• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کی معروف سڑک فاطمہ جناح روڈ پر واقع ’’باغ جناح‘‘ میں شہر کراچی کی یہ شاہکار گیلری ہے،جسے شہرئہ آفاق مصور اور خطاط صادقین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، صادقین ایک منفرد مصور ہونے کے ساتھ ساتھ مایہ ناز خطاط اور رباعی گو بھی تھے، دنیا بھر میں اپنے کام سے پہچانے جاتے تھے۔ وہ ساری زندگی ایک نیا جہان آب و گل تخلیق کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ صادقین پاکستان کے ان بڑے مصوروں میں سے ایک تھے جنہوں نے مصوری میں بین الاقوامی شہر ت حاصل کی اور اپنے کمال و فن سے ملک و قوم کا نام روشن کیا اور پاکستان سمیت دنیا بھرمیں اپنی فنی مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

گیلری صادقین کا باقاعدہ افتتاح 5 ستمبر 1990ء کو ایک پر وقار تقریب میں اس وقت کے سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد نے کیا تھا۔ اس موقع پر معززین شہر ، ملک کے نامور مصوروں ، خطاطوں، صادقین کے شاگردوں اور مداحوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی، اس گیلری کو صادقین کے نام سے منسوب کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ صادقین مرحوم نے اپنے آخری ایام اسی عمارت کی بالائی منزل پر گزار ے تھے۔ 

وہ اس عمارت میں حکومت کی جانب سے ’’تاحیات مہمان‘‘ کے طور پر مقیم رہے،یہاں انہوں نے اپنی زندگی کا تقریباً ایک سال گزارا اور عمارت کی بالائی منزل کو اپنی خطاطی سے سجانے کے کام کا آغاز کیا ،جس کا بنیادی موضوع ’’الارض و سٰموات‘‘ تھا۔ صادقین نے اس مقصد کے لئے آٹھ فٹ لمبے اور چار فٹ چوڑے 100 پینلز پر مصوری کا آغاز کیا ،جس کا مجموعی رقبہ 3200 مربع فٹ بنتا تھا۔

زندگی کے آخری دنوں میں جب وہ اس عمارت کی دیوار پر پینٹنگ کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک گر پڑے، انہیں فوری اسپتال لے جایا گیا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور 10 فروری 1987ء کو اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہوگئے، افسوس کہ صادقین کی ناگہانی موت نے انہیں یہ اہم نوعیت کا کام مکمل کرنے کی مہلت نہیں دی، تاہم انہوں نے اس کام پر مشتمل 87 پینلز مکمل کرلئے تھے ،مقامی حکومت نے صادقین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر اس عمارت کی بالائی منزل کو ان کے نام سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا اور صادقین کے نامکمل کام ہی کو چھت پر آویزاں کرنے کا منصوبہ بنایا ، تاکہ گیلری کو صادقین کے فن پاروں سے سجا کر فن مصوری و خطاطی کے شائقین کے لئے کھولا جاسکے۔ 

دو، ڈھائی برس تک اس آرٹ گیلری کی تزئین و آرائش کا کام تن دہی سے جاری رکھا گیا۔ چھت پر خطاطی کے ان نمونوں کو لگانے کے لئے ایک نوجوان، محمد نواز نے انتہائی توجہ ، لگن اور محنت سے صادقین کے وہ شاہ کار جو انہوں نے اس ہال کی چھت کے لئے تیار کئے تھے ترتیب سے آویزاں کئے۔ یہ بڑا دشوار گزار کام تھا جس کے لئے فن کارانہ صلاحیتوں کی بھی انتہائی ضرورت تھی جو اس نوجوان نے شب و روز کی محنت سے مکمل کیا، مصوری و خطاطی کا شاہ کار آج بھی نامکمل حالت میں موجود ہے اور شاید یہی اس کا حسن بھی ہے۔ بقول شاعر ؎

اے مصور، تیری تصویر ادھوری ہے ابھی

15 فروری 1986 ء کو باغ جناح میں جہاں یہ گیلری قائم ہے اس کے سبزہ زار پر شہرئہ آفاق مصور صادقین نے ایک پروقار تقریب میں سنگ مرمر کی 40 الواح پر مشتمل سورئہ رحمن کی خطاطی اہل شہر کو تحفے کے طور پر پیش کی۔ اس خطاطی کی تین روز تک نمائش بھی منعقد کی گئی ،جسے معززین شہر کی بڑی تعداد نے نہ صرف دیکھا بلکہ دل کھول کر ان کے کام کو سراہا، صادقین اس نمائش کے موقع پر نہ صرف خود موجود رہے بلکہ آنے والے شہریوں سے ملاقاتیں اور انہیں ان خطاطی کے نمونوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ بھی کرتے رہے۔

بعض افراد نے اس موقع پر ان سے نہ صرف آٹو گراف لئے بلکہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نام کی خطاطی بھی کروالی۔ صادقین ایک بہت بڑے دل کے مالک تھے اور درویش صفت تھے اس لئے کسی بھی جاننے والے شخص کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ اس تقریب کا دعوت نامہ بھی صادقین نے ازخود تیار کیا تھا جو اب تاریخی حیثیت اختیار کرگیا ہے، اس سے اس بات کی بھی غمازی ہوتی ہے کہ وہ اس شہر کے رہنے والوں سے کس قدر محبت کرتے تھے ، اسی جذبے کے تحت انہوں نے سنگ مرمر کے 40 ٹکڑوں پر مشتمل سورئہ رحمن کی خطاطی اہل شہر کو تحفتاً پیش کی جو آج بھی محفوظ ہے۔

صادقین مرحوم نے اس عرصے میں جو انہوں نے اس عمارت کی بالائی منزل پر گزارا ، بڑے بڑے مالی فوائد کے کام یہ کہہ کر رد کردیئے کہ وقت کم ہے اور اس شہر کا قرض ان پر زیادہ ہے، اس لئے وہ صرف شہر کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں، یہ ان کی کراچی کے لوگوں سے محبت کی ایک عظیم مثال تھی۔

’’گیلری صادقین‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے اس وقت کے سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد نے صادقین کو زبردست انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ، کہ ’’صادقین نے بڑے بڑے کام اس قدر کم مدت میں انجام دیئے کہ بعض حلقے ان کے نحیف وجود کے ہاتھوں کے تراشے ہوئے عظیم فن پارے دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کرسکتے کہ یہ شخص اس قدر عظیم کارنامے سر انجام دے سکتا ہے۔ صادقین ہمہ وقت بنیادی سچائی کی تلاش میں سرگرداں رہے، جو عظیم فن کاروں اور ادیبوں ہی کا فرض منصبی معلوم ہوتی ہے۔ 

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا کے عظیم دانشو وروں اور ذہنوں میں مملکت پاکستان کے شعرائے کرام ، اہل قلم، خواتین و حضرات اور صادقین اور عبدالرحمن چغتائی جیسے عظیم ستونوں کے نام بھی آتے ہیں۔ صادقین کے فن کا احاطہ کرنا میرے لئے ناممکن ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور مصوری میں ان کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا۔ ان کی مصورانہ خطاطی سے ہر شخص اچھی طرح واقف ہے۔‘‘

صادقین کی روشن خیالی نے ہمیشہ پاکستان کے مصوروں اور خطاطوں کو ایک نیا حوصلہ دیا، جس کی بدولت ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے بے شمار فن کاروں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ صادقین کی خدمت کے اعتراف کے طور پر مصوروں اور خطاطوں کے لئے ان کے نام سے منسوب’’صادقین ایوارڈ‘‘ کا اجراء 1991 ء میں کیا گیا جو اسی عمارت کے سبزہ زار پر منعقدہ تقریب میں مصوروں اور خطاطوں کو دیئے جاتے ہیں۔

گیلری صادقین کے میورل کے ساتھ ساتھ صادقین کی بنائی ہوئی خطاطی شاہ فیصل مسجد (اسلام آباد)، جی ایچ کیو (راول پنڈی)، مدینہ منورہ، مکہ معظمہ، شاہی محل سعودی عرب اور فرانس کے شہر پیرس سمیت دنیا کے دوسرے بڑے شہروں میں بھی موجود ہیں۔ صادقین نے جس زمانے میں اس عمارت میں رہا کرتے تھے تو مصوری و خطاطی کے بہت سے طالب علم اور ان کے مداح خصوصاً خواتین وہاں آتیں اور بلامعاوضہ اپنے نام کی خطاطی یا مصوری کا کوئی شاہ کار ان سے حاصل کرکے لے جاتیں۔ اس دور کے چیف سیکریٹری سندھ سمیت کئی سرکاری افسران ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے ملاقات کو اپنے لئے باعث فخر تصور کرتے ۔

صادقین کی انگلیاں ہمیشہ رنگوں میں ڈوبی رہتیں۔ زیادہ تر سفید کرتے اور پاجامے میں ملبوس رہتے، دنیا کا یہ عظیم مصور اور خطاط بعض مرتبہ کام کرتے کرتے وہیں سو جاتا اور جب جاگتا تو دوبارہ اٹھ کر اپنے کام میں مصروف ہوجاتا۔ صادقین کے سونے جاگنے اور کھانے پینے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا، وہ ہوتے ان کا برش ہوتا اور گیلری صادقین، شاید ان کا یہی کل اثاثہ بھی تھا، انہوں کراچی شہر کو مصوری کے وہ شاہ کار دے گئے جو رہتی دنیا تک ان کی یاد دلاتے رہیں گے، دنیا بھر سے شائقین مصوری اور خطاطی آج گیلری صادقین دیکھنے کے لئے پاکستان آتی ہے اور اس گیلری کی چھت پر لگے ہوئے نامکمل میورل کو دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔ کاش صادقین کچھ دن اور زندہ رہتے تو ان کا یہ نامکمل شاہ کار بھی مکمل ہوجاتا۔