• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وسیم اکرم کا باؤنڈری پر کپتان بابر اعظم سے الجھنا سمجھ سے بالاتر ہے

پاکستان سپر لیگ کا میلہ اب اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ کراچی میں تماشائیوں کی تعداد کم رہی لیکن لاہور میں سوفیصد تماشائیوں کو میچ دیکھنے کی اجازت ملی اور وہ بھرپور جوش وخروش کا مظاہرہ کررہے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ فائنل دیکھنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان بھی قذافی اسٹیڈیم آرہے ہیں۔

یہ گراونڈ عمران خان کے لئے نیا نہیں ہے، اپنے آبائی شہر کے اس گراونڈ میں میں انہوں نے لاتعداد کلب، فرسٹ کلاس ،ٹیسٹ اور ون ڈے میچ کھیلے لیکن وزیر اعظم کی حیثیت سے عمران خان کا پہلی بار اسٹیڈیم میں آنا اس بات کی غمازی ہے کہ وہ اب بھی اس کھیل سے والہانہ لگاو رکھتے ہیں جس نے انہیں پوری دنیا میں شہرت دی، شہرت کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے وہ سیاست میں آئے۔ فائنل کے بعد جب عمران خان کی فاتح کپتان کو ٹرافی دیتے ہوئے تصویر دنیا بھر کے میڈیا میں شائع ہوگی تو وہ منظر واقعی کچھ اور ہوگا۔

میری ذاتی رائے میں عمران خان کو اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر کسی انٹر نیشنل میچ کو دیکھنے کے لئے بھی گراونڈ آنا چاہیے تھا۔وہ کرکٹ آئی کون ہیں جنہیں پوری دنیا میگا اسٹار کی حیثیت سے جانتی ہے۔عمران خان کا کرکٹ معاملات میں دلچسپی لینا اور رمیز راجا کو پی سی بی چیئرمین بنانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بلندیوں پر جائے گی ، گراس روٹ کرکٹ اور اس میں ہونے والی خامیوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ملک میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرکے ایسوسی ایشن کی چھ ٹیمیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہی ہیں لیکن اس سسٹم کے ثمرات دیکھنےمیں نہیں آرہے جب تک کلب کرکٹ کو آسان بناکر فعال نہیں کیا جائے گا یہ سسٹم کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس وقت کلبوں کی اسکروٹنی کا طریقہ کار اس قدر پیچیدہ ہے کہ کلبوں کی رجسٹریشن مشکل سے ہورہی ہے۔ کرکٹ عام آدمی کا کھیل اور قوم کی دلوں کی دھڑکن ہےاس کھیل کے سسٹم کو سادہ اور آسان بنایا جائے تاکہ اس کے اثرات کھیل اور کھلاڑی تک پہنچ سکیں۔

مجھے نئے سسٹم بنانے والوں کی نیت پر شک نہیں ،لیکن اس سسٹم کو فول پروف بنائے بغیر کامیابی کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ بات پاکستان سپر لیگ کی ہورہی تھی اس ٹورنامنٹ میں کراچی کنگز کی کارکردگی واقعی مایوس کن ہے۔وسیم اکرم ،بابر اعظم پاکستان ہی نہیں دنیا کے بڑے نام ہیں،پھر ہیڈ کوچ پیٹر مورز اور بولنگ کوچ ڈگی براون کی موجودگی میں یہ کارکردگی واقعی بہت خراب ہے۔کراچی تین کروڑ آبادی والا شہر ہے اس شہر کی فرنچائز اگر اس طرح اوپر تلے ہارے تو پھر افسوس تو ہوتا ہے۔

کراچی کنگز اس دفعہ پی ایس ایل میں وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو اس سے پہلے قلندرز کا ٹیگ بن چکا تھا۔ ایسا لگتا ہے، وسیم اکرم نے بابر اعظم اور شرجیل خان کو ہی سات بیٹسمینوں کے برابر سمجھ لیا تھا مگر ماڈرن ٹی ٹونٹی کرکٹ کے تقاضے کچھ الگ ہیں۔ فرنچائز کرکٹ میں ٹیم بنانا بہت مشکل کام ہے۔ کنگز کو اس بار نئے کپتان اور نئے کوچ کے ساتھ آنا تھا، سو گمان ہے کہ ان بڑی تقرریوں میں الجھی انتظامیہ ڈرافٹ کے وقت کچھ بنیادی غلطیاں کر گئی جن کا خمیازہ اب بھگت رہے ہیں۔

خاص طور پر عماد وسیم کو کپتان سےہٹانا شائد کنگز کی سب سے بڑی غلطی تھی۔پاکستان سپر لیگ سیون میں، کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کے درمیان میچ میں ملتان سلطانز کی اننگز کے دوران کیمرے کی آنکھ نے باؤنڈری پر کراچی کنگز کے صدر اور اس کے تھنک ٹینک میں شامل سابق پاکستانی کپتان وسیم اکرم اور کراچی کے کپتان بابر اعظم کے درمیان ہونے والی گفتگو کا منظر محفوظ کیا جس میں وسیم اکرم خاصے مایوس اور ناراض دکھائی دے رہے تھے۔وسیم اکرم اور بابر اعظم کی گفتگو کا یہ منظر فوری طور پر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا اور اس پر مختلف نوعیت کے تبصرے ہونے لگے کہ وسیم اکرم بابر اعظم کو ڈانٹ رہے تھے اور انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا۔

تاہم وسیم اکرم نےکہتے ہیں کہ بابر اعظم کو ڈانٹنے کی بات میں کوئی صداقت نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ میں نے بابر اعظم کو صرف یہ کہا کہ وہ اپنے بولرز کو جا کر کہیں کہ وہ بیٹسمینوں کو یارکر کیوں نہیں کرا سکتے؟ کیا انھیں یارکر کرانی نہیں آتی؟‘یاد رہے کہ جب وسیم اکرم بابر اعظم کو یہ بات کہہ رہے تھے، انگلینڈ کے کرس جارڈن کی 19 ویں اوور میں بری طرح پٹائی ہوئی تھی اور خوش دل شاہ نے اس اوور میں دو چھکوں اور ایک چوکے کی مدد سے 20 رنز بنا ڈالے تھے اور اسی وجہ سے وسیم اکرم کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا تھا۔

جب کرس جارڈن 19واں اوور کرنے آئے تھے تو ملتان سلطانز کو دو اوورز میں جیت کے لیے 29 رنز درکار تھے لیکن اس مہنگے اوور کی وجہ سے ملتان سلطانز کے لیے آخری اوور میں جیت صرف نو رنز کی دوری پر رہ گئی تھی۔وسیم اکرم کراچی کنگز کے صدر ہیں ،کوچ کی موجودگی میں ان کا ردعمل مسلسل شکستوں کے بعد فرسٹیشن کے علاوہ کچھ نہیں ،اگر کسی کھلاڑی کو ڈانٹنا بھی تھا تو اس کے لئے ڈریسنگ روم موجود ہوتا ہے۔دو گیندوں بعد میچ ویسے بھی ختم ہوگیا تھا۔ وسیم اکرم کا باونڈری پر جاکر کپتان سے الجھنا سمجھ سے بالاتر ہے؟ 

اسپورٹس سے مزید
کھیل سے مزید