• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کو علم سکھانے کے مختلف طریقے متعارف کروائے جارہے ہیں۔ بچوں کو میتھ میٹکس یعنی ریاضی کی تعلیم کے لیے بھی اب نئے طریقہ کے تحت دی جارہی ہے۔ تاہم، یہ نیا طریقہ تعلیم والدین کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ خود انھوں نے پرانے طریقے کے تحت میتھ میٹکس پڑھی ہوئی ہوتی ہے، یوں ان کے لیے نیا طریقہ سمجھنا اور پھر بچوں کو سمجھانا قدرے مشکل ہوتا ہے۔

نئے طریقہ کی ابتدا

80ء اور 90ء کی دہائیوں میں پروان چڑھنے والے والدین نے ریاضی کے مسائل حل کرنے کے لیے طویل تقسیم (ڈویژن) جیسے بنیادی فارمولے سیکھے۔ لیکن 2010ء میں کامن کور اسٹیٹ اسٹینڈرڈز انیشی ایٹو (CCSSI) متعارف کروایا گیا، جس کا مقصد امریکی طلبا کو انگریزی زبان کے فنون اور ریاضی سکھائے جانے کے طریقے کو تبدیل کرنا تھا۔ ماہرین کے مطابق، ریاضی کی مشق کے لیے یہ تین اہم اہداف کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا تھا:

٭ ہائی اسکول کے فارغ التحصیل طلبا کو وہ ہنر فراہم کیے جائیں جو انہیں بعد از ثانوی تعلیم یا افرادی قوت میں کامیابی کے لیے درکار ہیں۔

٭ تمام امریکی طلبا کے لیے ریاضی کے ٹیسٹ کے اسکور کو فروغ دیا جائے۔

٭ انفرادی ریاستی نصاب اور طریقوں کے درمیان فرق کو ہموار کیا جائے۔

ان اہداف کو پورا کرنے کے لیے، کامن کور میتھ میٹکس کو ریاضی کی مشق کو ذہن میں رکھتے ہوئے کے لیے آٹھ معیارات کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ یہ اس بات کی عکاسی کرے کہ طالب علم ریاضی کیسے سیکھتے ہیں۔ فورڈھم یونیورسٹی میں ریاضی کی تعلیم کی اسسٹنٹ پروفیسر، ایلیسیا میکل مولڈاون کہتی ہیں، ’’یہ نیا طریقہ طالب علموں کو ریاضی کا مواد دیکھنے اور اس میں مشغول ہونے کے مزید اختیارات فراہم کر رہا ہے اور وہ کنڈرگارٹن سے 12ویں جماعت تک کا سفر طے کرتے ہوئے ریاضی کو بڑے آئیڈیاز سے بہتر طور پر جوڑ رہے ہیں‘‘۔

نئے مقابلہ پرانے میتھ کی حکمت عملی 

طالب علموں کو بجائے طریقہ کار کے جھمیلے میں ڈالنے کے اس بات کی بہتر تصوراتی تفہیم (Conceptual Understanding) پیدا کرنے میں مدد کے لیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، اساتذہ ریاضی کی مشقوں کے بنیادی تصور کو واضح کرنے کے لیے متعدد طریقے سکھاتے ہیں۔ ان میں سے ایک ’لینڈ مارک نمبرز‘ ہیں، جیسے کہ 25، 50، 75، 100جن کے ساتھ کام کرنا آسان سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہم ان کے بارے میں پیسے کے لحاظ سے سوچ سکتے ہیں۔ چند اور ’دوستانہ نمبرز‘ جو عام طور پر 10 یا 100 کے ملٹی پل میں ہوتے ہیں، وہ 47 یا 457 کے مقابلے میں آسان سمجھے جاتے ہیں۔

دو ہندسوں کے نمبر جمع (Add) کرنے کے لیے والدین (جنھوں نے پرانے طریقے کے تحت میتھ میٹکس سیکھا ہے) ایک نمبر کو دوسرے کے اوپر رکھ کر جمع کریں گے۔ تاہم، نئے طریقہ کار کے تحت طلبا کو یہ سوچنے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ نمبروں کو کس طرح ترتیب دے سکتے ہیں۔ مثلاً 41 + 29 میں آپ 29 کو 30 کے طور پر لکھ سکتے ہیں، جو کہ 10کی عدد میں ایک ’دوستانہ نمبر‘ ہے۔ اس طرح آپ 41 کو 40 میں بدل دیتے ہیں۔ 

یوں آپ نے 41 سے 1 کم کردیا اور 29 میں 1 کا اضافہ کردیا۔ اس کے بعد بھی آپ کے پاس 70 کا مجموعہ آئے گا۔ ایک اور حکمت عملی کے تحت ’10 ‘ بنائے جاتے ہیں۔ مثلاً آپ 8 + 6 + 2 کو جمع کرنا چاہتے ہیں، پہلے آپ نمبروں کو دوبارہ ترتیب دے لیں تاکہ آپ جلدی سے 10 بنا سکیں۔ لہٰذا، آپ 8 + 2 جمع کریں اور پھر 6 کا اضافہ کریں گے تو 16کا مجوعہ حاصل ہوجائے گا۔

اس تصور کا مقصد بہتر طور پر اس بات کی عکاسی کرنا ہے کہ آپ اپنے ذہن میں فوری طور پر ریاضی کے مسائل کیسے حل کر سکتے ہیں، اسے عرف عام میں مینٹل میتھ بھی کہا جاتا ہے۔ مولڈاون کہتی ہیں، ’’امید ہے کہ نمبروں کو دوبارہ ترتیب دینے سے مینٹل میتھ اور ریاضی کی بہتر تفہیم میں مدد مل سکتی ہے‘‘۔ 

اضافی طریقوں میں تصور کو واضح کرنے کے لیے تصویریں بنانا شامل ہے۔ نیو یارک سٹی میں بچوں اور بڑوں کو سکھانے کا 35 سالہ تجربہ رکھنے والی ماہر ڈاکٹر ریبیکا مانس کہتی ہیں، ’’اس نئے طریقے کا مقصد بچوں کو ریاضی کی ترکیب سیکھنے سے دور ہونے میں مدد کرنا اور انھیں اس کی سمجھ فراہم کرنا ہے کہ نمبرز اور پیٹرن کیسے کام کرتے ہیں۔ مثلاً روایتی طور پر دو ہندسوں کی ضرب (multiplication)سکھانے کے بجائے استاد اکثر ’باکس میتھڈ‘ اور ایریز (arrays)جیسے طریقے استعمال کرے گا‘‘۔

ڈاکٹر مانس کہتی ہیں کہ ’’میتھ میٹکس کا نیا طریقہ تنقیدی سوچ کی سرگرمیوں کو ورڈ پرابلم پر زور دینے سے جوڑتا ہے۔ کچھ امتحانی سوالات طلبا سے اپنے استدلال یا مسئلے کو حل کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقے کے بارے میں چند جملے لکھنے کا کہتے ہیں‘‘۔ 

طالب علموں کو ان کے حتمی نتائج تک پہنچنے کے لیے مختلف تکنیکوں کی پیشکش کرتے ہوئے، امید ہے کہ ان کے پاس مختلف حکمت عملیوں کا ایک مکمل ٹول باکس ہوگا جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ’’اس طرح، طلبا میتھ میٹکس کے نئے طریقے کو مسئلہ حل کرنے کے عمل کے طور پر زیادہ دیکھتے ہیں، اس کے برعکس کہ ’میرا فارمولہ کہاں ہے؟‘، مولڈاون کہتی ہیں۔ بدلے میں، ماہرین تعلیم کو امید ہے کہ وہ حقیقی دنیا کی ریاضی کے لیے بہتر طریقے سے تیار ہوں گے۔