمت اور تزئین و آرائش نہ ہوسکی۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ، کراچی میں نو آبادیاتی دور میں سیکڑوں خوبصورت عمارتیں تعمیر ہوئیں ، ان میں سے زیادہ تر عمارتیں برطانیہ کی تعمیر کردہ ہیں، جنہوں نے پہلی بار اس چھوٹے سے ماہی گیر قصبے کو شہری مرکز میں بدلنے کا خواب دیکھا اور اس خواب کی تعبیر کے طور پر کراچی کو شاندار ساحلی شہر میں تبدیل کردکھایا۔ 1947ء کے عرصے میں کراچی اپنے فخریہ شاندار تعمیر حسن اور بہترین ماحول کے ساتھ ابھرا۔
سر ہنری بارٹل فریئر (Sir H.Bartle E. Frere) جوسندھ کے دوسرے گورنر مقرر ہوئے تھے جو 1851ء سے 1859ء تک اس اہم عہدہ پر کام کرتے رہے اور پھر 1860 ء کے اوائل میں بمبئی کے گورنر مقرر کردیئے گئے اور انہیں کراچی کو خیرآباد کہنا پڑا۔ بلاشبہ کمشنر سندھ کے طور پر انہیں سب سے زیادہ شہر ت ملی۔سر ہنری بارٹل فریئر نے اپنی محنت، لگن اور جدوجہد سے کراچی کو بے انتہا ترقی دی۔ ان کا عہد کراچی کی تاریخ کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔
انہی کے دور میں کراچی میونسپلٹی کی بنیاد رکھی گئی، کراچی میں ریلوے لائن بچھانے کا آغاز ہوا، کراچی سے پہلا باقاعدہ سرکاری اخبار شائع ہونا شروع ہوا۔ 1851ء میں ہی ڈاکئے کے ذریعے گھر گھر ڈاک پہنچانے کی بجائے اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے ڈاک پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ اس سے قبل ڈاکئے کئی کئی میل پیدل سفر کرکے خطوط پہنچاتے تھے، جن میں کئی کئی دن اور بعض مرتبہ ایک ایک مہینہ لگ جاتا تھا۔ 1852ء میں سر ہنری بارٹل فریئر کی کوششوں سے کراچی سے پہلی مرتبہ ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا، پہلی پبلک لائبریری قائم ہوئی اور پہلا انگلش میڈیم اسکول بھی بنا۔
کراچی کے باشندوں نے سر ہنری بارٹل فریئر کی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور کراچی کے لئے ان کی خدمات کو نہ صرف سراہا بلکہ ان کی یاد میں کئی عمارتیں بھی تعمیر کیں ان میں’’ فریئر ہال “ سرفہرست ہے۔
فریئر ہال کی خوب صورت و دلکش عمارت کی تعمیر کا منصوبہ 1862ء میں بنایا گیا تاکہ یہ عمارت کراچی کے شہریوں اور دنیا کے کونے کونے سے کراچی آنے والے سیاحوں کو سر ہنری بارٹل فریئر کی یاد دلاتی رہے۔ فریئر ہال کی تعمیر وینٹین گوتھک (Venetian Gothic Style) طرز پر کی گئی۔ کراچی سے 57 میل کے فاصلے پر واقع گھولاری سے چونے کا پتھر جبکہ جھنگ شاہی سے گہرا سرمئی اور سرخ بھورا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔
چھت پر جزوی طور پر بھٹی کی پکی ہوئی مٹی کی کھپریل اور نالی دار لوہا لگایا گیا ۔ عمارت میں ایک مینار بھی بنایا گیا، جس پر دھات کی تہہ چڑھائی گئی ہے۔ عمارت کی تعمیر میں جا بجا اعلیٰ قسم کی ساگو ان کی لکڑی استعمال کی گئی ہے ۔ عمارت میں ایک مرکزی ہال ہے جو 70 فٹ لمبا ، 35 فٹ چوڑا اور 75 فٹ اونچا ہے۔ یہ ہال ایک محرابی دروازے کے ذریعے ایک چھوٹے کمرے سے ملحق ہے۔
فریئر ہال کا ڈیزائن اور نقشہ رائل انجینئرز کے کرنل کلیئر ولکنس(Col. Clair Wilkins) کی تخلیق ہے ،اس عمارت کی تعمیر پر اُس زمانے میں ایک لاکھ اسی ہزار روپے خرچ ہوئےتھے۔ ابتداء میں عمارت کی تعمیر کے لئے شہریوں سے چندہ دینے کی اپیل کی گئی، جس کے نتیجے میں ساڑھے بائیس ہزار روپے جمع ہوئے۔ظاہر ہے کہ یہ رقم تعمیر کے لئے ناکافی تھی۔ بعدازاں حکومت کی جانب سے دس ہزار روپے دیئے گئے۔
تعمیر کے لئے برطانیہ کے شہر لندن میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں اس عمارت کے لئے عطیات جمع کئے گئے اور شہریوں کی جانب سے بارہ ہزار پانچ سو پائونڈ چندے کے طور پر دیئے گئے ۔ تقریب میں انگریزوں اور پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ بھارتی لوگ بھی شریک تھے، جنہوں نے دوہزار تین سو پچاس پائونڈ عطیہ دیا۔ کراچی کی میونسپلٹی کی جانب سے ایک لاکھ سینتالیس ہزار پانچ سو روپے کی رقم فراہم کی گئی۔
اس طرح اس جمع شدہ رقم سے فریئر ہال کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز اگست 1863ء میں کیا گیا۔ عمارت کے اطراف پارک بنایا گیا تھا جس میں ایڈل جی ڈنشا کی جانب سے تحفتاً پیش کیا گیا ایک بیش قیمت فوارہ ،ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ اور ایڈورڈ (ہفتم)کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا تھا۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس خوبصورت اور دلکش عمارت کا باقاعدہ افتتاح 10 اکتوبر 1865ءکو اس وقت کے کمشنر سندھ ایس مینفیلڈ نے کیا۔ بعدازاں اس عمارت کو کراچی میونسپلٹی کے زیر انتظام دے دیا گیا۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ سر ہنری بارٹل فریئر ،فروری 1867ء اس عمارت کو دیکھنے کے لئے کراچی تشریف لائے اور انہوں نے اپنے اعزاز میں تعمیر ہونے والی اس عظیم الشان عمارت کا تفصیلی دورہ کیا۔ اس عمارت کو دیکھ کر وہ بے انتہا خوش ہوئے اور اپنے نام سے انتہائی دلکش عمارت تعمیر کرنے پر کراچی کے شہریوں کا شکریہ ادا کیا۔
ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر کسی شخصیت کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کی یاد میں کچھ کیا جاتا ہے مثلاََ سڑکوں اور پلوں کے نام رکھے جاتے ہیں، ان کی یاد میں مونومنٹ تعمیر کئے جاتے ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ جس شخصیت کے نام پر عمارت تعمیر ہو وہ خود اس عمارت کو دیکھے اور فخر محسوس کرے۔
بہرحال عمارت کے ہال میں 1869ء میں سندھ میں اپنی نوعیت کی پہلی صنعتی نمائش کا اہتمام کیا گیا جس میں برطانیہ، سری لنکا اور وسطی ایشیاء سے صنعت کار اور تاجر تشریف لائے اور انہوں نے اپنی اپنی مصنوعات کو فروخت کے لئے پیش کیا۔ اس پارک میں بینڈ اسٹینڈ بھی تعمیر کیا گیا تھا جہاں ہر اتوار کے دن ایک بینڈ مختلف نغموں کی دھنیں اور موسیقی پیش کیا کرتا تھا ان سارے کاموں نے شہریوں کی توجہ اپنی جانب کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس تاریخی عمارت کی چھت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تھی ،بارش کا پانی عمارت کے اندر داخل ہونے لگا تھا ۔1992ء میں حکومت سندھ نے نوٹس لیتے ہوئے چھت کو دوبارہ تعمیر کیا اور باغ کی بھی ازسرنو تزئین و آرائش کی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ پارک سے ملکہ وکٹوریہ اور ایڈورڈ (ہفتم) کے مجسمے ہٹا دیئے گئے۔
اس وسیع و عریض فریئر ہال کے احاطے میں لیاقت پبلک لائبریری، صارقین آرٹ گیلری اور جنگ عظیم میں شہید ہونے والے بلوچ رجمنٹ کے سپاہیوں اور افسران کی یاد گار بھی ہیں، جبکہ فریئر ہال کے اطراف میں قائد اعظم ہاؤس، سابق امریکی سفارت خانہ ، ہوٹل میرٹ، کراچی کا ایوان صدر، تحریک پاکستان کے رہنما سر عبداللہ ہارون کی رہائش گاہ اور دیگر اہم عمارتیں موجود ہیں۔ فاطمہ جناح روڈ پر قائم فریئر ہال کو برطانوی دور کی پہلی عوامی عمارت کہا جاسکتا ہے جسے156 سال قبل کراچی کے شہریوں کے لئے کھولا گیا تھا اور آج بھی یہ شہریوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔