سو برس قبل تک اردو کہانی محلوں، دیوڑھیوں اور حویلیوں کی داستانوں، خالص رومانی داستانوں، امراء اور نوابوں درویشوں اور جادوگروں کی داستانوں کے دائرے میں گھومتی رہی ۔ شاہ اور امراء داستان گو ملازم رکھتے تھے جو ان کو ان کی دلچسپی کے قصے کہانیاں سناتے تھے۔ البتہ عام گھروں میں یہ فریضہ دادیاں اور نانیاں بڑی خوش اسلوبی سے پورا کیا کرتی تھیں۔
اُس دور کے معاشروں میں ٹھہرائو تھااس لئے قصے کہانیاں بھی اسی رنگ میں ڈھلی ہوتی تھیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اس ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک کنکر پھینک کر ارتعاش پیدا کردیا۔ پانی پر کئی دائرے بنے اور پھر غائب ہوگئے۔ اس طرح دائروں کے بکھر جانے کے بعد نئی کہانیوں، قصوں اور ناول افسانے کا جنم ہوا۔ منشی پریم چند ابھر کر سامنے آئے معاشرے کی حقیقی کہانیاں اور رنگ برنگی قصے بکھرنے لگے۔ پھر سید سجاد حیدر یلدرم نے ان رنگوں میں مزید اضافہ کیا۔ یوں ایک سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ خواجہ احمد عباس، مرزا ادیب، کرشن چندر، قراۃالعین حیدر، عزیز احمد، عصمت چغتائی، بیدی،منٹو، انتظار حسین، احمد ندیم قاسمی اور دیگر بڑے نام سامنے آئے۔
قیامِ پاکستان کے بعد اردو کہانیوں اور ناول نے بہت سے موضوعات کو عام کردیا جن میں معاشرتی کہانیاں اور ہجرت کے غم و الم اور بہت کچھ اس طرح اردو افسانے اور ناول کا کینوس مزید وسیع ہوگیا۔ بالخصوص قراۃالعین حیدر اور عزیز احمد نے اردو ناول کو نئی جلا بخشی۔ ہرچند کہ جدید کہانیوں اور ناول کا سلسہ مغربی ادب سے بھی متاثر ہوا مگر اس پر مقامی معاشروں کا رنگ ڈھنگ زیادہ دکھائی دیا۔
ایک عرصہ بعد چار ابواب پر مشتمل اچھوتا ناول ’’کتنی برساتوں کے بعد‘‘ پڑھنے کا موقعہ نصیب ہوا، بلکہ یہ کہوں گا کہ حقیقتاً کئی برساتوں کے بعد ایسا ناول پڑھا۔جواردو کی معروف ناول نگار، افسانہ نگار، زود فہم استاد شہناز پروین کی ادبی کاوشوں کا ثمر ہے۔ شہناز پروین گورنمنٹ ڈگری کالج گلشن اقبال کی پرنسپل اور کراچی انٹر بورڈ اور جامعہ کراچی سلیبس کمیٹی کی رکن رہیں۔ اقبال شناسی اور نگار، نگارِ پاکستان کے حوالے سے ان کے تحریر کردہ مقالات کو ادارہ یادگار غالب نے شائع کیا۔
شہناز پروین کے تین افسانوی مجموعے پہلا ’’سناٹا بولتا ہے‘‘ دوسرا ’’آنکھ سمندر‘‘ اور تیسرا ’’روشنی چاہئے‘‘ سال ۲۰۱۸ء میں شائع ہوئے۔ انہوں نےمشرقی بنگال کی زرخیز سرسبز و شاداب سرزمین سے شعور حاصل کیا اور تعلیم حاصل کی۔ انھیں دو ہجرتوں کے کرب و آلام برداشت کرنے پڑے اس طرح انھوں نے مغربی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا اس طرح انھیں برصغیر کی دو تہائی فاصلے پر موجود دو اکائیوں کی زبان، ثقافت، فکری رجحانات اور طرزِ زندگی کا مطالعہ اور مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا اور ان کا ادبی و فکری ویژن مزید وسیع ہوگیا تب شہناز پروین اپنی نوکِ قلم سے سنہری یادوں، بکھرے خوابوں اور تلخ لمحوں کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا۔
شہناز پروین کا زیرِ نظر ناول ’’کتنی برساتوں کے بعد‘‘ کے چاروں ابواب ’’غنچہ پھر لگا کھلنے، کہ چمن سرور کا جل گیا، نہ جنوں رہا نہ میری رہی اور انسانم آرزو است‘‘ فاضل مصنفہ کی تحریروں میں کہیں قلم نشتر بن جاتا ہے تو کہیں مرہم کا پھایا بن جاتا ہے۔ ناول کے چار وں ابواب کے واقعات، کردار اور تاثرات حقیقی زندگی سے جڑے ہیں۔ کردار متحرک ہیں اور اپنا اپنا مثبت یا منفی کردار بلاشبہ سقوطِ ڈھاکہ کا ہماری مختصر تاریخ کا بڑا المناک واقعہ ہےجو نہایت خوبصورت انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔
یہ تمام واقعات اور کرداروں کے حوالے سے مصنفہ ایک طرح سے پورے المناک واقعہ کی چشم دید گواہ ہیں۔ انھوں نے ان تمام واقعات اور مشاہدات کو لفظوں میں پروکر کہانیوں کی مالا بنائی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہمارا عقیدہ کچھ کہتا ہے۔ مشاہدہ کچھ کہتا ہے۔ حقائق کچھ کہتے ہیں، مگر دیانتدار انسان دوست اور ادب دوست قلم کار وہ ہے جو ان تمام معاملات کا دیانتداری سے جائزہ لے کر اپنے محسوسات کو قلم سے قرطاس پر بکھیر دے۔
شہناز پروین نے زیرِ نظر ناول میں یہی کچھ کیا ہے۔ ان کے ناول کا ہر لفظ سچائی، غیرجانبداری اور انسان دوستی کا منھ بولتا ثبوت دکھائی دیتا ہے۔ ناول کے تمام کردار فعال ہیں، مکالمے برجستہ ، فطری ماحول میں ڈھلے ہوئے ہیں، ناول کی شروع تا آخر بندش بہت عمدہ ہے۔ کہیں جھول نظر نہیں آتا۔ مصنفہ نے اپنے مشاہدہ اور مطالعہ کا نچوڑ اسی ناول میں سمودیا ہے۔ ہرچند کہ ناول کا پس منظر اور بیشتر واقعات خوشگوار نہ تھے مگر تحریر کی خوبی یہ بھی ہے کہ کہیں حزن و ملال یا ماتم کناں کا تاثر نہیں ابھرتا۔
تحریر کی روانی، واقعات کا بہائو اور تحریر کی بندش نے زیرِ نظر ناول کو منفرد بنا دیا ہے۔ نہ جانے کیوں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری نئی نسل کتاب کہانی افسانے ناول سے کیوں دور ہوتی نظر آتی ہے۔ براعظم یورپ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ یورپ کی تمام اہم زبانوں میں اعلیٰ ادبی کاوشوں کی نئی لہر ابھر کر سامنے آئی اور یورپ کو تازہ آکسیجن طالطائی، گورکی، چیخوف، شیکسپئیر، دانتے، بلزک، کیٹس، مارکس، بائرن، سارترے او دیگر ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے پہنچائی۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے دور نے دنیا کی سیاست، معیشت، معاشرت اور ادب پر گہرے اثرات مرتب کئے۔چونکہ ادب زندگی کی تمام حساسیت، نفسیات اور جمالیات کی روح ہوتا ہے انسان اس کے بغیر محض ایک مجسمہ ہے۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ جہاں جہاں معیاری اور اعلیٰ ادب تخلیق ہوا ان معاشروں میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور جمود ٹوٹا اور جن معاشروں نے ادب، فلسفہ، منطق اور دیگر اہم علوم کو نظر انداز کیا وہ معاشرے تاحال جمود کا شکار دکھائی دیتے ہیں ہمارا معاشرہ ملے جلے انداز اور طور طریقوں پر رواں دواں ہے۔ ایسے میں فاضل ناول نگار شہناز پروین نے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جو ان کی حقیقت پسندی، ادب دوستی اور جرات اظہار کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ ناول ’’کتنی برساتوں کے بعد‘‘ ہمارے ادبی سرمایہ میں ایک قابلِ قدر اور فکر انگیز اضافہ ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ اس ہفتے قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی