• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی میڈیا پرمسلمان خواتین کے لباس پر بحث ایک عرصے سے جاری ہے۔ فرانس میں ایسے قانون بنے جو مسلمان اقلیت کے حقِ انتخاب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ترکی میں بھی عوامی سطح پر یہ معاملہ اُس وقت زیرِ بحث آیا جب رجب طیب اردگان کی اہلیہ نے سرکاری تقریب میں سر ڈھانپا شروع کیا۔ ترکی میں کسی فرسٹ لیڈی نے پہلے یہ ’’جسارت‘‘ نہیں کی تھی۔ ہندوستان میں کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ناروا سلوک پر پاکستان آواز اُٹھاتا رہا مگر انٹرنیشنل میڈیا نے چُپ سادھے رکھی۔ نوجوان لڑکی مسکان کے نعرۂ تکبیر نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی تو لباس کے مسئلے پر ہندو انتہا پسند رویہ، دُنیا میں بے نقاب ہوا۔ مسکان کی جرأت اور بہادری کو شہرت نصیب ہوئی تو مسلمانوں کے بین الاقوامی نمائندہ ادارے بھی متحرک ہو گئے۔

پاکستان میں بھی خواتین کا لباس کئی حوالوں سے زیرِ بحث رہا ہے۔ ایک طرف مغرب سے منسلک لبرل خیالات، دُوسری طرف کٹرسوچ جو لباس کے علاوہ سماج میں خواتین کے کردار کو محدود رکھنا چاہتی ہے۔ ضیاء الحق کا دور، قصۂ پارینہ ہوا جب ٹیلی وژن پر اینکر خواتین کے دوپٹے اور مسکراہٹ پر جوابدہی ہوتی تھی۔ آج کل مختلف آراء کے حامل لوگ بحث تو کرتے ہیں مگر خواتین کی پسند اور ناپسند کا احترام بھی کسی حدتک ملحوظِ خاطر رہتا ہے۔ اِسی ضمن میں یادوں کے توشہ خانے سے ایک واقعہ قارئین کی نذر کرتا ہوں۔ آٹھ یا نو برس پہلے، پنجاب پبلک سروس کمیشن میں لیڈی ڈاکٹروں کے انٹرویو جاری تھے۔ طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق، اُمیداوار کی اہلیت پرکھنے کی ذمہ داری کمیشن کے ایک ممبر اور تین سینئر پروفیسروں کے سپرد تھی۔ سرکاری نوکری کی متلاشی، نوجوان ڈاکٹر لڑکیاں انٹر ویو دے رہی تھیں۔ اِس عمل کے دوران، ایک لڑکی اِس لباس میں داخل ہوئی کہ اُس کا سر اور چہرہ مکمل ڈھکا ہوا تھا۔ صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ انٹرویو کرنے والے گروپ میں ایک سینئر پروفیسر شامل تھے جواپنے شعبے میں مہارت کی وجہ سے نیک نام تھے۔ پیشہ ورانہ سوچ کے ناطے اُنہیں اُمیدوار لڑکیوں سے کھل کر سوال کرنے میں حجاب نہیں تھا۔ مکمل پردے میں ملبوس لڑکی سے اُن کا پہلا سوال تھا، ’’ہمیں کیا معلوم کہ آپ کون ہیں؟ ممکن ہے آپ اُمیدوار کی جگہ انٹرویو دے رہی ہوں؟ ‘‘ پروفیسر کو اُمیدوار کی شناخت بارے، کمیشن کے طریقۂ کار کا علم نہیں تھا۔ لڑکی نے تحمل سے وضاحت کی کہ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے ایک خاتون علیحدگی میں شناختی کارڈ کی تصویر سے اُس کی پہچان کر چکی ہیں۔ پروفیسر کا دُوسرا سوال لباس سے متعلق تھا۔ ’’آپ کب سے مکمل پردہ کر رہی ہیں؟‘‘ لباس کے بارے میں سوال نے لڑکی کے دماغ میں کوئی حساس تار چھیڑ دیا۔ اُس کے لہجے میں جارحیت بھرا دفاعی انداز نمودار ہوا، ’’آپ میری پروفیشنل قابلیت پر سوال کریں، لباس کو رہنے دیںکیونکہ یہ مذہبی حکم ہے۔‘‘ پروفیسر اِس جواب پر مزید مُستعد ہو گئے۔ اُنہوں نے تیکھے لہجے میں پوچھا،’’آپ نے خود مذہب کا مطالعہ کیا تھا یا کسی عالم سے رہنمائی حاصل کی؟‘‘ لڑکی نے جواب دیا، ’’مجھے میری بڑی بہن نے گائیڈ (Guide) کیا تھا۔‘‘ پروفیسر نے پوچھا، ’’کیا آپ کی بڑی بہن کوئی عالمہ ہیں؟‘‘ لڑکی نے وضاحت کی کہ وہ عالمہ تو نہیں مگر مذہبی خیالات رکھنے والی ایک ہائوس وائف ہیں۔‘‘ مزید کہا۔ ’’ وہ بہت عرصہ سے پردہ کر رہی ہیں۔‘‘ پروفیسر ابھی جواب پر غور کر رہے تھے کہ لڑکی نے تلخ انداز اپنایا، ’’پلیز! آپ میرے لباس بارے مزید سوال نہ کریں۔‘‘ جواب میں پروفیسر نے انتہائی حلیم لہجے میں اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔ ’’بیٹی! ہم آپ کی قابلیت کو ہی جانچ رہے ہیں۔ یہ سوال اُسی عمل کا حصہ ہیں۔ ایک ڈاکٹر کی حیثیت میں آپ کا کوئی بھی فیصلہ اور طرز عمل مریضوں کی زندگی پر اثر انداز ہو گا۔ یہ ایک مشکل ذمہ داری ہے۔ ‘‘ پروفیسر کی بات ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ لڑکی نے جارحانہ انداز اپنایا۔ ’’آپ نے ابھی تک میڈیسن (Medicine) سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا۔‘‘ پروفیسر نے اپنے اعصاب پر کنٹرول کرتے ہوئے شُستہ لہجے میں وضاحت کی۔ ’’ڈاکٹر صاحبہ! ریسرچ، طب کے شعبے کی بنیاد ہے۔ ہمیں ایسا ڈاکٹر چاہئے جو مرض کی تشخیص اور دوا تجویز کرنے سے پہلے، مکمل تحقیق کرے اور شک کی صورت میں، کسی ایکسپرٹ یا ماہر سے رہنمائی لے۔آپ اگراپنی زندگی کے فیصلے کسی اور کی بات سے متاثر ہو کر کرتی ہیں تو خدشہ رہے گا کہ آپ ڈاکٹر کی حیثیت میں بھی، مرض کی تشخیص اور دوا کی تجویز بلا تحقیق، سرسری انداز میں کریں گی۔ ‘‘ ایک اور پروفیسر نے لقمہ دیا۔ ’’بیٹا! ایک قابل ڈاکٹر اور اتائی میں یہی فرق ہے۔ گلی کوچوں میں ایسے ڈاکٹروں کی دکانیں نظر آتی ہیں جو مریض کو اینٹی بائیوٹک ‘ ٹائیفائڈ اور ملیریا کی دوائوں کا گلدستہ تھما کر غیر ضروری ٹیکے لگاتے ہیں۔‘‘ لڑکی خاموشی سے سُن رہی تھی۔ پروفیسر نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحبہ! سوال یہ معلوم کرنے کے لئےکیا تھا کہ آپ فیصلہ کرتے ہوئے، سوچ بچار کے ساتھ متعلقہ کتابوں سے استفادہ اور ماہرین سے رہنمائی حاصل کرتی ہیں یا سُنی سنائی بات پر یقین کرنے کی عادت ہے۔ ‘‘ لڑکی پہلے تو خاموش رہی پھر اُس نے تحقیق کی اہمیت اُجاگر کرنے پر پروفیسر صاحبان کا شکریہ ادا کیا۔ بعد ازاں سوالات، طبی مہارت کی پرکھ پر مرکوز ہو گئے۔ انٹرویو کے بعد، اُمیدوار لڑکی کی پیشہ ورانہ اہلیت کے مدنظر، صوبائی حکومت کو تقرری کی سفارش کی گئی۔آئندہ آنے والی پردہ دار لیڈی ڈاکٹروں کو لباس کے بارے میں سوالات کا علم ہو چکا تھا۔پروفیسر صاحبان نے بھی اُمیدواروں سے یکساں سلوک کی خاطر اُن سے بھی یہی سوال دہرایا۔ اُمیدوار لڑکیاں بھی حتی الوسع تیار تھیں۔ ایک نے غیر یقینی لہجے میں جواب دیا۔ ’’سر! میں نے ترجمے کے ساتھ سورۃ نساء پڑھنے کے بعد فیصلہ کیا تھا۔‘‘ اِس دفعہ ایک اور پروفیسر جو دینی علوم میں دلچسپی رکھتے تھے، اُنہوں نے سورۃ النساء کی آیات کے حوالے سے، خاتون کی رہنمائی کی۔ بعد میں آنے والے اُمیدواروں نے سورۃ النساء کے ساتھ سورۃ احزاب کا حوالہ بھی شامل کر دیا۔

انٹرویو کا سلسلہ کئی روز جاری رہا۔ مکمل پردے کے حوالے سے، ایک لیڈی ڈاکٹر نے لباس کے انتخاب کی جو وضاحت پیش کی، وہ آج بھی یاد داشت میں نقش ہے۔ اُس نے بڑے اعتماد سے بتایا کہ وہ انگلینڈ میں پیدا ہوئی۔ ا سکول کے بعد میڈکل کالج میں داخلہ نہ ملا تو یہاں کسی تعلیمی ادارے سے میڈیکل کی ڈگری لی۔ اُس نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا، پاکستان میں گھر سے باہر نکلتی تو اُس کے سراپا کا مکمل جائزہ لیا جاتا۔ گھورتی آنکھوں سے پریشان ہوئی تو مکمل پردے کا خیال آیا۔ والدین سے مشورہ کرنے کے بعد اُس نے یہ لباس اپنا لیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ لباس کا انتخاب، بے شرم لوگوں کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ میں کسی ناشائستہ تعلق کے لئے دستیاب نہیں۔

تازہ ترین