یہ 16جولائی 1913کی بات ہے ،کراچی کے بارے میں ایک مضمون :FIRST SEA AND COAST AND BORDER OF INDIA{KARACHI DISTRIST ہندوستان کا پہلا سمندری ساحل اور سرحد ضلع کراچی کے عنوان سے ترکی کے ایک ہفت روزہ میں شائع ہوا۔ جو واسطی ایشیا کے ممتاز صحافی اور مصنف ایس ایم توفیق نے قلم بند کیا تھا۔ مضمون نگار نے کراچی سے روانگی اور بمبئی پہنچنے کے بعد پونا سے ترکی زبان میں شائع ہونے والے ہفتہ روزہ رسالے’’ سیبیل الرشاد‘‘(Turkish Weekly Sebilurresad)کو بھیجا تھا،بعد ازاں پروفیسر سید تنویر واسطی، جن کا شمار انگریزی اور ترکی زبان کے اہم محقیقین میں ہوتا ہے۔
اس مضمون کو ترکی کی لائبریری سے لے کر انگریزی میں ترجمہ کیا۔ مضمون نگار ایس ایم توفیق کا یہ مختصر سفر نامہ ہے، جس میں انہوں نے کراچی شہر میں چلنے والی ٹرام، چڑیا گھر،عالی شان عمارتوں،مسافر خانہ ،بندرگاہ ، لائٹ ہاؤس، ریلوے اسٹیشن، یہاں کا موسم مختلف مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد،صفائی ستھرائی اور امن وامان کی صورت حال کا تذکرہ بڑے خوب صورت پیرائے میں کیا ہے۔ اس ہفتے سفر نامےسے چند اقتباسات ہم قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔
ایس ایم توفیق اپنے ایک سفر نامہ کی روداد میں لکھتے ہیں کہ،’’ ہم رات کو کراچی کی بندرگاہ پہنچے تھے۔ سمندر میں کافی فاصلہ سے کراچی کا چمکتا ہوا مینارہ ہمارے سفر کی رہنمائی کررہا تھا۔ ہمارا جہاز آہستہ آہستہ بندرگاہ میں داخل ہوا اور لنگر انداز ہو گیا۔
برٹش انڈیا کمپنی کا ایک ایسا ہی جہاز بندرگاہ پر ہمارا انتظار کر رہا تھا، جس کو پوسٹ (ڈاک ) پارسل کو آگے کی ترسیل کے لیے (بمبئی) بھیجنے اور ڈیلیوری کے فوراً بعد وہ کراچی کی بندرگاہ سے روانہ ہونا تھا۔ ہمارے جہاز سے براہ راست بمبئی جانے والے پہلے اور دوسرے درجے کے مسافروں کی منتقلی کے لیے کمپنی کی طرف سے ایک بڑی بھاپ سے چلنے والی لانچ کا بھی انتظام کیا گیا تھا، تاہم، میں ان میں نہیں تھا جو اپنا سفر جاری رکھنا چاہتے تھے کیونکہ میں جانتا تھا کہ ہمارا جہاز کراچی میں 24 گھنٹے رکنے کے بعد اپنا سفر جاری رکھے گا، اور میں اپنے اردگرد کی دنیا دیکھنا چاہتا تھا۔
کراچی شہرمیں بجلی ہونے کی وجہ سے ساحلی علاقے روشن اور جگمگارہے تھے۔ سمندر میں تین یا چار چھوٹے جزیرے تھے، لیکن ساحل کے قریب ہونے کے باوجود وہ آباد نہیں تھے، اور ماہی گیری کی کشتیوں اور اینگلروں کے اڈے کے طور پر کام کرتے تھے۔ فجر کے وقت، میں نے جہاز سے اتر کر شہر جانے کا بندوبست کیا اس حوالے ایک 'ہوڑا ( چھوٹی کشتی) کے کپتان کے ساتھ بات چیت کی کہ، مجھےجہاز سے اتار کر بندرگاہ پر لے جایا جائے۔ میں نے ملاح کے ساتھ سودا کیا اور سفر کے لیے ایک روپیہ ادا کرنے پر رضامند ہو گیا( 8 ترک پیاسٹری 21 کے برابرتھا)۔ ملاح کو جب یہ معلوم ہوا کہ میں سلطنت عثمانیہ سے آیا ہوں تو اس نے کشتی پر عثمانی ترک پرچم اٹھا کر میرا استقبال کیا، میرے ہاتھ چومے اور مجھ سے دریافت کیا کہ کیا عثمانیوں نے اب بھی کافروں کو قتل کیا ہے؟
ایس ایم توفیق نے اپنے سفر نامے میں مزید لکھا کہ کراچی کے پاس قدرتی بندرگاہ نہیں ہے۔ اسے ایک محفوظ اور بند مصنوعی بندرگاہ کے طور پر بنایا گیا ہے، ہم نے دیکھا کہ یہ تقریباً 30 جہاز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بندر گاہ پرٹگ اور جیٹیاں مضبوط اور بڑے تھے، اور جہازوں کو ان کے قریب پہنچنے اور محفوظ طریقے سے ٹگ کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آرہی تھی۔
بندرگاہ میں دو سفید رنگ کےبحری جہاز جن میں سے ہر ایک میں دو چمنیاں لگی تھیں، بندرگاہ کے اندر گھوم رہے تھے ۔ ان کا تعلق ایک کمپنی سے تھا جو پانی کے اندر کیبلیں بچھانے اور مرمت کرتی تھیں۔ جیسے ہی ہمارا جہاز گودی کے قریب پہنچا، یونین جیک کے جھنڈے کے ساتھ ایک موٹر لانچ ایک پولیس افسر کو لے کر آئی جس نے مسافروں سے ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن کیپٹن سے ملنے کے لیے جہاز پر چڑھ گیا اور پھر کچھ منٹوں کے بعد خاموشی سے روانہ ہوگیا۔
کراچی کا تعمیر شدہ علاقہ بندرگاہ سے تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ بندرگاہ کے علاقے میں صرف ٹرین اسٹیشن، انجن اور ریلوے ویگنیں، اور بڑے تجارتی دفاتر پائے جاتے ہیں۔ چوڑی گودی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، ہم وہاں چلے گئے ،جہاں ایک ٹرام اپنی پٹریوں پر کھڑی تھی اور شہر کے مرکز کی طرف سفر کرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ٹرام الیکٹرک یا گھوڑے سے چلنے والی ٹرام نہیں تھی، بلکہ اس کا اپنا موٹر انجن تھا، جو اسے چلنے کے قابل بناتا تھا۔
ہر ٹرام 32 مسافروں کو لے جا سکتی تھی، اور وہاں ٹرام اسٹاپ تھے ،جس پر انگریزی میں لکھا ہوا تھا:’’ All Cars Stop Here‘‘۔ ہم سیدھے پبلک زولوجیکل گارڈن گئے۔ یہ بجری کے راستوں، لان اور پھولوں کے ساتھ ایک بڑا، شاندار منصوبہ بند باغ تھا۔ پرکشش ناریل ، کھجوریں اور اسی طرح کے دیگر غیر ملکی قسم کے لمبے درخت جواستنبول (ترکی) میں نہیں پائے جاتے، لان کے کناروں پر قطار میں کھڑے تھے ۔
چڑیا گھر میں شیروں کے ایک جوڑے، ایک شیر، ایک چنچل ہاتھی، مختلف قسم کے سانپ، چھوٹی اگلی ٹانگوں اور بڑی پچھلی ٹانگوں والے بیور، چھوٹے اور بڑے بندر، مختلف سائز کے چوہے اور بہت سے مور، ٹرکی طوطے شامل تھے۔ اگرچہ یہ منفرد نہیں تھے، لیکن ایک پنجرے میں برف کی طرح سفید مادہ شیرنی موجود تھی، جو جنگلی اور خوبصورت دونوں تھی۔ باغات کے کچھ حصوں میں بینچ تھے جہاں سیرو تفریح کے لئے آنے والے افراد آرام کر سکتے تھے یا بیٹھ سکتے تھے اور یہاں ہوا سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔
شہر کے درمیانی حصے میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی ایک مختصر، مگر شاندار عمارت میں موجود ہے۔ پورے کراچی میں، غیر ملکیوں کے استعمال کردہ صرف ایک چھوڑ ، کوئی بھی کافی ہاؤس ایسا نہیں ہے جو پکی ہوئی کافی پیش کرے۔ تاہم، وہاں چائے، لیمونیڈ اور دیگر مشروبات پیش کرنے والے بہت سے کیفے موجود ہیں۔
کچھ گاہک گھنٹوں وہاں بیٹھے رہتے ہیں، جب کہ دوسرے گزرتے ہوئے کھڑے کھڑے قیمت ادا کرکے مشروب خرید کر چلے جاتے ہیں۔ کراچی کی گلیاں اورسڑکوں کی تعمیر پتھر بچھاکر کی گئی ہے، جن میں کچلے ہوئے پتھروں کو اچھی طرح سے تہہ بند لگائی گئی ہے۔ سڑکیں تقریباً 20 میٹر چوڑی ہیں، جن میں دونوں طرف پیدل چلنے والوں کے لیے تین میٹر چوڑا فرش ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں رہنے والے بہت سے عرب تاجر گھوڑوں کی درآمد اور برآمد کے ساتھ ساتھ کھجور اور دیگر اجناس کی تجارت بھی کرتے ہیں، تاہم لگتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کو سیاسی اور تجارتی مفادات کے لیے مستقبل میں کراچی میں ایک عثمانی قونصل خانہ قائم کرنے کی ضرورت پڑے گی، جس میں تعینات عملہ کے افرادعربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں سے واقف ہوں۔ قونصل خانہ پاسپورٹ اور ویزا کی ضروریات اور مسافروں اور تجارتی سامان کے لیے دیگر دستاویزات کو سنبھال سکے گا۔
یہ بات مجھے کراچی میں قائم مقام عثمانی اعزازی قونصل نے ذاتی طور پر بتائی تھی۔ کراچی کا علاقہ ایک ایسے مرکز میں واقع ہے جہاں ہندوستان، فارس اور عراق ملتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ عثمانیوں کے لیے کراچی موجودہ اور مستقبل میں بہت زیادہ جغرافیائی لحاظ سے اہمیت رکھےگا۔ مزید کراچی سے سامان کو بلوچستان، ایرانی بلوچستان، افغانستان اور ہندوستان میں ہر جگہ اور سمندری راستے سے دنیا کی تمام بندرگاہوں تک بھیجنا ممکن ہے۔
ایس ایم توفیق مزیدلکھتے ہیں کہ کراچی میں قائم مقام عثمانی اعزازی قونصل کراچی کے ایک تاجر ہیں جن کے پاس کافی جائیداد بھی ہے۔ وہ محمد مولدینا نام کے ایک بوڑھے شریف آدمی ہیں، انھوں نے ہمیشہ عثمانی ترکوں کے لیے دوستی کا مظاہرہ کیا، اور جنگ کے وقت ترکوں کی مالی امداد کی مہم میں سرگرم رہے، انھوں نے فخر کے ساتھ مجھے کئی سال پہلے دیا گیا مجددیہ میڈل 5 دکھایا، اور حجاز ریلوے کے یادگاری میڈل بھی دکھائے۔
ترکی کی جنگی کوششوں کے لیے سندھ میں جمع کی گئی رقم 20,000 پاؤنڈ اسٹرلنگ سے زیادہ تھی، جسے استنبول کے لیے آگے کی ترسیل کے لیے بمبئی میں عثمانی قونصلیٹ جنرل کو بھیجا گیا، تاہم قائم مقام اعزازی قونصل قانونی طور پر پاسپورٹ یا ویزا کی درخواستوں پر کارروائی نہیں کر سکتا اور ایک تاجر ہونے کے ناطے سیاسی معاملات سے پوری طرح واقف نہیں ہے۔
سلطنت عثمانیہ کو یہاں بمبئی کی طرز پر ایک مکمل سرکاری قونصلیٹ جنرل بنانا چاہیے۔ قائم مقام اعزازی قونصل نے کراچی سے گزرنے والے مسافروں کے لیے گیسٹ ہاؤس بنانے کے لیے دل کھول کر اپنی دولت کا استعمال کیا ۔ایس ایم توفیق کے مطابق کراچی میں ایک پرکشش پل ہے، جس کے اوپر سے ٹرینیں مرکزی ریلوے اسٹیشن تک جاتی ہیں، اگرچہ کراچی کے مضافاتی علاقے اچھی طرح سے پھیلے ہوئے ہیں اور وسیع سڑکوں کے ساتھ اچھی شہری منصوبہ بندی ہے، تاہم مرکزی حصہ جہاں غریب لوگ رہتے ہیں وہ پرہجوم ہے اور صاف بھی نہیں ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ان کم ترقی یافتہ علاقوں کی مناسب منصوبہ بندی پرکوئی زیادہ توجہ دکھائی نہیں دیتی۔
کراچی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دن میں چند سکوں پر زندہ رہتے ہیں۔ کراچی میں بھکاریوں کی اتنی تعداد ہے کہ مجھےحیرانی ہوئی کہ یہ اہم شہر، جو براہ راست برطانوی راج میں ہے، بھکاریوں کو اتنی آزادی سے کام کرنے کی اجازت کیسےدے رہا ہے،تاہم میں نے دیکھا کہ پینے کے پانی کے لیے نلکوں کی یا گلیوں میں بیت الخلاء اور عوامی سہولتوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ہر گلی کے آخر اور درمیان میں ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار توجہ مبذول کراتے ہیں۔
وہ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھتے ، مشاہدہ کرتے اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی قسم کی کوئی گڑبڑ نہ ہو۔ امن و امان کا مکمل غلبہ ہے ،جب کہ لوگ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ گاڑیوں کی پارکنگ یا اسٹیشننگ کے لیے، چوڑی سڑکوں کے بیچ میں یا فٹ پاتھ پر خاص جگہیں ہیں۔ کراچی میں بھی موٹر گاڑیوں کی موجودگی کی عادت پڑتی جا رہی ہے۔کراچی میں پھلوں، سبزیوں، گوشت اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء کی فروخت کے لیے ایک بڑی مرکزی مارکیٹ ہے۔ میونسپلٹی کی طرف سے دکانداروں کے استعمال کے لیے شیلف کے ساتھ خصوصی کاؤنٹر بنائے گئے ہیں۔
اس جگہ کو صبح اور شام دونوں وقت دھویا اور صاف کیا جاتا ہے۔ شام میونسپلٹی کے اہلکار سبزیوں، پھلوں اور گوشت کا معائنہ کرتے اور اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے مہریں لگاتے ہیں کہ، انہیں فروخت کے لیے پاس کر دیا گیا ہے۔ پولیس میں تمام کراچی کے مقامی لوگوں کوبھرتی کیا گیا ہے۔ وہ یونیفارم پہنتے ہیں، ان کے سروں پر ہیٹ ہوتا ہے جس پر K.P لکھا ہوتا ہے۔(کراچی پولیس)کڑھا ہوتا ہے ۔ پولیس کے انسپکٹر عموماً برطانوی ہوتے ہیں۔
وہ گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں اور کبھی کبھار اپنے مخصوص اضلاع میں پولیس کے کام کاج کا جائزہ لینے آتے ہیں۔ کراچی میں تمام کمیونٹیز کے اپنے اسکول اور الگ الگ چرچ، مندر اور مساجد ہیں، جب تک لوگ قوانین کی پابندی کرتے ہیں، وہ مکمل طور پر آزادانہ طور پر گھوم پھر سکتے اور اپنے پیشوں کو انجام دے سکتے ہیں یا کاروبار میں شامل ہو سکتے ہیں۔
ریلوے ٹرینیں کراچی اسٹیشن پر آتی ہیں اور دن میں دو بار باقی ہندوستان میں مختلف مقامات کے لیے روانہ ہوتی ہیں، کراچی بندرگاہ سے روزانہ کم از کم 5-10 جہاز آتے اور جاتے ہیں، اس لیے کراچی ہندوستان کے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا پورٹ سعید مصر کے لیے ہے۔ کراچی میں نقل و حمل کے بہت سے طریقے ہیں: گاڑیوں، ٹراموں اور ریڑھیوں کے علاوہ، بیل گاڑیاں اور یہاں تک کہ اونٹ گاڑیاں بھی ہیں۔ یہ وہ پہلا مقام ہے جہاں میں نے ایک اونٹ کو ہر قسم کا بوجھ اٹھانے کے لیے ایک بڑی گاڑی کے مساوی دیکھا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ انگریزوں نے فوجی مقاصد کے لیے اونٹوں کو چھوٹی توپوں کو لمبے فاصلے تک گھسیٹنے کی تربیت بھی دی ہے۔
اس وقت کراچی میں ایک ضلعی کمشنر کی حکومت ہے، تاہم، یہ ایک اہم ملٹری اسٹیشن ہے، جس میں کافی تعداد میں فوج موجود ہے، کیونکہ یہ سرحد کے قریب واقع ہے۔ پھر بھی، فوجی اہلکار کراچی کی گلیوں میں عام طور پر نظر نہیں آتے، اور انگریز انہیں مقامی آبادی کے ساتھ گھل مل جانے کی ترغیب نہیں دیتے۔ فوج کے لوگ تعینات ہیں اور شہر سے باہر تقریباً 5 کلومیٹر کے فاصلے پر بیرکوں والی خصوصی چھاؤنیوں میں رہتے ہیں، اور ان کے پاس ایسی سہولیات ہیں جہاں وہ تربیت، پریڈ اور کام کر سکتے ہیں۔
کراچی کے علاقے کی مٹی زیادہ تر ریتلی ہے، اور مٹی کو بہتر کیے بغیر پھل اور سبزیوں کی کاشت کرنا مشکل ہے۔ یہاں تک کہ مقامی پانی بھی پینے کا اچھا پانی نہیں ہے۔ یہ قدرے تلخ ہے، اور اس کا ذائقہ خوشگوار نہیں ہے۔ آخر میں ایس ایم توفیق لکھتے ہیں کہ، ان کی واپسی اسی روز شام چار بجے تھی۔ بحری جہاز کراچی سے نکلا تو سمندر خطرناک تھا۔ جہاز پانی کے زور سے آگے پیچھے ہو رہا تھا۔ ہچکولے کھانے کی وجہ سے کئی مسافروں کی طبعیت خراب ہوئی اور الٹیاں کرنے لگے۔
سب پہاڑ جیسی اونچی لہروں سے ڈر رہے تھے جو جہاز سے مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ مجھے سفر کے لیے ٹرین کا انتخاب نہ کرنے کا پچھتاوا شروع ہوگیا۔ جہاز پر دستیاب کھانےکا معیار بھی بہت خراب تھا۔ مجھے برطانیہ کے مسافر جو زیادہ تر نیوی کے افسران تھے، انہیں دیکھ کر حیرانی ہورہی تھی کہ وہ پیٹ بھاری پن کر دینے والا کھانا دن میں پانچ بار کھاتے اور پھر مزہ سے پائپ سے تمباکو پیتے۔ میں بار بار فرانسیسی کہاوت یاد کرتا کہ’’ I don't have an English stomach‘‘۔ بلاآخر ہم کراچی 36 گھنٹے کا سفر مکمل کر کے بمبئی پہنچے۔ کراچی کا سفر کبھی بھول نہیں سکتا۔
(انتخاب: شاہ ولی اللہ)