• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کے لوگ آباد تھے جن میں ہندو تاجر، بوہرہ جماعت کے افراد، گجرات کے کارپینٹر اور سنگ تراش یہ لوگ مانجھوئی کہلاتے تھے اور ان میں ہندو مسلمان سب شامل تھے۔ ان تاجروں نے کراچی میں بے شمار عمارتیں تعمیر کرائیں یہ زیادہ تر کھارا در، میٹھا در، اولڈ ٹاؤن میں تھیں۔ بلڈنگ کنٹریکٹروں میں ولی جیون مٹھو، دلوکھاتو، آسا جلال، نبی بخش سیسودیا، یوسف کوتوال، جلال الدین چانڈو، بابا محمد میر بلوچ اپنے کام میں بہت ایماندار تھے، ان کے علاوہ کراچی کے تعمیراتی کاموں میں ہندو ٹھیکیدار بھی بہت حصہ لیتے تھے، مگر تعمیراتی کام جیسلمیر سے آنے والے سلاوٹ سنگتراش ہی انجام دیتے تھے۔ کیوں کہ ان میں فنکارانہ صلاحیتیں تھیں۔

انہوں نے عمارات کے ساتھ ریلوے اسٹیشن، پل، پلیٹ فارم اور بنگلے بھی تعمیر کئے

کراچی کی بیشتر عمارات کے میناروں، محرابوں، پتھروں پر گل بوٹے، گل کاری اور باریک نقش و نگاری کا کام بہترین ہوتا تھا۔ چند مساجد بھی تھیں جس میں مسجد قصابان، مسجد میمن صدر، آرام باغ کچھی مسجد، اس کے علاوہ سرکاری عمارات تھی، ان تعمیرات کے علاوہ متمول امیر ہندو، بوہری، خوجے ، پارسی اپنی شاندار کوٹھیاں، بنگلے، دھرم شالے بنانے کے لیے انہی سنگتراشوں سے کام لیتے تھے۔ 

ایم اے جناح روڈ پر واقع تاریخی عمارت خالق دینا ہال جس میں تحریر خلافت کے رہنما مولانا محمد علی جوہر انگریزوں نے بغاوت کا مقدمہ چلا کر دو سال کے لیے قید کرلیا تھا، یہ عمارت2289گزر کے قطعہ اراضی پر قائم ہے، جسے سیٹھ غلام حسن خالق دینا کے نام سے موسوم کیا گیا ، اس کی تعمیر پر ابتدائی لاگت35ہزار روپے تھی۔

سندھ ہائیکورٹ کی پرشکوہ عمارت کراچی کی چند اہم عمارتوں میں سے ہے جو جودھ پور کے سرخ پتھروں سے تعمیر شدہ ہے، اس عمارت کو تعمیر کرنے میں سلاوٹ سنگتراشوں کی فنکاری کا نمایاں کردار ہے، سندھ ہائی کورٹ کا افتتاح28نومبر1929ءمیں ہوا۔ بلڈنگ کے انگریز آرکیٹیکٹ وڈزیل اور الیگورتھ تھے جس کا ٹھیکہ خان بہادر ہارون اور گووند جیون رام نے لیا۔ 

انہوں نے بلڈنگ کا نگران اعلیٰ سنگ تراشوں کے ماہر منگوجی کوکھا۔ اسی طرح دیا رام جیٹھامل سائنس کالج کا سنگ بنیاد1887ءمیں اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈڈفرن نے رکھا، عمارت کی تعمیر پانچ سال میں مکمل ہوئی۔ 1892ءمیں سندھ کے کمشنر نے اس کا افتتاح کیا، اس کی لاگت 1,85514 روپے آئی، جس میں35ہزار روپے دیا رام جیٹھامل اور باقی رقم عوام کے چندے اور حکومت سے مدد لی گئی اس کے ٹھیکیدار نبی بخش سلطان سیسودیا تھے، جس کے نام آج بھی ایک سڑک گزدر آباد میں موجود ہے۔

مہتہ پیلس ، رائے بہادر سیورتن جی مہتہ نے اپنی بیمار اہلیہ کے لیے سمندر کنارے تعمیر کروایا۔ ان کے نام کی ایک کمپنی ہر من مہتہ کے نام سے قائم تھی، مہتہ پیلس کی تعمیر میں دو قسم کے پتھر استعمال ہوئے، ایک پتھر جودھ پور اور دوسرا گزری کی کان کراچی کا پیلا پتھر تھا یہ عمارت مغل اور راجپوت طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ 

اس قسم کی حویلیاں جیسلمیر میں بھی بنی ہوئی ہیں۔ مہتہ نے اسی قسم کی ایک عمارت ہندو جیمخانہ بھی بنائی، اس پیلس کے تعمیراتی کام میں حاجی الٰہی بخش ، موتی لال، امام بخش، ولی محمد، حاجی یوسف اور گل محمد سنگتراشوں کے نام لیے جاتے ہیں۔ مذکورہ پیلس میں سنگ تراشی کاکام مکمل ہونے پر سیورتن مہتہ نے کئی سنگتراشوں کو انعام سے بھی نوازا اور تمام مزدوروں کو شاندار دعوت دی، قیام پاکستان کے بعد مہتہ جی ممبئی چلے گئے اور چند دن بعد ہی عارض قلب کے باعث ان کا انتقال ہوگیا۔

قیا م پاکستان سے قبل ان ٹھیکیداروں میں ہر من مہتہ، مول راج، روی جی رتنا، وشرام ہری، دیواشنگر، گوبند موتی اور مرلی مل تھے، یہ وہ مشہور ٹھیکے دار تھے جنہوں نے کراچی کی عمارات کی تعمیر میں حصہ لیا۔ اسی طرح نارتھ ویسٹرن ریلوے کے ٹھیکیداروں کی تعمیرات میں ان سنگتراشوں کی محنت شامل ہے۔ 

جنہوں نے ریلوے اسٹیشن، پل ، پلیٹ فارم اور افسران کے بنگلے تعمیر کئے۔ کراچی تاکشمور اور سبی سے کوئٹہ تک کے کام بھی انہوں نے کئے، ایک سنگتراش کھا جو مٹھو نے سبھی سے کوئٹہ جانے والی ریلوے لائن کے یے پہاڑوں میں راستہ بنایا اور سرنگ کھود کر اپنی جان داؤ پر لگائی، وائسرائے ہند نے انہیں سراہتے ہوئے اعلیٰ کارکردگی پر سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا، جو آج بھی لال بھائی بکھن کے پاس محفوظ ہے۔