تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنی صلاحیت، ذہانت اور ہنر سے نہ صرف اپنا مقام بناتی ہیں بلکہ ایک عہد کی شناخت بن جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت ’’ماہ لقا بائی چندا ‘‘ تھیں، جو دکن کی پہلی صاحبِ دیوان شاعرہ، جنگجو اور ثقافتی سفیر کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ ان کی زندگی کسی داستان سے کم نہیں، جہاں رقص و موسیقی کی لطافت، شعر و ادب کی گہرائی اور میدانِ جنگ کی گھن گرج سب کچھ ایک ساتھ نظر آتا ہے۔
ماہ لقا بائی 7 اپریل 1768ء کو اورنگ آباد میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد بہادر خان مغل شہنشاہ محمد شاہ کی فوج میں منصبدار تھے، جبکہ والدہ راج کنور کا بھی حسن و فن کی دنیا میں نام تھا۔ ماہ لقا کی پرورش مہتاب کنور کے زیر سایہ ہوئی، جو نظامِ دکن کے دربار سے وابستہ تھیں۔
یہ ماحول ان کے لیے ایک درسگاہ ثابت ہوا، جہاں انہوں نے نہ صرف رقص و موسیقی میں مہارت حاصل کی بلکہ ادب، فلسفہ اور تاریخ کا بھی مطالعہ کیا۔ماہ لقا بائی کا نام دربارِ حیدرآباد میں اُس وقت گونجا جب ان کی ذہانت، ادب پر دسترس اور شائستگی نے نظام کے وزراء اور درباری شخصیات کو متاثر کیا، خاص طور پر نواب رکن الدولہ، جو نظامِ دکن کے قریبی مشیر تھے، ان کے سرپرستوں میں شامل ہوگئے۔
شاعری ماہ لقا کی فطرت میں رچی بسی تھی۔ وہ سراج اورنگ آبادی سے متاثر تھیں اور اپنے کلام کی اصلاح اُس وقت کے نامور شاعر اور وزیرِاعظم نواب میر عالم بہادر سے لیتی تھیں۔ ان کی شاعری نازک احساسات، نسوانی جذبات اور گہری فکری بصیرت کا خوبصورت امتزاج تھی۔
اردو، دکنی، فارسی اور عربی زبانوں پر عبور رکھنے والی ماہ لقا نے اپنی شاعری میں ایک منفرد انداز اپنایا جو آج بھی دکنی ادب کا قیمتی سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ان کا دیوان "گلزارِ ماہ لقا" کے نام سے مرتب ہوا، جس میں 39 غزلیں اور 5 قطعات شامل تھے۔ اس کے علاوہ "دیوانِ چندا" بھی ایک اہم ادبی خزانہ ہے، جسے 1799ء میں انہوں نے انگریز سفیر جان میلکم کو بطور تحفہ پیش کیا تھا۔
یہ تصور عام ہے کہ ماہ لقا بائی صرف ایک شاعرہ اور فنکارہ تھیں، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے۔ انہوں نے نہ صرف شاعری اور موسیقی میں مہارت حاصل کی بلکہ گھڑسواری، تیر اندازی اور شمشیر زنی میں بھی غیر معمولی مہارت حاصل کی۔
14 سال کی عمر میں وہ گھڑ سواری، تیر اندازی اور ہتھیاروں کے استعمال میں ماہر ہو چکی تھیں۔ اپنی غیر معمولی جرات اور مہارت کے باعث وہ نظامِ حیدرآباد، علی خان آصف جاہ ثانی کے ہمراہ تین جنگوں میں شریک ہوئیں۔ وہ مردوں کی طرح جنگی لباس پہنتیں، ہتھیاروں سے لیس ہوتیں اور پوری دلیری کے ساتھ میدانِ جنگ میں داخل ہوتیں۔
وہ اپنی علمی و ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے دکن کی تہذیب کو فروغ دینے میں بھی پیش پیش رہیں۔ ان کی سرپرستی میں ایک وسیع کتب خانہ قائم کیا گیا، جس میں عربی، فارسی، اردو اور دکنی زبانوں کی نایاب کتابیں موجود تھیں۔ وہ علمی محفلوں کا انعقاد کرتیں، جہاں اس دور کے بڑے شعراء، ادیب اور دانشور جمع ہوتے۔
ماہ لقا بائی کی شاعری ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب اردو اور دکنی ادب کا سنگم ہو رہا تھا۔ ان کی شاعری میں محبت، حسن، قدرت اور نسوانی جذبات کی ترجمانی ایک منفرد انداز میں کی گئی ہے۔
ذیل میں ان کے چند منتخب اشعار ملاحظہ کریں:
کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے
……٭٭……٭٭……
گر مرے دل کو چرایا نہیں تو نے ظالم
کھول دے بند ہتھیلی کو دکھا ہاتھوں کو
……٭٭……٭٭……
گل کے ہونے کی توقع پہ جیے بیٹھی ہے
ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے
……٭٭……٭٭……
ہم جو شب کو ناگہاں اس شوخ کے پالے پڑے
دل تو جاتا ہی رہا اب جان کے لالے پڑے
ان کے کلام میں ایک خاص لطافت اور نرمی ہے، جو انہیں اس دور کی دیگر شاعراؤں سے ممتاز بناتی ہے۔ زندگی کا آخری حصہ گوشہ نشینی میں گزارا۔ان کی علمی، ادبی اور ثقافتی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ 1842میں جب وہ تقریبا 56سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں تو انہیں اسی باغ میں دفن کیا گیا جسے انہوں نے اپنی زندگی میں تعمیر کرایا تھا۔ اسی باغ میں ان کی والدہ راج کپور کی آخری آرام گاہ بھی ہے اور وہ مسجد بھی جو ماہ لقا نے اپنے دست ہنر سے بنوائی تھی۔