• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’یاور مہدی‘ ریڈیو پاکستان کراچی کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر، ، براڈ کاسٹر ، مایہ ناز پروڈیوسر تھے

ریڈیو پاکستان اور یاور مہدی ہمیشہ لازم و ملزوم سمجھے گئے ۔ریڈیو کی دنیا، ایک نرالی ، طلسماتی دنیا ،جو ایک بار اس میں داخل ہو جائے اس کے سحر میں جکڑ جاتا ہے۔ اس کا حصہ بن جاتا ہے پھر واپسی کا راستہ نہیں پاتا۔

یہاں ایسے نابغہ روزگار لوگ تھے کہ جن کے پاس آپ کچھ دیر بیٹھ جائیں تو علم و آگہی کے بیش بہا موتی سمیٹ کر اٹھیں،ریڈیو پاکستان کراچی کی مرکزی عمارت ایم اے جناح روڈ المعروف ’’بندر روڈ‘‘ پر واقع تھی اور اپنے آرکیٹکچر میں منفرد مقام رکھتی تھی، سورج کی کرنیں جب اس پر پڑتیں لگتا کہ جیسے یہ عمارت سونے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ 

جگمگاتی ،سنہری اور اس میں سنہرے جگمگاتے لوگ ہی پائے جاتے تھے، ادیب، شاعر ،دانشور ،سیاست دان، تعلیم دان، ڈاکٹرز ،ایسی شخصیات جو اپنے اپنے شعبوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے، ریڈیو کے پروگراموں میں مدعو کئے جاتے ۔ان سے ملنے ،ان کی شخصیت، گفتگو اور علم و آگہی سے مستفید ہونے کا موقع ملتا،ریڈیو سننے والوں کو، ریڈیو پاکستان ادب ثقافت، علم و آگہی کا ایک مرکز تھا، ریڈیو پاکستان کراچی اسٹیشن افراد کا نام تھا، وہ افراد جو اس ادارے سے محبت کرتے تھے ۔دام سے زیادہ کام کی فکر میں رہتے، ریڈیو پاکستان کے گیٹ میں داخل ہوتے وقت جو مسرت و انبساط کی کیفیت ہوتی تھی وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ 

یہاں کے ’’ہوا بند کمروں ‘‘ (اسٹوڈیوز) میں جادوجگایا جاتا۔ دور دراز ریڈیو کھولے لوگ ایسی دنیا میں اتر جاتے تھے جہاں پھول کھلے ہوتے، پات ہرے ہوتے۔ رم جھم بادو باراں ہوتی، جو تصویر آواز سے بنتی ہے۔ اس کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔ ہر شخص اپنی پسند کا پیکراور منظر تراشتا ۔ زندگی ہر وقت رواں دواں رہتی، توانائی کےساتھ آگے بڑھتی محسوس ہوتی۔ صرف کراچی ریڈیو میں نہیں، ہر شہر میں ریڈیو پاکستان کی ہر دلعزیزی کا یہی حال تھا۔

ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسرز اپنی زندگی کا مقصد ریڈیو ہی سمجھتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے ، جو کڑے مدارج طے کرکے کئی انٹرویوز سے گزر کر ایک پینل کے ذریعے منتخب کئے جاتے تھے۔یہاں کے ہر کمرے میں نئے پروگراموں کی منصوبہ بندی پر پروڈیوسر خواہ جونیئر ہو یا سینئر وہ شہر کے دانشوروں کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھا اور یہی سوچتا کہ نیا کیا ہو ،ندرت کیسے آئے ؟سننے والوں کو اپنی طرف کیسے متوجہ کیا جائے؟ 

انہیں چاق و چوبند اور با صلاحیت پروڈیوسرز میں یاور مہدی سر فہرست تھے، وہ’’بزم طلبا ء‘‘کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتے تھے، کراچی یونیورسٹی، ڈائو میڈیکل، این ای ڈی انجینئرنگ یا کراچی کا کوئی بھی کالج وہاں کا ہر طالب علم ’’یاور بھائی ‘‘کا دیوانہ تھا۔ وہ جگت ’’بھائی ‘‘ تھے، ان سے بڑی عمر کے لوگ بھی انہیں پیار اور احترام سے ’’یاور بھائی ‘‘ کہتے۔ ’’بزم طلبا ‘‘ کے پروڈیوسر یاور مہدی تھے، یہ پروگرام روزانہ نشر ہوتا تھا اور اس میں حصہ لینے والے اور اس کو ON AIRسننے والے طلبا و طالبات کو براڈ کاسٹنگ کے علاوہ بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔،مزے کی بات یہ تھی کہ اگر یاور بھائی کو کسی اور پروگرام کا انچارج بنا دیا جاتا تو بھی بزم طلباء کیلئے مشورے انہی سے لئے جاتے۔

’’جشن طلباء ‘‘بھی یاور مہدی کا ایسا کارنامہ تھا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس جشن کے ذریعے یاور بھائی نے ان گنت ٹیلنٹ تلاش کیے ،وہ منفرد صلاحیتوں کے مالک تھے، یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ریڈیو ان کی گھٹی میں ڈالا گیا ہو ،وہ ہر وقت عمدہ سے عمدہ پروگرام ترتیب دینے کی منصوبہ بندی میں ا س طرح مگن رہتے تھے، جیسے ایک انجینئر تاج محل بناتے وقت اپنی سوچوں میں گم ہو، جس طرح بابل و نینوا کے ہوا میں معلق باغ لگاتے وقت ہمیشہ پریشان ہو یا پھر لیونارڈ مونا لیزا کی تصویر کےلئے رنگ تلاش کر رہا ہو اور جس طرح مائیکل اینجلو کا مجسمہ تراشتے وقت بے چین ہوتا تھا۔

یاور بھائی خود ادیب، شاعر یا مصور نہیں تھے لیکن کتنے شاعر، موسیقار، آرٹسٹ، گلوکار، پینٹر ان کی شخصیت میں پوشیدہ ، کوئی خود گا نہ سکے لیکن سریلے گلے والے کو گلوکار بنا تو سکتا ہے، خود تصویر کشی نہ کرے لیکن جس تصویر کودیکھ کر تڑپ اٹھے اس کی ستائش کرے اور ان خو بیوں کے مالک یاور مہدی تھے ،جنہیں خود بادشاہ بننے کا کوئی شوق نہیں تھا مگر وہ بادشاہ گر تھے۔

آج پاکستان کے کئی بڑے سیاست دان، ادیب، شاعر ،مصور، اسکالر، فنکار ایسے ہیں جنہوں نے اپنے سفر کی ابتداء ’’بزم طلبا ‘‘ سے کی اور اس کا سہرا یاور مہدی کے سر ہے۔ اگر ہیرے کو کان سے نکال کر تراشا نہ جائے تو اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، اس طرح اگر باصلاحیت انسان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے تو اکثر وہ اس مقام پر نہیں پہنچ پاتا جس کا وہ حقدار ہوتا ہے ۔ یاور مہدی نے کبھی کسی کا حوصلہ نہیں توڑا۔

جی تو چاہتا ہے کہ ان تمام ستاروں کا نام لوں جو حلقہ یاورمہدی میں شامل تھے، ہمیشہ شامل رہیں گے۔ جن میں بے شمار نے اپنے اپنے میدان میں کمال کر دکھایا لیکن … کسی ایک کا بھی نام رہ گیا تو زیادتی ہو جائے گی۔ اس لئے ان کے تراشے ہر ہیرے ان کے چاہنے والے ہر طالب علم کی طرف سے منور کلیمی کا یہ شعر نمائندگی کرےگا کہ

مرثیہ مرگ ناگہاں، صورت کرب جاں لکھوں

آنسو تھمیں تو اے میرے خامہ خوں چکاں لکھوں

دنیا ایک سرائے ہے ، یہاںآنا، جانا لگا رہتا ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو کسی ادارے کے احاطے سے چلے بھی جائیں تو بھی ان کا نام اس عمارت کے ہر درودیوار پر لکھا رہتا ہے ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے ان کی محبتوںاور ان کی چاہتوں کا عکس لوگوں کے دلوں کو گرماتا رہتا ہے۔ 

یاور مہدی بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے، جب بھی ریڈیو، کا ،بزم طلباء، آرٹس کونسل کا نام آئے گا یاور مہدی کی محبتوں اور خدمات کو ضرور دوہرایا جائے گا ،سراہا جائے گا اور یہی کسی انسان کی وہ کامیابی ہے جو وقت کے عذاب اور موسموں کے احتساب سے دور رہتی ہے۔