……بہزاد لکھنوی……
میری روح رواں مدینہ ہے
دل مدینہ ہے جاں مدینہ ہے
ہے مدینہ مری نگاہوں میں
یہ نہ پوچھو کہاں مدینہ ہے
اللہ اللہ اس جگہ کا عروج
حسرتِ دو جہاں مدینہ ہے
کیوں نہ اس پر فدا ہوں دو عالمؐ
جان کون و مکاں مدینہ ہے
اے مرے اضطراب قلب و جگر
مجھ کو لے چل جہاں مدینہ ہے
مرتبہ اس کا کوئی کیا جانے
مرکز عارفاں مدینہ ہے
کیا بتاؤں کسی کو میں بہزادؔ
میرے ورد زباں مدینہ ہے
……افتخار عارف……
اپنے آقا کے مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
دل الجھتا ہے تو سینے کی طرف دیکھتے ہیں
اب یہ دنیا جسے چاہے اسے دیکھے سرسیل
ہم تو بس ایک سفینے کی طرف دیکھتے ہیں
عہد آسودگیٔ جاں ہو کہ دور ادبار
اسی رحمت کے خزینے کی طرف دیکھتے ہیں
وہ جو پل بھر میں سر عرش بریں کھلتا ہے
بس اسی نور کے زینے کی طرف دیکھتے ہیں
بہر تصدیق سند نامۂ نسبت عشاق
مہر خاتم کے نگینے کی طرف دیکھتے ہیں
دیکھنے والوں نے دیکھے ہیں وہ آشفتہ مزاج
جو حرم سے بھی مدینے کی طرف دیکھتے ہیں
…ساغر صدیقی…
ہمیں جو یاد مدینے کا لالہ زار آیا
تصورات کی دنیا پہ اک نکھار آیا
کبھی جو گنبد خضرا کی یاد آئی ہے
بڑا سکون ملا ہے بڑا قرار آیا
یقین کر کہ محمدؐ کے آستانے پر
جو بد نصیب گیا ہے وہ کامگار آیا
ہزار شمس و قمر راہ شوق سے گزرے
خیالِ حسن محمدؐ جو بار بار آیا
عرب کے چاند نے صحرا بسا دئے ساغر
ؔوہ ساتھ لے کے تجلی کا اک دیار آیا