• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باقر رضا

اُردو زبان کا تصور یوں کیجئے جیسے راگ راگنیوں کا کیا جاتا ہے، یعنی ایک زندہ وجود، جو سنسکرت، پرا کرتی، فارسی، عربی، ترکی، پرتگالی، انگریزی، فرانسیسی اور دیگر زبانوں کے اشتراک سے حقیقت بنا۔ مَسیں بھیگیں تو بازار اور لشکر گاہ سے اُٹھ کر قلعۂ معلیٰ کی زینت ہوا۔ بادشاہی کو زوال ہوا تو اس کا عنفوانِ شباب تھا۔ فورٹ ولیم کالج میں مشاطگی ہوئی پھر ترقّی پسندوں نے نئی سج دھج عطا کی، دُنیا کی ترقّی یافتہ زبانوں کے اَدب کی محفل میں تعارف کرایا۔ بٹوارا ہوا تو پنڈت نے ہندوانہ اور ملّا نے مسلمانانہ چاہا پر چلی کسی کی بھی نہیں۔ ہالی ووڈ کی فلموں کی زبان یہی دُھتکاری، پھٹکاری اُردو بنی۔ اور یوں جہاں جہاں فلمیں دیکھی گئیں وہاں وہاں یہ زبان سُنی گئی۔

اُردو نے اپنی اَدائوں سے ہمیشہ اہلِ دِل کو مسحور کیا۔ یہی واقعہ سُن لیں کہ چودہ برس کا سکھ جٹ ہورا لڑکا۔ باپ کا نام روحیل سنگھ ہورا دلگیر، اس زبان کی زلفوں کا ایسا اسیر ہوا کہ خوش بیر سنگھ شاد کہلایا۔ والد صرف نام کی حد تک شاعرانہ صفت رکھتے تھے۔ تاہم خوش بیر سنگھ نے شاعروں کی بُری صحبت میں اچھی شاعری کرنا شروع کر دی، والی آسی صاحب کہ داغ کے شاگرد عبدالباری آسی کے صاحب زادے تھے کی شاگردی اختیار کی۔ یاد رہے کہ مولوی عبدالباری آسی ’’بصائر‘‘ شرح کلام غالب، پھول وتی، تذکرۂ معرکۂ سخن کے مصنف تھے اور ان کے والد شیخ حسام الدین، غالب کے شاگرد تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ خوش بیر سنگھ کی شاعری کا شجرہ کئی واسطوں سے اسد اللہ خاں غالب سے جا ملتا ہے۔

خوش بیر سنگھ شاد نے 1992ء میں ’’جانے کب یہ موسم بدلے‘‘ شاعری کی کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی 40برس کی عمر میں اُردو لکھنا پڑھنا سیکھا۔ گویا 14برس کی عمر سے 40برس کی عمر تک اُردو شاعری کی محبت میں گرفتار رہنے کے بعد نامہ و پیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ یعنی سیدھا سادا حساب یہ بنتا ہے کہ چھبیس (26) برس کی خاموش محبت کے بعد تحریری محبت کا آغاز کیا۔ یہ پُرانے وقتوں کی وضع داری ہے جو خوش بیر سنگھ صاحب نے نبھائی ورنہ آج کل کے زمانے میں تو محبوب کو دیکھتے ہی ایموجی (Emoji) بھیج کر عرض کر دیتے ہیں۔ موصل Datingاور فراق Breakupکا رُوپ دھار چکے ہیں۔

دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو

طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجئے

دقیانوسی شعر ہوگیا ہے۔ شبِ فراق کا طول ناپنا اب ممکن ہے اور وہ اب چند ساعت طویل ہی رہ گئی ہے۔

مضمون کی ابتدا ہی میں عرض کیا تھا کہ اُردو ایک جیتا جاگتا وجود رکھتی ہے اور اس کا باقاعدہ زمانہ بہ زمانہ ارتقاء ہوتا ہے بقول ماہر لسانیات نوم چوسکی کے Language is a process of free creationزبان آزاد تخلیقی اظہار کا عمل ہے۔ جب یہ زندہ وجود ہے تو اس کے حدود و اَربع بھی ہوں گے اور اس کا جغرافیہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ سمٹے اور پھیلے گا۔ آج اُردو کا جغرافیہ دہلی سے لے کر لندن تک پھیلا ہوا ہے یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ آج اُردو کی مملکت میں سُورج غروب نہیں ہوتا ہے۔ آج کا لکھنؤ اُردو کے جغرافیے میں سید محمد اشرف، انیس اشفاق اور خوش بیر سنگھ شاد کے ہونے کی وجہ سے شامل ہے، اور آج کاسڈنی اشرف شاد اور اُردو انٹرنیشنل کے احباب کی بدولت اس کا حصہ ہے۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم اُردو کے لکھنؤ اور اُردو کے سڈنی کا قرآن السعدین دیکھ رہے ہیں۔

خوش بیر سنگھ شاد کے شعری مزاح کی بابت یہ تصوّر دُرست ہے کہ ممکن ہی نہیں ہے کہ جس سماعت نے گرو گرنتھ صاحب کے 1430انگ اور ساٹھ راگوں سے تربیت پائی ہو وہ شاعرانہ مزاج اور صوفیانہ نظر نہ رکھتی ہو۔ جس کی رُوح حضرت بابا فرید گنج شکر کا کلام چکھے اور پھر شیرینیٔ کلام نہ پائے ایسا ہونا ممکنات میں سے نہیں ہے۔

کالے میڈے کپڑے، کالا میرا دیس

گناہواں دا بھریا میں پھراں لوکی کہن درویش

(فریدؒ)

ترجمہ : کالے کپڑے پہن کے نکلا ۔

کالا بھیس کیا میں پیش

عصیاں میں ہوں غرق سراسر

دُنیا کہے درویش

(باقر رضا)

اب اس رنگ کی نیرنگی دیکھئے

کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ

تو مجھ سے عہدِ گزشتہ کا اب حساب نہ پوچھ

میں اپنے رُوبرو ہوں اور کچھ حیرت زدہ ہوں میں

نجانے عکس ہوں چہرہ ہوں یا پھرآئینہ ہوں میں

جب شمس الرحمٰن فاروقی نے اُردو اَدب پر شب خون مارا تو اس میں لکھے والے بہت سے کھیت گئے خوش بیر سنگھ ان میں سے ہیں جو اپنے شعر کے زور پر زندہ رہے۔ یش بھارتی ایوارڈ، جشنِ اَدب اور لال جگت نرائن سمان یافتہ رہے۔ ’’جانے کب موسم بدلے‘‘ سے ’’ایک چہرہ تھا گھر میں‘‘ تیرہ سے زیادہ کتب تصنیف کیں جب ہندوستان کے عظیم الشان مشاعروں میں دیگر شعراء اپنے دولخت اشعار کو اداکاری اور صداکاری سے جوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور خوب تالیاں پٹواتے ہیں وہاں یک لخت خوش بیر سنگھ شاد اُردو شاعری کا اعتبار قائم کرتے نظر آتے ہیں۔

ذرا یہ دُھوپ ڈھل جائے تو ان کا حال پوچھیں گے

یہاں کچھ سائے اپنے آپ کو پیکر بتاتے ہیں

کچھ طلب میں بھی اضافہ کرتی ہیں محرومیاں

پیاس کا احساس بڑھ جاتا ہے صحرا دیکھ کر

ان کی شاعری میں مظاہرِ قدرت اوربے جان اشیاء سے مکالمے کی ایک صورت نظر آتی ہے

رَفتہ رَفتہ سب تصویریں دُھندلی ہونے لگتی ہیں

کتنے چہرے ایک پرانے البم میں مر جاتے ہیں

ان کی شاعری کا ایک کمال فطرت کا بہت باریکی سے مطالعہ بھی ہے جو ورڈز ورتھ کی شاعری کی یاد دلاتا ہے:

میں بارہا تری یادوں میں اس طرح کھویا

کہ جیسے کوئی ندی جنگلوں میں کھو جائے

ہر اچھا شاعر زبان کو ازسرِنو دریافت کرتا ہے۔ سو انہوں نے بھی ابہام، مراۃ النظیر اور استعاروں کا اپنا طریقہ دریافت کیا ہے۔

ہم اپنے گھر میں بھی اب بے سرو سامان رہتے ہیں

ہمارے سلسلے خانہ خرابوں سے نکل آئے

یعنی خانہ خرابوں جیسے اور خانہ خرابوں کے سلسلے میں ہونے کا اعتراف یا پھر خانہ خرابی میں مسلسل ہونے کا اشارہ، پھر گھر میں رہ کر بے سرو سامانی کا تضاد، اور گھر اور خرابوں کا تضاد اس شعری مضمون کو ہیرے کی طرح تراش دیتا ہے۔

خوش بیر سنگھ شاد کے ہاں تلمیح واضح نہیں بلکہ پوشیدہ اور مبہم سا اشارہ ہوتی ہے۔ عہدِ اورنگ زیب 1675ء میں چاندنی چوک پر گروتیج بہادر کی شہادت سے لے کر 1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والے فسادات کے سیاق و سباق میں یہ شعر الگ ہی معنویت کی پرتیں کھولتا ہے۔

یہ تیرا تاج نہیں ہے ہماری پگڑی ہے

یہ سر کے ساتھ ہی اُترے گی سر کا حصہ ہے

خوشبیر سنگھ شاد نے ایک موقع کہا تھا کہ اُردو، شاعری کی جان ہے آج اُردو نے میرے کان میں سرگوشی کی اور کہا خوشبیر سنگھ شاد ہندوستان میں اُردو کی شان ہیں۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔

خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی