ڈاکٹر عائشہ ناز
اختر شیرانی اردو کے ان شعرا میں شمار ہوتے ہیں جن کی شاعری میں فکر و فلسفہ تو نہ ہونے کے برابر ہے لیکن حسن و عشق، رومانیت، تخیل اور لطیف احساسات و جذبات کی فراوانی ہے۔ عشقِ مجازی کے جذبات اور احساسات کو اختر شیرانی نے ایک عجیب سرمستی اور غنائیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
اختر کی شاعری میں جو موسیقیت اور ترنم ہے اور جو تغزل کارنگ ہے اس کو ان کی غزلوں کے علاوہ نظموں اور گیتوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر زبان کا ایک خاص انداز میں استعمال اور نت نئی تراکیب نے اختر کی شاعری کو ایک ایسا انفرادی رنگ اور آہنگ عطا کردیا ہے جو ان کو بیسویں صدی کے اردو شعرا میں ممتازبناتا ہے۔
اختر شیرانی کا رنگِ تغزل ان کی نظموں میں بھی جھلکتا ہے۔ لیکن ان کی نظموں کا بھی موضوع اکثر عشق ہی ہے۔ وہ عشق جو اختر شیرانی کی زندگی کا محور ہے اور جو ان کے لیے راحت جاں بھی ہے اور آزار کا باعث بھی، ان کی معروف نظم ’’اے عشق کہیں لے چل ‘‘میں بھی ان کی غزلوں کا انداز موجود ہے۔
اس نظم میں وہ عشق کو میرِ کارواں جانتے ہوئے اس سے ایک ایسی منزل تک رہنمائی کے متمنی ہیں جہاں زندگی کی تلخ حقیقتیں ان کا پیچھا نہ کریں، جہاں زندگی اور شاعری میں کوئی فرق نہ رہے۔ کہتے ہیں:
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اس نفس پرستی سے
دور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اور ایک نظم’’اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘‘ میں وہ عشق سے کچھ یوں مخاطب ہیں:
اے عشق نہ چھیڑآ آکے ہمیں
ہم بھولے ہوؤ ں کو یادنہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم
تو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ
یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اختر کی شاعری میں عورت ایک مستقل موضوع ہے لیکن روایتی رومانی شاعری کے برعکس وہ صرف سراپا نگاری تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ان کے ہاں عورت کے تقدس کا ایک احساس بھی ملتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ عشقِ مجاز ی کے گیت گانے کے باوجود اختر شیرانی کے ہاں عورت کا ذکر تلذذ سے ماورا ہے۔ ان کے ہاں رومانیت ضرور ہے لیکن ابتذال نہیں ہے۔
اپنی جرأت ِ اظہار کے سبب وہ عورت سے براہ ِ راست مخاطب ہوتے ہیں اور اردو شاعری کی اس روایت سے بھی انحراف کرتے ہیں جس میں محبوب ہمیشہ مذکر ہوتا تھا۔ اختر نہ صرف صیغہ ٔ تانیث کا برملا استعمال کرتے ہیں بلکہ سلمیٰ ، عذرا اور ریحانہ جیسے نام استعمال کرکے اردو شاعری میں ایک نیا رجحان متعارف کراتے ہیں۔ مثلاً ایک نظم میں کہتے ہیں:
سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں
بہار وکیف کی بدلی اتر آئے گی وادی میں
نسیم ِ باد یہ منظر کو مہکائے گی وادی میں
شباب و حسن کی بجلی سی لہرائے گی وادی میں
سنا ہے میری سلمیٰ رات کوآئے گی وادی میں
اسی والہانہ انداز میں ایک اور نظم میں ریحانہ کا بھی ذکر کرتے ہیں :
یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی
وہ ا س وادی کی شہزادی تھی اور شاہانہ رہتی تھی
کنول کا پھول تھی سنسار سے بیگانہ رہتی تھی
نظر سے دور، مثل ِ نکہت مستانہ رہتی تھی
یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی
اختر شیرانی شاعرِ رومان ہیںاور اسی رومانیت کا ایک پہلو ماضی پرستی بھی ہے لہٰذا اختر کی شاعری میں ماضی کی لہر، ماضی کی یادیں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔ ایک نظم میں ماضی کو یوں یاد کرتے ہیں:
او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں
مستانہ ہوائیں آتی ہیں
کیا اب بھی وہاں کے پربت پر
گھنگھور گھٹائیں چھاتی ہیں
کیا اب بھی وہاں کی برکھائیں
ویسے ہی دلوں کو لبھاتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا
اختر کے ہاں ہیئت کا تنوع -ملتا ہے اور انھوں نے ہیئتی تجربات بھی کیے ہیں، غزل، نظم، گیت، سانیٹ، ماہیے وغیرہ کی ہیئت میں ان کا کلام موجود ہے۔ اختر نے قلیل عمر پائی مگر کثیر مقدار میں کلام چھوڑا۔
اخترستان، نگارشات ِاختر، لالۂ طور، طیورِ آوارہ، نغمۂ حرم، صبحِ بہار، شہرود اور شعرستان ان کے شعری مجموعے ہیں۔ بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ پھولوں کے گیت کے عنوان سے چھپا۔ ۹ستمبر ۱۹۴۸ء کو اردو ادب کا یہ مایہ ناز شاعر تینتالیس برس کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جاملا۔