11فروری 1931ء زیریں پنجاب میں پیدا ہونے والے پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر کا صف اول کا اردو نقاد، محقق اور ادیب مانا جاتا ہے۔ گو کہ پروفیسر گوپی چند نارنگ دہلی میں مقیم ہیں مگر وہ باقاعدگی سے پاکستان میں اردو ادبی محافل میں شریک ہوتے ہیں جہاں ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں سفیر اردو کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ جہاں انہیں بھارت میں پدم بھوشن کا خطاب مل چکا ہے وہیں انہیں پاکستان میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ گذشتہ دنوں ہمیں بھارت سے سیفی سرونجی نے پروفیسر گوپی چند نارنگ کی سالگرہ کے موقعے پر ایک نظم ارسال کی،و ذیل میں نظم اورناصرعباس کا مضمون ملاحظہ کریں۔
اکثر کتابیں صرف اطلاعیہ بنتی ،بعض خبر بنتی،مگر کبھی کبھی چندایک کتابیں واقعہ بننے کا اعزاز پاتی ہیں۔ واقعہ بہ یک وقت تاریخ اور تاریخ کا بیانیہ ہوتاہے؛وہ ایک مادی حقیقت اور اس حقیقت کی تعبیر ہوتا ہے۔گوپی چند نارنگ کی غالب پر یہ کتاب ،اردو میں غالبیات کی تاریخ کا ایک واقعہ ہے ،اور غالب کی ایک نئی تعبیر ہے،ایک ایسی تعبیر جو غالب کے تعلق سے صدیوں کے ثقافتی عمل کی کنہ تک ہمیں لے جاتی ہے ۔آپ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے خود کو تبدیل ہوتے محسوس کرتے ہیں؛ یہ خاموشی سے مگر ایک غلبہ آفریں قوت کے ساتھ آپ کے ذہن اور حواس پر بہ یک وقت اثر انداز ہوتی ہے۔
آپ کے بہت سے تیقنات کو برہم کرتی،کچھ دیر کے لیے آپ کو ایک عجب ذہنی بحران میں مبتلا کرتی ،سوالات سے آپ کے بنے بنائے ذہنی سانچوں پر ضرب لگاتی اور پھر ان سوالات کے ممکنہ جواب کی طرف آپ کی راہنمائی کرکے ،آپ کے ذہن میں غالب فہمی کے نئے تصورات کا اضافہ،وسیع ثقافتی و فلسفیانہ کینوس پر کرتی ہے۔ نیز یہ کتاب بعض نئے سوالات بھی ابھارتی ہے ۔کتاب کا استدلال اور اسلوب دونوں اپنے قاری کو گرفت میں لیتے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ فلسفہ و جمال کی آمیزش سے ترکیب پانے والی غیر معمولی بات!
یہ کتاب نارنگ صاحب کے اس تنقیدی تصور کا اگلا،(اور علمیاتی اعتبار سے کٹھن) پڑاؤ ہے ،جس کے مطابق اردو ادب کی جڑیں ہندوستان کی صدیوں پر پھیلی ثقافتی روایات ورسومیات میں ہیں۔ اس سے پہلے وہ اردو مثنویوں اور کلاسیکی غزل کی مقامی ثقافتی جڑوں کو واضح کر چکے ہیں۔ نئی تھیوری اور قدیم ہندوستانی لسانی ،فلسفیانہ نظریات میں اشتراکات کی نشان دہی بھی کر چکے ہیں۔(اس ضمن میں رابرٹ میگلیولا نے ۱۹۸۴ میں قابل قدر کام کیا، جس کا حوالہ نارنگ صاحب دیتے ہیں)۔
شعریات غالب کی جدلیاتی وضع کا رشتہ وہ ایک طرف سبکِ ہندی اور دوسری طرف بودھی فکر شونیتا سے جوڑتے ہیں۔ سبکِ ہندی سے غالب کی شعریات کا رشتہ تو پہلے سے واضح تھا، مگر بودھی شونیتا سے سبک ہندی اور غالب کا تعلق قائم کرنا ،حد درجہ کٹھن کام تھا۔ سب سے بڑی مشکل علمیاتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک سخت چیلنج تھا،اور بڑی حد تک عالی حوصلگی کا کام بھی ۔اس کو کٹھن بنانے میں خود نارنگ صاحب کے طریق کار کو بھی دخل ہے۔ انھوں نے شونیتا کی جدلیاتِ نفی کو غالب کی نئی قرأت کا تناظر نہیں بنایا، بلکہ سیاق بنایا ہے۔
تناظر خارجی ہوتا،اور اس کا تعلق نقاد کے زاویہ ء نظر سے ہوتا ہے ،جب کہ سیاق داخلی ہوتا اور اس کا تعلق متن کی نامیاتی ساخت سے ہوتا ہے۔اگر وہ شونیتا کو تناظر بناتے تو انھیں یہ آسانی تھی کہ اس کی روشنی میں وہ اشعارِ غالب کی قرأت کرتے ،اور یہ باور کراتے کہ غالب کے متن میں اس تناظر میں بھی اپنے معنی روشن کرنے کی صلاحیت ہے ،جس سے اس کا براہ راست تعلق نہیں۔ لیکن جب وہ شونیتا کی جدلیاتِ نفی کو غالب کے متن کا سیاق بناتے ہیں، یعنی اس کے تارو پودمیں شامل سمجھتے ہیں تو ایک بھاری ذمے واری لیتے ہیں؛ یہ واضح کرنے کی کہ کوئی ڈھائی ہزار سال پہلے کی فکر کا ایک طور ،کیوں کر غالب کے ذہن کی ساخت کا حصہ بنا؟اس سوال کے جواب کے لیے نارنگ صاحب کو صدیوں کی فکری ،صوفیانہ، ادبی ،ثقافتی لوک ادبی روایات کا سفر کرنا پڑاہے۔
پہلے انھوں نے بودھی شونیائی فکر کو برہمنی فکر سے علیحٰدہ کیا، اور یہ واضح کیاکہ آخرلذکر کرکے برعکس ناگارجن کے پیش کردہ شونیتا میں کوئی ماورائیت نہیں؛’’مذہب سرے سے شونیتا کا مسئلہ نہیں‘‘۔شونیتا ،سوچنے کا ایسا طور ’’،ایک آگہی ہے اس احساس کی کہ کائنات میں کچھ بھی ،یعنی کوئی شے ،کوئی بھی خیال ،کوئی بھی نظریہ ،کوئی بھی تصور ،کوئی بھی نقطہ ء نظر ،کوئی بھی اصول قائم بالذات نہیں‘‘؛کسی شے کی کوئی اصل نہیں۔
نارنگ صاحب کے سامنے اہم سوال یہ تھا کہ غالب کی شعریات میں حرکیاتِ نفی کیوں کر رونما ہوئی؟ اس سوال کاسامنے کا جواب تو یہ ہے کہ غالب اپنے تورانی نسلی رشتوں پر فخر کرنے کے باوجود ،ہندوستانی تھے؛ سبک ِ خراسانی و عراقی کی بجائے ،سبکِ ہندی کے وارث تھے، اس بیدل کے شاگردِ معنوی تھے جو بدھ کی سرزمین میں پیدا ہوئے تھے، اور جو ہندوستانی فلسفے، تصوف سے آگاہ ومتاثر تھے۔نارنگ صاحب نے غالب کی تحریروں ،خصوصاً مہر نیم روز، مثنوی چراغ ِ دیرکا ذکر کیا ہے ،جن میں ہندو عقائد سے غالب کی واقفیت کا پتا چلتا ہے۔ قاطع برہان کا حوالہ بھی دیا ہے ،جس میں توافق لسانین(خان ِ آرز وکا پیش کردہ نظریہ کہ سنسکرت اور فارسی متحدالاصل ہیں)پر بحث کی گئی ہے۔
اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے (جس کا ذکر نارنگ صاحب نے کیا ہے ) کہ غالب ہندوستانی فارسی گویوں کا ذکرکرتے ہیں، مگر جامی ،حافظ اور سعدی کا نہیں۔ یہ جواب غلط نہیں، البتہ ناکافی ہے۔ اس لیے کہ اس میں ہندو فکر سے غالب کے تعارف کا ذکر ہے ، بودھی فکر سے آگاہی کا نہیں۔ اس امر کا احساس نارنگ صاحب کو رہتا ہے ۔چناں چہ وہ اطمینان بخش جواب کی تلاش میں آرکی ثقافتی رشتوں کی تھیوری پر انحصار کرتے ہیں جو لاشعوری عناصر پر زور دیتی ہے۔
ادب میں سب کچھ ظاہر نہیں، بہت کچھ نہاں بھی ہوتا ہے؛اس کتاب میں یہ مقولہ نہ صرف بہ تکرار دہرایا گیا ہے ،بلکہ ایک ایسا اصول معلوم ہوتا ہے ،جس کی مدد سے نارنگ صاحب غالب کی شعریات اور ا س کے سرچشموں کی توجیہ کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ یعنی غالب کا ہندوستانی روایات سے رشتہ جس قدر شعوری تھا،اس سے بڑھ کر لاشعوری تھا،اور لاشعوری رشتے زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں ایک دقت ہے ۔ آرکی ثقافتی رشتے تو مشترک رشتے ہوتے ہیں۔
ان میں فقط غالب نہیں، ذوق و مومن ، اور ان سے پہلے انشاو مصحفی ، میر وسودا بھی بندھے تھے ،پھر ان کے یہاں یہ اثرات کیوں نہ آئے؟شاید اسی لیے نارنگ صاحب ،اس بحث میں غالب کی اپنی انفرادیت اور جدت طبع کا ذکرلاتے ہیں،جس نے اپنے اظہار کے لیے بالکل ابتدائی ایام میں بیدل کا انتخاب کیا۔ماضی کی یا معاصر روایت کے کسی خاص پہلو کا انتخاب، ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اوّل یہ کہ ہر لکھنے والا انتخاب کا جوکھم نہیں اٹھاتا؛ اکثر تو لاشعوری طور پر وہ سب قبول کر لیتے ہیں جو انھیں زمانے اور ماحول سے ملتا ہے، مگر بعض لکھنے والے ماضی و عصر کی بہت سی روشوں کا انکار کرتے اور کسی خاص روایت کو منتخب کرتے ہیں، اور وہ بھی اس لیے کہ اس کے مانوس پن کی مدد سے اپنے نامانوس تجربوں کو ظاہر کر سکیں۔
گویا اس پر انحصار نہیں کرتے، اسے بروئے کار لاتے ہیں۔ یہی کچھ غالب نے کیا۔اس نکتے کو نارنگ صاحب نے کافی وضاحت سے پیش کیا ہے کہ کس طرح جو چیز اوروں کے یہاں ہیئتی مشاقی تھی،وہ غالب کے یہاں معنی آفرینی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ دوسروں نے خیال بندی کو لفظی بازی گری بنایا، غالب نے اسے اعجاز ِمعنی بنا دیا۔ نار نگ صاحب کے ان دلائل کو جو چیز مستحکم کرتی ہے، وہ خود شعریات ِغالب کی جدلی وضع ہے۔ اگر غالب زبان کی آخری حدوں کو تحلیل کرتے محسوس ہوتے،عام زبان کی جدلیاتی ہیئت کو شکست کرتے،اور شعر میں خاموشی کے چند در چند پیرائے خلق کرتے نظر آتے ہیں تو یہ حقائق اس بات کو باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ ان کا آرکی رشتہ شونیتا سے ہے، خواہ خود غالب کو اس کا احساس ہوکہ نہ ہو۔
اس کتاب کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ا س میں ہندوستانی شعریات کا واضح تصور پیش کیا گیا ہے؛ایک ایسی شعریات جو صدیوں کے تہذیبی عمل سے وجود میں آئی ہے ،جس نے غیر مقامی اثرات قبول کیے،مگر اپنی ارضی اساس کو برقرار رکھا۔ وہ اسے کسی دوسری شعریات کے مقابل نہیں لاتے،تاہم ا س کی انفرادیت کا وہی تصور پیش کرتے محسوس ہوتے ہیں ،جو شونیتا کا ہے ،یعنی معنی سے زیادہ معنی کی تخلیق کی آگہی اور اس کی مدد سے آزادی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ آزادی ماورائی نوعیت کی نہیں، بشری معنویت کی حامل ہے؛ہر طرح کے نظریاتی جبر سے آزادی ، ہر قسم کی تصادم انگیز جدلیات سے آزادی۔
نارنگ صاحب اپنے تھیسس کو ثابت کر نے کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ غالب کی شاعری کی قرأت و تعبیر کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے پیش روئوں کی تعبیرات کو کہیں قبول کیا،کہیں ردّکیا اور کہیں ان میں اضافے کیے ہیں۔ انھوں نے تما م شارحین غالب کو پیشِ نظر نہیں رکھا۔ ان کامقصود غالب تنقید کا محاکمہ نہیں تھا، تاہم انھیں غالب تنقید کے متن canonical محسوس ہوئے، انھیں پیش نظر رکھا اور اپنی قرأت پیش کی ہے۔ وہ حالی ،بجنوری اور نتالیہ پریگارینا کو غالب کے اہم ترین نقاد کے طور پر اپنی کتاب میں جگہ دیتے ہیں ،اور حالی اور پریگا ریناکو بہ طورِ خاص۔
انھوں نے ان دونوں سے استفادہ بھی کیا،اور ان کی قرأت کے متوازی اور مقابل اپنی قرأت بھی پیش کی ہے۔ نارنگ صاحب کا رویہ ان نقادوں کے قطعی برعکس ہے جو اپنے سے پہلوں کاحوالہ محض انھیں ردّ کرنے کے لیے لاتے ،اور یہ باور کراتے ہیں کہ ان کے پہلے سب غلط تھے۔ سب کو ردّکرنا منفی رویہ ہے اور سب کو آنکھیں بند کر کے قبول کرنا اپنی نفی کرنا ہے۔ چوں کہ نارنگ صاحب نے ایک واضح مئوقف ،جو حرکیاتِ نفی کے انتہائی واضح تصور سے عبارت ہے، کے تحت مطالعہ کیا ہے ،اس لیے ان کاردّو قبول بھی منطقی ہے۔
اس کتاب کی وساطت سے نارنگ صاحب نے ہمیں کچھ نئی تنقیدی اصطلاحات، اور ایک خاص طرح کےاستدلال سے متعارف کروایا ہے۔ سب سے اہم اصطلاح شونیتا ہے؛یہ تصور ہمیں غالباً پہلی مرتبہ قرۃالعین حیدر کے آگ کے دریا میں ملتا ہے، مگر وہاں اس کا سیاق کرداروں کی داخلی صورت حال ہے، اور اس کی نوعیت ماورائی محسوس ہوتی ہے ،جب کہ نارنگ صاحب نے اسے ایک تنقیدی اصطلاح کا درجہ دیاہے، اس لیے اسے ایک سیکولر اصطلاح کا درجہ دیا ہے۔
اس کی مدد سے جس طرح آرٹ کی ’خاموش زبان‘ کا تصور ابھار اگیا ہے جو تمام معنی کا سرچشمہ ہے ،ان معانی کا جو کسی تہ نشیں حقیقت کو پیش نہیں کرتے ،بلکہ ایک محال و معمائی صورت کو پیش کرتے ہیں؛ اسے اردو تنقید کلاسیکی اور جدید شعریات کی تعبیر میں کام میں لاسکتی ہے۔ یہ تصوراس مابعد جدید مئوقف کے لیے بھی اجنبی نہیں کہ کوئی سچائی حتمی نہیں،بس ایک تشکیل ہے،ہر معنی محدود ہے ،البتہ آرٹ کی خاموشی میں لامحدود معانی کی تخلیق کا امکان ہے، اور معانی کی تخلیق ہی میں آزادی ہے۔
ایک معنی اور اس کی حتمیت پر اصرار طاقت کی حرکیات ہے ،اس کے لیے جدلیاتی زبان یعنی ابلاغ کی عام زبان کام میں لائی جاتی ہے ،جب کہ جدلیات ِ نفی ،یا زبان کی خاموشی، آرٹ کی حرکیات ہے،جو معنی کی بے کناریت کی علم بردارہے ۔ نارنگ صاحب کے استدلال کی نوعیت سادہ منطقی نہیں، جمالیاتی، ثقافتی جدلیت کی حامل ہے؛ ہر ہر قدم پر وہ جمالیات،ثقافت اور ان کے حرکیاتی جدلیاتی رشتوں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ کے یومِ پیدائش پرایک نظم
سیفی سرونجی(بھارت)
دور کر دے سب بلائیں یہ جنم دن آپ کا
سو برس تک ہم منائیں یہ جنم دن آپ کا
مُسکرائیں آپ ہر دم مہرباں ہو آسماں
جگمگائیں چاند تارے ہر بشر ہو شادماں
ہو مبارک آپ کو نارنگ صاحب ہر خوشی
پھول بکھریں ہر طرف اور ناچ اُٹھّے زندگی
آپ کی خدمات کا سب نے کیا ہے اعتراف
آپ کے کردار کی عظمت رہی دُنیا میں صاف
تندرستی آپ کی ہر دم سدا قائم رہے
ہر جنم دن پر خوشی کا سلسلہ قائم رہے
زندگی میں آپ تو ہر دم یوں ہی ہنستے رہیں
پھول خوشیوں کے ہمیشہ عمر بھر کھِلتے رہیں
دے رہے ہیں رات دِن ہم بھی دعائیں آپ کو
چھو نہیں سکتی کبھی بالکل بلائیں آپ کو
مہربا ں تم پہ رہے نارنگ جی ربِّ کریم
کہہ رہا ہے آج دُنیا کا ہر اِک قلبِ سلیم
زندگی میں آپ کی ہر گِز نہ آئیں غم کبھی
آپ کی یادوں سے غافل ہو نہ جائیں ہم کبھی
آپ کا سیفی خدا سے کر رہا ہے یہ دعا
جب تلک اردو زباں ہے نام چمکے آپ کا