• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض احمد فیضؔ کا شمار بجا طور پر اپنے عہد کے نمائندہ اردو شعراء میں ہوتا ہے۔ اردو کی ترقی پسند شعری روایت میں تووہ بلاشبہ سرکردہ ترین شعراء میں شامل ہیں۔ فیضؔ اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت بھی تھے کہ جہاں بیسیوں بڑے شاعروں کو قبولیت اورشہرت بہت بعد میں ملی، فیضؔ زندگی ہی میں غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی۔ یہی نہیں بلکہ وہ ہمیشہ ادبی اور تنقیدی حلقوں میں زیرِ بحث بھی رہے اور یہ سلسلہ اُن کی وفات کے تیس پینتیس سال بعد بھی جاری ہے۔

فیضؔ کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی اُن کی شاعری کے مختلف زاویے زیرِ بحث رہے ہیں۔ بعض موضوعات ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں بہت تکرار کے ساتھ لکھا جاتا رہا ہے لیکن فیضؔ کی شاعری کا ایک پہلونسبتاً کم زیرِ بحث آیا ہے اور وہ پہلو ہے مختلف اور متضاد کیفیتوں سے مرکب ان کی بہت سی نظمیں اور ان نظموں سے ابھرنے والا شاعر کا احساس اور اُس کا پیغام۔

مختلف مُوڈ اور کیفیات تو سبھی شاعروں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے نتیجے میں مختلف رنگ کی شاعری بھی وجود میں آتی ہے لیکن کسی ایک ہی نظم میں متضاد کیفیات کو ایک ساتھ برتنا اور پھر ان سے کوئی نئی صورت اجاگر کرنا، یہ بھی شاعری اور شاعروں کا کمال ہوتا ہے۔ فیضؔ کے حوالے سے متضاد کیفیات سے شاعری کو مرصع کرنے کا ایک اچھا مطالعہ پروفیسر سحر انصاری نے اپنے مضمون ’فیضؔ اور نشاطِ ہجر‘ میں پیش کیا تھا۔

یہ مضمون نکتہِ رسی اور نکتہِ آفرینی کی ایک بہت اچھی مثال ہے۔اس سے غور و فکر کے بہت سے نئے راستے بھی نکلتے ہیں۔’ہجر‘ اور’نشاط‘ بظاہر دو متضاد کیفیتوں کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن تاریخ ِادب ہمیں بتاتی ہے کہ اعلیٰ درجے کے تخلیق کار تضادات کے تال میل سے اپنی نئی بات پیدا کرتے ہیں۔ بڑے ادیبوں اور شاعروں نے paradoxesاور متناقض حوالوں سے نت نئے خیالات پیدا کیے ہیں۔ مذکورہ مضمون سے خیال و فکر کو جو مہمیز ملی وہی زیرِ نظر مضمون میں ہماری خامہ فرسائی کا سبب بنی ہے۔

اردو کی ہماری شعری روایت میںparadoxes کی بہترین مثالیں موجود ہیں۔فیضؔ کی ایک اہم پہچان یہ ہے کہ وہ اردو شاعری کی روایت سے ہم آہنگ ہوکر اپنے عہد کے آلام اور بحرانوں پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ یہ روایت اپنی جگہ بڑی زرخیز اور معنی آفرینی سے آراستہ ہے۔ میر تقی میرؔ نے جب یہ کہا تھا کہ ؎

محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور

نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

تو وہ ظلمت اور نور کی متناقض کیفیات ہی کی طرف اشارہ نہیں کررہے تھے بلکہ ایک قدم آگے جاکر ان متضاد رویوں کے درمیان تعامل کو نئے امکانات کے ظہور کا وسیلہ بھی قرار دے رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرؔ کی سوچ جدلیاتی تھی۔ وہ تضادات کے باہم ٹکرائو سے نئے امکانات کے اظہار کے قائل تھے۔

یہ جدلیاتی سوچ ہماری روایتی شاعری میں بار بار اپنی جھلکیاں دکھاتی ہے اور ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہمارے کلاسیکی شعراء نے زندگی کے تجربات سے کتنے سچے سبق اخذ کیے تھے۔ فکرو عمل کے یہ ایسے ہی نتائج تھے جنہوں نے اُن کی سوچ کو ایک ایسے راستے پر گامزن کیا جو تخلیق کی سطح پر ہی نہیں فلسفہ و حکمت کی سطح پر بھی ابدی سچائیوں کی طرف لے جانے والا راستہ تھا۔ متناقض احساسات تخلیق کاروں کی داخلی دنیا کے منظرنامے کو بھی تہہ دار اور بامعنی بناتے تھے۔داغؔ کی غزل کے شعر ہیں :

بیقراری ہوئی آخر سببِ چارۂ دِل

بن گیا ہولِ دِل انجام کو گہوارۂ دِل

یہی اچھا ہے کہ آنکھیں ہیں تمہاری بیمار

یہی بیمار تو کرتی ہیں مرا چارۂ دل

یہ ۱۹ویں صدی کے اشعارہیں ۔ اس صدی میں مرزا غالبؔ کا طوطی بولتا تھا اور غالبؔ نے جس طرح متناقض تصورات کو نئی تعمیرات کے لیے استعمال کیا اور جس تواتر سے استعمال کیا اس کی مثال شاید کسی اور شاعر کے ہاں تلاش نہ کی جاسکے۔ غالب ؔکے نظامِ فکر میں کیسی کیسی چیزیں ایک دوسرے کے مقابل آکر نئے راستے کھولتی ہیں،یہ تحیّر کا ایک بڑا میدان ہے :

خانہ زادِ زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں

ہیں اسیرانِ بلا زنداں سے گھبرائیں گے کیوں

غالبؔ نے جو راستے کھولے انہوں نے اُن کے بعد آنے والوں کی طبع کو اور رواں کیا۔ سو، اقبالؔ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ :

زرد ، رخصت کی گھڑی عارضِ گلگوں ہوجائے

کششِ حسن غمِ ہجرسے افزوں ہوجائے

اور بات اگر ہجر اور نشاط کی ہو تو ان متضاد کیفیات کا ملاپ بھی ہمارے کلاسیکی شعراء میں بڑا کمال نظر آتا ہے۔ غالبؔ کہتے ہیں کہ :

یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں

کبھی صبا کو، کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

ہجر کی یہی کیفیت فیضؔ کے ہاں بھی بالکل ایک الٹ کیفیت یعنی نشاط سے ہم آہنگ ہوکر ایک نیا راستہ کھولتی ہے۔ ایک ہی نہیں بلکہ یوں کہیں کے طرح طرح کے راستے کھولتی ہے۔ فیضؔ کی شاعری میں تناقضات کو جن مختلف طریقوں سے برتا گیا ہے وہ فیضؔ کی خلاقی اور اُن کی صناعی پر دلالت کرتے ہیں۔

تناقضات کی ہم آہنگی سے راہ کشائی کی ایک صورت تو وہ ہے جس میں مشکلات اور مایوسیوں کو برداشت کرکے یا اُن پر قابو پاکر دشت کو گلزار میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے،پھر فیضؔ نے تنہائی کو جس مثبت انداز میں پیش کیا ہے وہ تنہائی کو ’تنہائی‘ نہیں رہنے دیتا بلکہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ ؎

ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیمِ صبح وطن

یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منوّر جاتی ہے

فیضؔ خاموشی میں آواز کو پنہاں دیکھتے ہیں ؎

میری خاموشیوں میں لرزاں ہے

میرے نالوں کی گمشدہ آواز

متناقض عناصر سے نئے تخیل کی آبیاری کا کام فیضؔ نے غزلوں کے مقابلے میں نظموں میں کہیں زیادہ لیا ہے :

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے

کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی

چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے

کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی

فیضؔ صبا کے دوش پر خون کی مہک اور لبِ یار کی خوشبو کو ایک ساتھ آتا دیکھتے ہیں۔ وہ یادِ غزال چشماں، اور ذکر سمن عذاراں سے کنجِ قفس میں بہار کا سماں پیدا کرلیتے ہیں۔ اُن کے یہاں بے مہر صبحیں، مہرباں راتوں کے بعد اپنی جگہ بنالیتی ہیں، وہ رات کے ماتھے پر سحر تحریر کرلیتے ہیں۔ وہ دشت کو فردوس نظر ٹھہرا لیتے ہیں۔ ان کے یہاں ویرانے میں چپکے سے بہار کی آمد ہوجاتی ہے، صحرائوں میں باد نسیم چلنے لگتی ہے۔

فیضؔ کی شاعری میں متناقض ِ تصورات اور کیفیات سے ایک بالکل نیا مفہوم اخذ کرنے کا رجحان اُن کی نظموں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جو بظاہر المیوں اور حادثات پر لکھی گئی ہیں لیکن ان المیہ نظموں کے بطن سے ہمیشہ امید کا پیغام جنم لیتا نظر آتا ہے۔

اس نظم کے کوئی تیس سال بعد فیضؔ نے ایک اور المیہ نظم لکھی۔

’ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے‘۔

اس نظم میں بھی ایک المیہ کس طرح سے ایک امید افزا پیغام میں ڈھلتا ہے ، یہ فیضؔ کے اعجازِ ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

فیضؔ کی شاعری میں اس رجحان کا اتنا عمل دخل اور پھیلائو ہے کہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اسی ماحول کا پروردہ ہے۔شاید اس کا سبب یہ ہو کہ چیزوں کو اُن کے تضادکے حوالے سے دیکھنا فیضؔ کے لیے صرف تخلیقی تجربہ ہی نہیں تھا یا یہ اپنے تخلیقی جوہر دکھانے کے لیے اُن کا اختیار کردہ شعری رویہ ہی نہیں تھا بلکہ بغور دیکھا جائے اور فیضؔ کی شاعری کے ساتھ ساتھ اُن کی نثری تحریروں کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے تو تضادات سے نئے امکانات کی طرف بڑھنے کا عمل اُن کی فکر اور سوچ کا ناگزیر حوالہ معلوم ہوتا ہے۔

اُن کی نثری تحریروں میں بھی اُن کی جدلیاتی فکر نمایاں ہے۔یہی اُن کا فلسفہ ٔ زیست اور طرزِ فکرو احساس بھی تھا۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس طرزِ فکر کو فرد کی ذاتی کلفتوں اور مایوسیوں سے فراغت اور نجات کا ذریعہ بھی سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں اُن کے ایک خط کا حوالہ اس فکرتک رسائی کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔’صلیبیں مِرے دریچے میں‘ کے صفحہ ۵۳ اور ۵۴ پر یہ خط دیکھا جاسکتا ہے۔ پس منظر اس خط کا یہ ہے کہ فیضؔ کی اہلیہ ایلس نے اپنے کسی خط میں اُن سے کچھ مجبوریوں اور ذاتی مسائل کا تذکرہ کیا سو اس کے جواب میں فیضؔ نے یہ لکھا اور اس عبارت میں گویا اُن کا ایک پورا فلسفۂ حیات پوشیدہ ہے:

’’آج بہت ہی خوبصورت، چمکیلا ہوا دار دن ہے۔ ۔۔۔دوپہر کے تین بج رہے ہیں۔ آج میں بستر سے اس لیے نہیں نکلا کہ ایک ناول جو شروع کر رکھا ہے ختم کرنا چاہتا ہوں۔اس کا نام ہے : The Diplomat،مصنف James Aldrigeہیں اورBodley Headنے شایع کی ہے۔ میں نے بہت زمانے سے ایسی اچھی کتاب نہیں پڑھی۔۔۔۔ناول کا موضوع تو ایران میں برطانوی ریشہ دوانیاں ہیں لیکن اس کی خوبی موضوع کی وجہ سے نہیں ہے۔

خوبی اس اخلاقی اور جذباتی کشمکش کے بیان میں ہے جو عالمگیر قوتیں ایک فرد کی ذات پر نازل کرتی ہیں اور اس کے بارے میں کہ یہ اکیلی جان اس کشمکش کی صلیب سے کیسے عہدہ برا ہوتی ہے۔ ایک طریقے سے اس میں اُس بے چارگی اور مایوسی کا جواب ملتا ہے جس کا تم نے ذکر کیا تھا۔ یہ احساس ہمیں اس لیے گھیرے رہتا ہے کہ انسانی مسرت کی جدوجہد بظاہر اتنی طویل اتنی گراں اور اتنی دائمی معلوم ہوتی ہے کہ اس کے مقابلہ میں ایک فرد کی ذات بالکل ہیچ اور نزار دکھائی دیتی ہے۔

لیکن یہ جبھی ہوتا ہے اگر تم اس جدوجہد کو ایک فرد کی نظر سے دیکھو بلکہ یہ کیفیت پیدا ہی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ہم انسانی رنج و ناخوشی کے مسئلے کو ذاتی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ان مسائل کو انفرادی نقطۂ نظر سے دیکھنا حماقت ہے ،اس لیے کہ انسانی رنج و راحت ہمارا تمہارا ذاتی یا انفرادی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر یوں نہیں ہے تو اسے دیکھنے کا ایک ہی صحیح طریقہ ہے اور وہ اجتماعی نقطۂ نظر ہے۔اگر اس نظر سے دیکھو تو یہی جدوجہد شجاعانہ، بامقصد اور امید افزا نظر آتی ہے۔

فیضؔ کی شاعری احساسات کے تنوّع کی بہت سی مثالیں پیش کرتی ہے، متضاد اور متناقض احساسات اور تاثرات کو ہم آمیز کرنے کا اُن کا اپنا ایک کرافٹ ہے۔ اُن کی شاعری کے دیگر پراز معنی پہلوئوں کے ساتھ ساتھ متناقض عناصر سے نئی تعمیر کی صورت گری بھی ایک قابلِ ذکر پہلو ہے جو اُن کی شاعری میں آنے والوں کی دلچسپی کا ویسا ہی سامان پیدا کرتی رہے گی جیسا کہ اب تک اُن کے پڑھنے والوں کے لیے کیا ہے۔