ملک میں نئی اسپورٹس پالیسی موجودہ حکومت کے ساڑھے تین سال کےعرصے میں تاحال سامنے نہیں آسکی ہے، پی ایس بی اور بین الصوبائی رابطے کی وزارت کی جانب سے مسلسل پالیسی کے جلد منظر عام پر آنے کا عندیہ دیا جارہا ہے، دوسری جانب پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن اور حکومت کے درمیان جاری تنازع میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے سائوتھ ایشین گیمز کی پاکستان میں میزبانی پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن نے اپنے اجلاس میں قومی اسپورٹس پالیسی کو یکسرمسترد کرتے ہوئے اسے عالمی فیڈریشنوں کے قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے اگر حکومت کی ہدایت اور پالیسی کے تحت انتخابات کرائے گئے تو عالمی فیڈریشن اسے قبول نہیں کرے گی اور حکومتی مداخلت کا الزام لگا کر فیدریشن کی رکنیت معطل بھی کرسکتی ہے، تاہم پاکستان اسپورٹسبورڈ کے ڈی جی کرنل(ر) آصف زمان کا کہنا ہے کہ حکومت کے بنائے گئے الیکشن کمیشن سے آئی او سی کے چارٹرڈ کی خلاف ورزی نہیں ہوگی، ہم اس میں جس فیڈریشن کے انتخاب ہوں گے اس کی عالمی تنظیم کو بھی مدعو کریں گے اس کے نمائندے کی نگرانی میں انتخابی مراحل مکمل کئے جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر ماضی میں ٹیمیں باہر گئی انہوں نے کھلاڑیوں سے بھاری رقم لی جبکہ خود اچھے ہوٹلز میں ٹھرے اور کھلاڑیوں کو غیر معیاری ہوٹل میں ٹھرایا، ان کو ڈیلی الائونس بھی نہیں دئیے جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
کئی ایک خواتین کھلاڑیوں نے جوشکایات کی ہیں وہ قبال بیان نہیں ہے، آصف زمان نے کہا ہے کہ نئی قومی اسپورٹس پالیسی آئندہ ہفتے کابینہ کے اجلاس میں منظور ہوجائے گی، جس کے بعد اس پر عمل در آمد شروع کردیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ پالیسی کے منظر عام پر آنے کے بعد فیڈریشنوں کے انتخاب کے لئے الیکشن قائم کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ قومی اسپورٹس پالیسی پر تمام فیڈریشنوں کو اعتماد میں لیا گیا اور انہوں نے اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔
الیکشن کمیشن کی نگرانی میں فیڈریشن کے انتخابات سے عالمی قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوگی،ہم اس میں ہر فیڈریشن کی ایشیائی اور عالمی نمائندوں کو بھی مدعو کر کے تمام انتخابی مراحل سے انہیں آگاہ رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسپورٹس پالیسی سے جعلی ٹیموں کے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی ہوگی،کھلاڑیوں کے دیار غیر میں لاپتا ہونے کے واقعات میں بھی کمی ہوگی جو اس وقت ملک کی بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملک میں متوازی فیڈریشنوں کا خاتمہ ہو، اور عہدے کی مدت پر سختی سےعمل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس بی کی کسی کے ساتھ لڑائی نہیں ہے،سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب پی او اے کا موقف ہے کہ حکومت ملک میں کھیلوں کی ترقی کے لئے اپنیذمے داری درست انداز میں نہیں نبھا رہی ہے جس کی وجہ سے ہم زوال کا شکار ہیں، جو بھی تجاویز یا بڑے ایونٹ کا پلان حکومت کو دیا جاتا ہے اس کا کئی ماہ گذرنے کے باو جود جواب تک نہیں دیا جاتا ہے ،کھلاڑیوں کی تیاریاں تاخیر سے شروع ہوتی ہے جس کے باعث نتائج بھی اچھے نہیں ملتے ہیں، ہم حکومت سے لڑ نہیں رہے ہیں بلکہ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، ہمیں بھی ملک کا مفاد عزیز ہے مگر حکومت ہمیں تسلیم نہیں کرناچاہتی ہے جس کی وجہ سے تنائو پیدا ہوتا ہے۔