• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض احمد فیص

بیروت نگارِ بزمِ جہاں

بیروت بدیلِ باغِ جناں

بچوں کی ہنستی آنکھوں کے

جو آئینے چکنا چُور ہوئے

اب ان کے ستاروں کی لَو سے

اس شہر کی راتیں روشن ہیں

اور رُخشاں ہے ارضِ لبناں

بیروت نگار بزمِ جہاں

جو چہرے لہو کے غازے کی

زینت سے سوا پُر نور ہوئے

اب ان کے رنگیں پر تو سے

اس شہر کی گلیاں روشن ہیں

اور تاباں ہے ارضِ لبناں

بیروت نگارِ بزمِ جہاں

ہر ویراں گھر ،ہر ایک کھنڈر

ہم پایۂ قصر دارا ہے

ہر غازی رشکِ اسکندر

ہر دختر ہمسر لیلیٰ ہے

یہ شہر ازل سے قائم ہے

یہ شہر اابد تک دائم ہے

بیروت نگارِ بزمِ جہاں

بیروت بدیلِ باغِ جناں

یہ کون سخی ہیں

یہ نظم1952-53ء میں ایرانی طلبہ پر لکھی گئی ، جنہوں نے ایک جابرانہ حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا اور امن اور آزادی کی جدوجہد میں جامِ شہادت نوش کیا تھا

یہ کون سخی ہیں

جن کے لہو کی

اشرفیاں، چھن چھن، چھن چھن

دھرتی کے پیہم پیا سے

کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں

کشکول کو بھرتی جاتی ہیں

یہ کون جواں ہیں ارضِ عجم

یہ لکھ لُٹ

جن کے جسموں کی

بھرپور جوانی کا کندن

یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے

یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے

اے عرضِ عجم، اے عرضِ عجم!

کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دیے

ان آنکھوں نے اپنے نیلم

ان ہونٹوں نے اپنے مَرجاں

ان ہاتوں کی ’’بے کل چاندی

کس کام آئی ، کس ہاتھ لگی؟‘‘

******************

اس المیے کے بیان کے بعد یہ پیغام آتا ہے:

’’اے پوچھنے والے پردیسی!

یہ طفل و جواں

اُس آگ کی کچی کلیا ں ہیں

جس میٹھے نور اور کڑوی آگ

سے ظلمت کی آندھی را ت میں پھوٹا

صبحِ بغاوت کا گلشن

اور صبح ہوئی من من، تن تن،

ان جسموں کا چاندی سونا

ان چہروں کے نیلم ، مَرجاں،

جگ مگ جگ مگ، رُخشاں رُخشاں

جو دیکھنا چاہے پردیسی

پاس آئے دیکھے جی بھر کر

یہ زیست کی رانی کا جھومر

یہ امن کی دیوی کا کنگن!‘‘