میں اس وقت میانوالی میں ہوں اور صبح وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی میانوالی میں ہونگے ۔میرا میانوالی میں ہونا بالکل اُسی طرح جس طرح مچھلی پانی میں ہوتی ہے مگر وزیر اعلیٰ کا میانوالی میں ہونا حیرت انگیز بھی ہے اور یادگار بھی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے میانوالی میں اُس جگہ آنا ہے جس کے ساتھ میری زندگی کا ایک ہولناک واقعہ وابستہ ہے ۔
نوجوانی کی بات ہے ہم پانچ دوست دریائے سندھ میں ایک کشتی پر کالابا غ سے دھن کوٹ جا رہے ہیں ۔دھن کوٹ کئی ہزارسال پہلے دریائے سندھ کے کنارے پر ایک اہم شہر ہوا کرتا تھا۔اُس کےآثار قدیمہ اب بھی موجود ہیں ۔پہاڑوں کی بلندی پر یہ شہر اُس وقت کے بادشاہ کا پایہ تخت تھا ۔صدیوں پہلے بھی اُس شہر تک پہنچنے کےلئے دریا سے گزرنا پڑا تھا اور آج بھی اُس تک پہنچنے کا واحد راستہ دریا ہی ہے ۔باقی چاروں طرف ناقابل عبور پہاڑی سلسلے ہیں ۔ہماری کشتی بلندی کی سمت چل رہی تھی ۔ تنگ دریا کے دونوں طرف بلند و بالا پہاڑی چٹانیں تھیں ۔ جن سے ٹکرا ٹکرا کر موجیں میانوالی کے تیس میل چوڑے میدان میں داخل ہونے کےلئےراستے تراشتی تھیں۔ہماری کشتی کا ملاح بہت ماہر تھا ۔دریا کے اندر چٹانیں تھیں ۔ملاح کو ہر چٹان کا علم تھا وہ ان سےکشتی بچا بچا کر آگے بڑھاتا جارہا تھا۔کافی آگے جا کر اچانک ہماری کشتی ایک چٹان سےٹکرائی ۔تند و تیز لہروں نے تیزی سے کشتی کودوسری چٹان کی طرف پھینک دیا مگرملاح نے برق رفتاری سے ایک لنگر نمارسہ ایک نوکدار چٹان میں ڈال لیا۔اورہم اس رسے کو پکڑ کر اس دیوار جیسی چٹان تک پہنچ گئے جہاں دریاکے کنارے کھڑے ہونے کی جگہ تھی ۔ہم پانچ دوست مع ملاح ایک ایسے محفوظ مقام پر پہنچ گئے جہاں ہمیں دریا کی موجوں سے کوئی خطرہ نہیں تھامگروہاں سے کسی سمت بھی جانا ممکن نہیں تھا۔کشتی لہروں کے دوش پر کہیں سے کہیں پہنچ گئی تھی۔ موبائل فون کا دور نہیں تھا کہ کسی کو اس حادثے کی خبر دی جاسکتی ۔پریشان حال وہیں بیٹھ گئے ۔اللہ کے سوا مدد کی کہیں سے کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی مگر ابھی دو ہی گھنٹے گزرے تھے کہ وہاں دو کشتیاں پہنچ گئیں ہم ان پر سوار ہوکر واپس کالاباغ آگئے ۔یہ دونوں کشتیوں اسی ملاح کے بھائیوں کی تھیں ۔ انہوں نے دریا میں بہتی ہوئی خالی کشتی دیکھ لی تھی اور انہیں معلوم تھا کہ ان کابھائی کچھ لوگوں کو لے کر اسی سمت گیا ہے ۔یہ واقعہ کسی ایک ڈرائونے خواب کی طرح میرے ذہن سے چپکا ہوا ہے۔ابھی جب مجھے معلوم ہے کہ وہ چٹانیں جو اوپر کی سمت میں سفر نہیں کرنے دیتی تھیں انہیں توڑ دیا گیاہے۔اب اسٹیمر آسانی سےدریا میں الٹے رخ سفر کرتے ہوئے اٹک تک پہنچ سکتا ہے اوراسی اسٹیمر کے سفر کا افتتاح کرنے کےلئے وزیر اعلیٰ پنجاب میانوالی آرہے ہیں تو مجھے ایک اجنبی سی خوشی کا احساس ہوا۔
میانوالی کا ہونے کےسبب میرے ذہن میں اور بہت سی باتیں آئیں ۔وزیر اعلیٰ سے کچھ گزارشات کرنے کو جی چاہا۔میں آدھی دنیا دیکھ چکا ہوں اور پوری دیانت داری سے یہی سمجھتا ہوں کہ میانوالی سے زیادہ خوبصورت جگہ پوری دنیا میں نہیں ہے ۔اگر وزیر اعلیٰ میانوالی کی طرف تھوڑا سا دھیان دےدیںتو ٹورازم کے حوالے سے میانوالی پنجاب کامری کے بعد سب اہم شہر قرار پا جائے گا ۔کالم میں ساری تفصیل تو نہیں لکھی جا سکتی صرف چند باتیں عرض کرتا ہوں ۔گرمیوں کے موسم میں جب میانوالی میں درجہ حرارت پینتالیس سے پچاس ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اُس وقت میانوالی میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں رات کولحاف اوڑھ کر سونا پڑتاہے ۔یہ جگہ میانوالی کے شہر تبی سر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پرہے اس جگہ کو قنبرسر کہتے ہیں ۔اگر پنجاب حکومت اس مقام پر تھوڑی سی توجہ دے تو اہل میانوالی مری جانا بھول جائیں گے ۔یہ وضا حت بھی ضروری ہے کہ یہ علاقہ عمران خان کے حلقہ انتخاب میں آتا ہےجس سے اہل میانوالی بے پناہ محبت کرتے ہیں۔
میانوالی میں دنیا کی خوبصورت ترین جھیل بھی موجود ہے۔اسےنمل جھیل کہتے ہیں ۔ بہت کم لوگوں نے اس جھیل کو دیکھا ہوا ہے ۔ یہ جھیل وہیں ہے جہاں عمران خان نے نمل یونیورسٹی بنائی ہے ۔ مگریونیورسٹی کے کنارے جو پانی دکھائی دیتا ہے وہ نمل جھیل نہیں ہے نمل جھیل کے پانی کا فلو ہے جو جھیل میں پانی بڑھ جانے پرکوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرکے باہر نکل آتا ہے ۔ اصل جھیل اس یونیورسٹی سے تقریباً چار میل آگے پہاڑوں کے اندر ہے ۔یہ سیدھی قدرتی طور پر تراشی ہوئی چٹانوں کا ایک پیالہ ہے ۔جسے دیکھ کر ہالی وڈ کی فلمیں یاد آ جاتی ہیں ۔چٹانوں کا رنگ بالکل سفید ہے جیسے کسی نے چونا پھیر دیا ہو ۔اس سفیدی کا راز اور بھی دلچسپ ہے۔دراصل اس جھیل پر اتنی بڑی تعداد میں صدیوں سے بگلے آ باد ہیں کہ ان کی بیٹوں سے چٹانوں کا رنگ سفید ہوگیا ہے۔چند سال پہلے تک تو وہاں جانے کےلئے کوئی سڑک موجود نہیں تھی اب سنا ہے بنا دی گئی ہے ۔یہ علاقہ بھی عمران خان کے حلقہ انتخاب میں شامل ہے ۔
چشمہ کا ذکر نہ کرنا بھی نا انصافی ہوگی ۔چشمہ جھیل ، چشمہ بیراج ، چشمہ جہلم لنک کینال اورچشمہ اٹامک انرجی کے نام تو تقریباً سب لوگ جانتے ہیں ۔ چشمہ جھیل چودہ میل چوڑی جھیل ہے ۔ بہت ہی خوبصورت ہے ۔مگرمیرا موضوع وہ نہیں ۔میں تو اُس چشمہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے اس علاقے کا نام چشمہ ہے ۔یہ چشمہ میانوالی میں کوہ سرخ کی ایک بلند پہاڑی کی چوٹی پرواقع ہے ۔جہاں وہ ہزاروں سال پرانے ایک برگد کے درخت کے نیچے ابل رہا ہے۔ ڈھلوان پر بہتے ہوئے پانی کے دونوں اطراف بہت قدیم کھجوروں کے درخت قطار میں لگے ہوئے ہیں ۔ پتھروں پر روئیدگی اگی ہوئی ہے ۔سینکڑوں سال پرانے کھجوروں کے درختوں کے تنے ہر طرف بکھرے پڑے ہیں ۔یہ ایک ایسا منظر ہے جس سےآنکھ ہٹائی نہیں جاسکتی ۔میری خواہش ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میانوالی کے یہ تمام مناظر اپنی آنکھوں میں سمیٹ لیں ممکن ہے ان کے دیکھنے سے ان مناظر کی زندگیاں بدل جائیں ۔اگر خود نہیں دیکھ سکتے تو کم ازکم میانوالی کے قائم مقام ڈی سی اوغلام مصطفیٰ شیخ اورڈی پی او صادق علی ڈوگر کو خصوصی احکامات جاری کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس سلسلے میں اِن افسران پر تھوڑی سی نظرِ کرم فرما دی تو یہ ایک نیا میانوالی بنانے میں ضرور کامیاب ہوجائینگے ۔ایک آخری بات کہ ڈھک والی پہاڑی سڑک کئی سال سے زیر تعمیر ہے۔جس کی وجہ سے میانوالی کے لوگوں کو بہت تکلیف ہے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سڑک صرف اس لئے مکمل نہیں کی جارہی کہ اِس سڑک کے کنارے عمران خان کی بنائی ہوئی نمل یونیورسٹی ہے۔مجھے یقین ہے کہ لوگوں کا یہ خیال غلط ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب اتنے کم ظرف ہرگز نہیں۔ بہر حال ان سے درخواست ہے کہ تھوڑی سی توجہ اس طرف بھی دے دیں۔