ماضی میں مشاعرے میں تالیاں پیٹنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ آداب کے خلاف تھا۔ اُن سنہرے دنوں میں مشاعرہ پڑھنے والے شعرا اور مشاعرے کے حاضرین بھی ادب آداب، احترام اور روایات کے پابند ہوا کرتے تھے۔ مشاعرہ اس زمانے میں کلام پیش کرنے والوں کے لیے امتحان گاہ بھی ہوتا تھا کیونکہ نہ صرف بزرگ شعرا ایک ایک بات پر نظر رکھتے تھے بلکہ سامعین کی اکثریت بھی سنجیدہ اور وضع دار افراد پر مشتمل ہوتی تھی۔
بعض بزرگ اور کہنہ مشق شاعر وں کے داد دینے کے انداز سے، مثلاً محض مسکرانے یا مصرع دہرا کر کسی خاص لفظ پر زور دینے سے، نوآموز شاعر متنبہ ہوجاتے تھے کہ کوئی غلطی ہوگئی ہے۔ مشاعرہ گویا تنقیدی اور تربیتی ادارے کی بھی حیثیت رکھتا تھا جہاں نوجوانوں کو ادبی و لسانی اصولوں اورسماجی آداب کی تفہیم کاموقع ملتا تھا۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مشاعروں کی نوعیت اور حیثیت بھی بدلتی گئی اور اب مشاعرہ امتحان گاہ یا تربیت گاہ نہیں بلکہ کھیل تماشوں کی طرح تفریح کا ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مشاعروں میں بعض شعرا اچھی خاصی ’’گلوکاری‘‘ کرتے نظر آتے ہیں۔
بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ پڑوسی ملک کی بعض شاعرات کو سن کر لگتا ہے کہ باقاعدہ ریاض کرتی رہی ہیں اور اسی لیے کسی دل جلے نے کہا تھا کہ پہلے ’’غزل گو‘‘ ہوا کرتے تھے ، اب’’ غزل گا‘‘ ہوتے ہیں۔ معروف ہندوستانی شاعر منور رانا صاحب نے پاکستان کے ایک دورے میں بتایا تھا کہ اب ہندوستان میں مشاعروں میں نوجوان شاعرات کو ترجیح دی جاتی ہے اور سینئر شاعرات کو ان کی ڈھلتی عمر کی وجہ سے مدعو نہیں کیا جاتا۔
علی جواد زیدی نے اپنی کتاب ’تاریخِ مشاعر ہ‘میں لکھا ہے کہ انیس سو بیس اور تیس کے عشرے میں ایک ’’محتاط ترنم ‘‘ کا رواج تھا۔ صفی لکھنوی اور عزیز لکھنوی ترنم کے لیے معروف تھے۔ مگر حفیظ جالندھری، ساغر نظامی اور جگر مراد آبادی نے اس میں ’’غنائیت ‘‘ کا اضافہ کیا۔ یہ شعرا طویل نظمیں بھی غنائیہ انداز میں سناسکتے تھے اور یہ انداز جلد ہی عام ہوگیا۔
یہ بھی درست ہے کہ ترنم سے پڑھنے والے شعرا ان شعرا کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہوتے ہیں جو اپنا کلام تحت اللفظ میں سناتے ہیں۔
جگرمراد آبادی کی مقبولیت میں ان کے ترنم کا بھی ہاتھ تھا اور جگرکی مقبولیت اتنی زیادہ تھی کہ ان کی شرکت ہی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہوتی تھی۔ لیکن مشاعروں میں حاصل ہونے والی مقبولیت کسی شاعر کی شاعرانہ عظمت کی لازمی دلیل نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو جگر مراد آبادی اردو کے عظیم ترین شاعر ہوتے۔
یہاں یہ بات کہنے کا مقصد جگر مراد آبادی کا مرتبہ گھٹا نا ہرگز نہیں ہے کیونکہ جگر بجا طور پر بیسویں صدی کے بہترین غزل گو شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ مشاعروں کی مقبولیت شاعرکی بڑائی کا پیمانہ یا اس کی عظمت کا معیار نہیں ہوا کرتی۔ لہٰذا مشاعروں کے مقبول شاعر کو عظیم اور مشاعروں کے نامقبول شاعر کو معمولی سمجھنا سخن فہمی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
مشاعروں میں بعض اوقات کسی عام سے شعر پر بھی کسی ایک نکتے یا ایک لفظ کی وجہ سے اتنی داد ملتی ہے کہ لگتا ہے چھت اُڑ جائے گی۔ لیکن وہی شعر جب آپ کتاب میں یا رسالے میں چھپا ہوا دیکھتے اور پڑھتے ہیں تو بہت معمولی سا محسوس ہوتا ہے کیونکہ اب نہ وہ شاعر بنفسِ نفیس سامنے موجود ہے، نہ مشاعرے کی وہ سحر انگیز فضا ہے جس میں ایک جذباتی رنگ حاضرین پر چھایا ہوا ہوتا ہے اور ترنم کا افسوں بھی اُڑن چھو ہوچکا ہوتا ہے۔
وہ فضا اور اثر کاغذ پر منتقل نہیں ہوپاتا، اس لیے جو شعر مشاعرے میں نشتر محسوس ہوتا تھا اب کند چھری سا جالگتا ہے۔ ایک اور بات مشاعرے کی مقبولیت کے ضمن میں یہ ہے کہ یہ مقبولیت اور داد شاعر اور شاعری دونوں کے لیے ضرر رساں بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
کیونکہ بعض شاعر داد ملنے کی خواہش میں اپنا کلام عام سامعین کی پسند و ناپسند کے معیار پر لے آتے ہیں اور مثلاً کوئی گہری یا فلسفیانہ بات یا فارسی تراکیب سے گریز کرتے ہوئے عام سی زبان میں عام سی باتیں حاضرین ِ مشاعرہ کی عام ذہنی سطح (یا سطحی پسند کہہ لیجیے) کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری میں پیش کردیتے ہیں۔
انھیں ڈر ہوتاہے مفکرانہ اندازپر داد تو کیا ملے گی شعرہی سامعین کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ بعض مزاح گو شعرا مشاعرے میں تالیاں بجوانے کے لیے مزاح کے نام پر نازیبا اور غیر اخلاقی مضامین بھی باندھتے ہیں۔ گویا داد پانے کی توقع اور خواہش شاعر کو بہت خراب کرتی ہے۔
یہاں ہمیں جگر مراد آبادی کی تحسین اور توصیف کرنی پڑے گی کہ مشاعروں میں بے پناہ مقبولیت کے باوجود انھوں نے بعد میں اپنا انداز تبدیل کرلیا۔ جگر کی ابتدائی دور کی شاعری حسن و عشق، شراب اور شراب کی مستیوں کو موضوع بناتی ہے۔ اس زمانے میں انھوں نے رِندی کو خاص موضوع بنالیا تھا، عملاً بھی شغل کرتے تھے اور مشاعروں میں خوب داد بھی سمیٹتے تھے۔ وہ خود کہتے ہیں:
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
اس ابتدائی شاعری میں جگر کے ہاں نہ کوئی خاص سیاسی یا سماجی شعور ہے، نہ کوئی فکری بات ہے اور نہ کوئی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات ملتی ہیں۔ لیکن جگر ایک سچے شاعر تھے، شدتِ احساس، تخلیقی وفور اورفنی شعور سے بھرپور۔ اسی لیے اس پہلے دور کی شاعری میں بھی لسانی شعور، فنی مہارت اور روانی ہے اور جب ان کے جذباتی بحران کی شدت کم ہوئی تو ان کی شاعری میں رومانیت کے ساتھ ساتھ زندگی کی تلخ حقیقتوں کا احساس بھی منعکس ہونے لگا۔
خاص طور پر جگر کی آزادی کے بعد کے دورکی شاعری میں آس پاس کی دنیا کی سنگینی، سماجی مسائل کا شعور اور عصری احساس جھلکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دوسرے دور میں جگر اپنی حقیقی زندگی میں بھی ایک زبردست تبدیلی سے دوچار ہوئے تھے اور انھوں نے سچے دل سے تائب ہوکر صراط ِمستقیم پر اپنے نئے سفر کا آغاز کیا تھا۔
جگر کی مقبولیت کا اندازہ اُن کے اُن اشعار سے بھی ہوتا ہے جو زباں زدِ خاص وعام ہیں اور ان میں سے بعض ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ لیکن ان اشعار کی مقبولیت مشاعرے کی محتاج نہیں بلکہ ان کی معنویت اور تہہ داری نے شائقین کے دلوں کو چھو لیا۔ یہ اشعار آج بھی یاد دلاتے ہیں کہ اچھی شاعری مشاعرے کی داد کی محتاج نہیں ہوتی۔ ان میں سے چند ہی یہاں پیش کیے جاسکتے ہیں:
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں
٭…٭…٭
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
٭…٭…٭
اللہ اگر تو فیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان ِ محبت عام سہی عرفان ِ محبت عام نہیں
٭…٭…٭
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے
٭…٭…٭
اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتا ب ہے
٭…٭…٭
ان کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
مرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے