ایک وہ زمانہ تھا جب اردو کے استاد کسی ایک لفظ کے غلط ہجے لکھنے پر دس دس صفحے اسی ایک لفظ کے درست ہجے سے بھروادیتے تھے۔ اس وقت یہ ہمیں بہت ظلم محسوس ہوتا تھا لیکن آج جب ہم بے شمار لکھنے والوں کو اردو کے معمولی الفاظ بھی غلط لکھتے دیکھتے ہیں تو اللہ کے بعد اپنے استادوں کا شکر کرتے ہیں۔
سب سے زیادہ ذبح ہونے والا لفظ ہے ”بالکل“ جو آج کل ”بلکل“ لکھا جاتا ہے اور کسی کو یہ لفظ غلط لکھتے ہوئے بالکل بھی شرمندگی نہیں ہوتی۔ بڑے بڑے لکھاری بھی بلکل لکھ جاتے ہیں۔ بالکل کا الف بولنے میں خاموش ہے لیکن لکھتے ہوئے اس الف کو سرے سے قتل کردینا بالکل بھی جائز نہیں۔ اس لیے جب بھی بالکل لکھیں، ایک عدد الف لگانے سے بالکل نہ گھبرائیں۔
اسی طرح ایک لفظ ہے“سہی“ لیکن اکثر لوگ اس کو صحیح کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر” آپ نے سہی کہا“ جبکہ یہاں لفظ صحیح آ گا ، سہی نہیں۔ لیکن لوگ ہماری ”رہی سہی“ اردو کو بھی اس سہی کے غلط استعمال سے برباد کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
ایک لفظ اور ہے جو اردو لکھنے والوں کے ہاتھوں تیزی سے ضاع ہورہا ہے اور وہ ہے ”فی الحال“ جو بن گیا ہے اب ” فلحال“۔ فی کے ی کے گلے پر بالکل چھری پھیردینا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
کچھ لوگ لہذا کو لحاظہ لکھنے میں ذرا لحاظ نہیں کرتے۔
پھر ایک مصیبت ز اور ذ کے درست اور بروقت استعمال کی بھی ہے۔ اکثر لکھنے والے جذبات کو جزبات، جذبہ کو جزبہ، جذباتی کو جزباتی لکھتے چلے جارہے ہیں اور ہماری پیاری اردو دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے۔
حیرت اور افسوس اس بات پر ہے کہ یہ سب نہایت عام سی باتیں ہیں اور اسکول کی ابتدای جماعتوں میں ہی ان کی اصلاح کردی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے آج کے لکھنے والے ان غلطیوں پر قابو نہ پاسکے ؟ کیا ہمارے اردو کے استادوں نے اپنی ذمہ داری چھوڑ دی ؟ یا ان کے اپنے ہجے بھی ایسے ہی ہیں ؟ یا اب زبان کے درست استعمال کی کوی اہمیت نہیں رہی ؟
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔
خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی