• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


انگریزی ایک معمولی سے قصبے ــ ’’آکسفورڈ‘‘ سے سیکھی، مولانا محمد علی جوہر

شملہ کی دعوت میں، جہاں سب اُونچے اور سرکاری طبقے کے افراد موجود تھے، مولانا محمد علی جوہر بھی اپنے فقیرانہ لباس میں وہاں موجود تھے۔ گفتگو اُردو زبان میں ہو رہی تھی۔ کسی بات پر الجھ کر مولانا نے انگریزی میں بولنا شروع کر دیا۔ اب کون ان کے سامنے ٹِکتا! وہاں ایک ہندو رانی بھی موجود تھیں۔ ان سے نہ رہا گیا۔ ایک مولوی صاحب کو یوں فر فر انگریزی بولتے دیکھ کر پوچھ بیٹھیں۔

"مولانا! آپ نے یہ اتنی اچھی انگریزی کہاں سے سیکھی ہے؟"

مولانا نے جواب دیا، "میں نے یہ انگریزی ایک معمولی سے قصبے میں سیکھی ہے۔"

رانی نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا، "کیا نام ہے اس قصبے کا؟"

مولانا نے نہایت سادگی سے جواب دیا، "آکسفورڈ۔" مولانا کے اس جواب پر ساری محفل زعفران زار بن گئی۔


’’کسی بُلبل کا دل جلا ہوگا!‘‘

ایک بار مشاعرہ ہو رہا تھا۔ ایک مسلم الثبوت (سند یافتہ، تسلیم شدہ) استاد اٹھے اور انہوں نے ایک طرحی مصرعہ دیا:

’’چمن سے آ رہی ہے بُوئے کباب‘‘

بڑے بڑے شاعروں نے طبع آزمائی کی، لیکن کوئی گرہ نہ لگا سکا۔ ان میں سے ایک شاعر نے قسم کھائی کہ جب تک گرہ نہ لگائیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ چنانچہ ہر صبح دریا کے کنارے نکل جاتے اور اونچی آواز سے الاپتے:

"چمن سے آ رہی ہے بُوئے کباب!"

ایک روز وہ دریا کے کنارے یہی مصرعہ الاپ رہے تھے کہ ادھر سے ایک کم سن لڑکا گزرا۔ جونہی شاعر نے یہ مصرعہ پڑھا، وہ لڑکا بول اٹھا:

"کسی بُلبل کا دل جلا ہوگا!"

شاعر نے بھاگ کر اس لڑکے کو سینے سے لگایا۔ یہی لڑکا بڑا ہو کر "جگر مراد آبادی" کے نام سے مسلم الثبوت استاد بنا۔

*********************

٭… ایک محفل میں داغؔ (نواب مرزا خان دہلوی)، شعر کہہ رہے تھے۔ ان کی روانی اور برجستگی دیکھ کر مظفر خان بارق نے کہا، ”خدا جانے آپ کس طرح شعر کہتے ہیں؟ ذرا سی دیر نہیں ہوتی اور آپ شعر کہہ دیتے ہیں!“

داغؔ نے پوچھا، ”بھی تم شعر کس طرح کہتے ہو؟“

بارقؔ نے جواب دیا، ”حضرت! ہم تو کسی خاص وقت، پلنگ پر لیٹ کر، حقہ سامنے رکھ کر فکرِ سخن کیا کرتے ہیں۔ کبھی اس طرف کروٹ لی، کبھی اس طرف، کبھی لیٹے، کبھی بیٹھے، تب کہیں کوئی شعر نکلتا ہے۔“

یہ سن کر استاد داغؔ نے کہا، ”تم شعر کہتے نہیں، بلکہ جنتے ہو۔“

٭…ایک دن معمولی دربار تھا۔ استاد ذوقؔ(شیخ محمد ابراہیم) موجود تھے۔ ایک شہزادہ آیا اور بادشاہ (بہادر شاہ ظفر) کے کان میں آہستہ سے کچھ کہہ کر چلا گیا۔ حکیم احسن اللہ نے عرض کیا:

’’یہ آنا کیا تھا اور جانا کیا تھا؟‘‘

بادشاہ کے منہ سے نکلا:

’’اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے۔‘‘

اور پھر استاد کی طرف دیکھنے لگے۔ استاد ذوقؔ نے فوراً شعر مکمل کر دیا:

’’لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے،

اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے۔‘‘