• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اشفاق احمد نے درست ہی کہا تھا کہ شہر اور بستیاں اپنے کئی دلکش و رنگین حوالوں سے حافظے کی لوح پر نقش رہتے ہیں لیکن رات کی آسودہ ساعتوں میں بھینی بھینی خوشبو کی طرح دل کی دنیا کو معطر کردینے والی یادوں کا سرچشمہ، ملکوں، شہروں اور بستیوں کے کوچہ و بازار نہیں، کچھ لوگ ہوا کرتے ہیں۔ میں نے پہلی بار یہ بات پڑھی تو ان درجنوں ممالک کی طرف نکل گیا جہاں زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں جانے کا موقع ملا تھا۔ بلاشبہ میں وہاں کے قابل دید مقامات، عجائب گھروں، شاندار مساجد، عظیم الشان عمارات، بڑے بڑے ہوٹلوں، پُررونق ہوائی اڈوں، چکاچوند کردینے والے بازاروں اور خوبصورت سیر گاہوں کو نہیں بھولا۔ لیکن جب کبھی یادوں کی پوٹلی کھلتی ہے تو یہ سب کچھ پس منظر میں چلا جاتا ہے، کچھ چہروں کے نقوش ابھرنے اور نگار خانہ دل کی کارنس پر سج جاتے ہیں۔
میں جب بھی اعصابی دباؤ کا شکار ہوں یا سکون کی ضرورت محسوس ہو، اپنے بیٹے کے پاس دبئی آجاتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ ایک آدھ دوست کے سوا کسی کو خبر نہ ہو۔ سمندر پار پاکستانیوں کی محبت بڑی بے ساختہ اور انتہائی زود حس ہوتی ہے سو کسی نہ کسی طور انہیں خبر ہو ہی جاتی ہے۔ سو محفلیں آراستہ ہونے لگتی ہیں۔ اب کے بھی آیا تو مسلم لیگ (ن) کے رہنما جناب افتخار بٹ نے ہلال امتیاز کے حوالے سے ایک تقریب کر ڈالی۔ ایسی کوئی تقریب چوہدری نور الحسن تنویر کی محبت فراواں کے بغیر سج نہیں سکتی ۔ بارات کی نوعیت کوئی بھی ہو، دولہا چوہدری صاحب ہی ہوتے ہیں۔ چوہدری الطاف حسین، دوست محمد اعوان، وحید پال، مصطفی افضل، شیخ عارف اور چند دیگر دوست ایسی ہر تقریب کا لازمہ کہلاتے ہیں۔ تقریب کے اگلے دن پیپلزپارٹی کے صدر میاں منیر نے پکڑ لیا۔ اب وہ ایک عصرانے کے اہتمام میں لگے ہیں۔ میاں منیر کی شخصیت کا حسن یہ ہے کہ وہ سیاست کے خرخشوں کو رفاقت کے رشتوں سے بہت دور رکھتے ہیں۔ رات چوہدری نور الحسن تنویر کی بھتیجی کی شادی میں عیسائی برادری کے مقامی رہنما جناب جان قادر ایک دو تگڑی سفارشیں لے کر بضد ہوئے کہ انہیں ایک عشائیے کا موقع دیا جائے۔ میں نے کہا صرف اتوار کی شام ممکن ہے۔ خیال تھا کہ اتوار کا یوم عبادت ان کے لئے ممکن نہ ہوگا لیکن لمحہ بھر کے توقف کے بغیر وہ راضی ہوگئے۔ سو جس آرام و سکون کی تلاش میں یہاں آیا تھا، وہ تو ناپید ہے لیکن دوستوں کی بے لاگ محبتوں نے مالا مال کردیا ہے۔
دبئی میں قدم رکھنے کے بعد، ایک شخص سے ملنے کی آرزو، میرے دل میں ضرور چٹکی لیتی ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران میں دبئی آیا ہوں اور اس شخصیت سے شرف ملاقات حاصل نہ کیا ہو۔ دبئی کی نہایت خوشحال اور طرح دار بستی، برشا کے علاقے میں کئی کنال پر محیط ایک شاندار بنگلے کے پہلو میں بنے مختصر سے دفتر میں دو میزیں بچھی ہیں۔ ایک میز اس مرد بزرگ کے لئے مخصوص ہے جس کی زندگی کا بڑا حصہ تصنیف و تالیف اور تحقیق و جستجو کے میدان میں گزرا اور ذرا فاصلے پہ بچھی دوسری میز ان کے پی اے ناصر کے لئے مخصوص ہے جسے میں برس ہا برس سے یہاں دیکھ رہا ہوں۔ میں اکثر کرسی ڈال کر مرد بزرگ کے قریب بیٹھ جاتا ہوں اور پھر دلنشیں باتوں اور دلپذیر تذکروں کا ایک جہان تازہ آباد ہوجاتا ہے۔
علم و حکمت، شاعری اور اخبارات و جرائد کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ابوالامتیاز ع۔س مسلم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ مسلم صاحب ہماری علمی دنیا کا بہت بڑا نام ہیں۔ پاکستان میں کتنے لوگ ہوں گے جن کے قلم سے اتنا گراں قدر سرمایہ شعر و سخن منسوب ہو۔ کم از کم میرے علم میں ایسی کوئی شخصیت نہیں جس کی کہی گئی حمد و نعت کے بارہ مجموعے شائع ہوچکے ہوں۔ کچھ کے انگریزی اور عربی تراجم ہوچکے ہوں۔ جس کی غزلوں، نظموں اور گیتوں کے تین مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہوچکے ہوں۔ جس کے تین انتہائی دلچسپ سفرنامے چھپ چکے ہوں۔ جس کے افسانوں کے دو مجموعے آچکے ہوں۔ تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر جس کی چار انتہائی جامع کتابیں منظرعام پر آچکی ہوں۔ جس کے مقالات و مضامین کے پندرہ مجموعے طبع ہوچکے ہوں۔ جس کی خود نوشت ”لمحہ لمحہ زندگی“ زبردست پذیرائی پاچکی ہو۔ جس کے مکاتیب، انٹرویوز اور سماجی موضوعات پر اردو اور انگریزی میں تین کتب مرتب ہوچکی ہوں۔ جس نے بچوں کے لئے ”ہماری کتابیں“ کے نام سے نظم و نثر کی دس کتابیں مرتب کی ہوں۔ اگر میں غلطی نہیں کررہا تو یہ تعداد پچاس کے لگ بھگ بنتی ہے۔ موضوعات کا تنوع بتا رہا ہے کہ تخلیق کار کی کشت فکر کتنی شاداب ہے اور وہ اظہار کے ہنر پر کتنی مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ مسلم صاحب کے مقالات و مضامین ہمارے کالموں جیسے سطحی اور قلم برداشتہ نہیں ہوتے، ان میں گہری تحقیق کا بھرپور رچاؤ بھی ہوتا ہے، اپنی بات موثر انداز میں کہنے کا سبھاؤ بھی اور ایک رواں دواں اسلوب تحریر کا بہاؤ بھی۔
ہمارے ہاں لوگوں کی نگاہیں کسی قدر کم بیں ہوتی ہیں سو مسلم صاحب جیسی کوہ قامت شخصیات بھی چھپی رہتی ہیں۔ البتہ بھارت کی ونوبا بھاوے یونیورسٹی کی ایک ہونہار طالبہ غزالہ یونس نے ”ابوالامتیاز ع۔س مسلم، شخصیت اور شاعری“ کے عنوان سے ایک شاندار تحقیقی مقالہ رقم کیا اور پی ایچ ڈی کی سند پائی۔ اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پروفیسر محمد عبید اللہ اور ہزارہ یونیورسٹی کی طالبہ راحیلہ بی بی نے بھی مسلم صاحب پر ایم فل کے مقالہ جات لکھے ہیں۔ ان کے فکر و فن پر دو درجن سے زیادہ کتب مرتب ہوچکی ہیں۔
مسلم صاحب تحریک پاکستان کا ایک اہم کردار رہے۔ متعدد بار بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو قریب سے دیکھنے اور ان کی محفل نشینی کا شرف حاصل ہوا۔ ایسی ہی ایک محفل میں انہیں اپنی ایک نظم پڑھنے کی سعادت بھی ملی۔ ان کی زندگی لگن، محنت، جہد پیہم اور تلاش و جستجو کا نام ہے۔ زندگی کا آغاز یومیہ مزدوری سے ہوا۔ کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کی، پھر ایک معمولی سا کاروبار شروع کیا۔ اللہ نے برکت ڈالی پھر وہ لاکھوں اور کروڑوں، شاید اربوں تک جا پہنچے۔ انہوں نے پاکستان میں سب سے پہلے ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں ”رحمت وقف“ قائم کیا۔ آج کل رحمت اسپتال اور زچہ و مرکز کا ایک بڑا ادارہ کراچی میں کام کررہا ہے۔ ان رفاہی کاموں کے لئے وہ ہر ماہ لاکھوں روپے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اپنے تمام اثاثے ، اسلامی شعائر و قوانین کے مطابق اپنے بچوں میں تقسیم کرچکے ہیں۔
ع۔س مسلم سے ملے بغیر ایک بے کلی سی رہتی ہے۔ دو دن قبل میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ کمزوری بڑھ گئی ہے۔ خود ہی کہنے لگے۔ ”ہجری سال کے مطابق میری عمر 95سال ہوچکی ہے۔ چیزیں یاد نہیں رہتیں۔ دوستوں بلکہ اپنے بچوں تک کے نام بھول جاتا ہوں۔ بینائی بھی ساتھ چھوڑتی جارہی ہے۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ اپنے پاؤں پر چل رہا ہوں“۔ واقعی یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس پیرانہ سالی کے باوجود مسلم صاحب روزانہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر تصنیف و تالیف کے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ باقاعدگی سے خطوط لکھتے اور آنے والے مکتوبات کا جواب دیتے ہیں۔ ان کی میز پر اب بھی دو کتابوں کے مسودے آراستہ تھے۔ کہنے لگے۔ ”بس اللہ سے تھوڑی سی مہلت مانگی ہے اس کام کی تکمیل کے لئے“۔
ہلال امتیاز کی مبارک باد دی۔ مجھے خط پہلے ہی لکھ چکے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ندامت سی ہوئی۔ ع۔س مسلم جیسا شخص آج تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فہرست اعزازات میں سے کسی کا مستحق نہیں ٹھہرا۔ یہ مسلم صاحب کی نہیں، ان اعزازات کی کم نصیبی ہے۔ میں نے سوچا کہ اسلام آباد جاتے ہی عزیزی فواد حسن فواد کو متوجہ کروں گا کہ وہ سرکار کی اس بے نیازی کے مداوا کی کوئی صورت نکالے۔
گرم دوپہر میں95سالہ مرد بزرگ مجھے الوداع کہنے گھر کا بڑا سا لان عبور کرکے باہر سڑک تک آیا۔ میں نے سوچا، واقعی بستیاں لوگوں سے یاد رہتی ہیں۔ یہ کشادہ سڑک، یہ محل نما گھر، یہ لشکارے مارتا دبئی، یہ جہان سنگ و خشت سب بھول جائے گا، لیکن مسلم صاحب یادوں کے طاق میں چراغ کی طرح فروزاں رہیں گے۔
تازہ ترین