• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیسے جیسے دنیا کووِڈ-19وبائی مرض کے اثرات سے نکل رہی ہے، دنیا بھر کی معیشتیں دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایک ایسی چیز بھی سر اُٹھا رہی ہے، جو کم از کم ترقی یافتہ دنیا نے عشروں میں نہیں دیکھی، اور وہ ہے افراطِ زر جسے عام زبان میں مہنگائی کہا جاتا ہے۔

تو مہنگائی کیا ہے اور دنیا بھر میں اچانک اس میں اتنی شدید تیزی کیوں آگئی ہے؟

ایک بین الاقوامی بینک سے وابستہ چیف اکانومسٹ پال ڈونوان کہتے ہیں کہ، ’’یہ بات سمجھنا انتہائی اہم ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اسے اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پاس یہ خیال کیا جاتا ہے کہ افراط زر کا ایک ہی نمبر ہے جو ہم سب کو ایک ہی طرح سے متاثر کرتا ہے جو کہ سچ نہیں ہے۔ عمر رسیدہ افراد کو زیادہ مہنگائی کا سامنا ہوتا ہے۔ 

کم آمدنی والے افراد کو افراط زر زیادہ متاثر کرتی ہے اور اس کی وجہ وہ چیزیں ہیں جو ان کو خریدنا پڑتی ہیں۔ عمر رسیدہ افراد کو صحت کی دیکھ بھال پر زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے، کم آمدنی والے لوگ اپنی آمدنی کی غیر متناسب شرح خوراک، توانائی اور رہائش پر خرچ کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ مہنگائی سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کا امیر ہونا ضرور ی ہے‘‘۔

مہنگائی کے سرکاری اعدادوشمار اور عوامی رائے میں فرق کیوں ہوتا ہے؟

لوگ مہنگائی کے سرکاری اعدادوشمار پر کم ہی یقین کرتے ہیں اور وہ یہ مانتے ہیں کہ افراط زر اصل میں اس سے زیادہ ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس حوالے سے دو معاشی تصورات ہیں، جن کے ذریعے اس صورتِ حال کو سمجھنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلا تصور نقصان سے بچنا (رِسک ایورژن) ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہم جینیاتی طور پر اچھی خبروں سے زیادہ بری خبروں کو یاد رکھنے اور ان پر ردعمل ظاہر کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ، ہم اپنے اگلے کھانے کی طرف جتنی تیزی سے بھاگتے ہیں، اس سے تین گنا تیزی سے ہم دانت والے شیر سے بھاگتے ہیں۔ لہٰذا نقصان سے بچنے کی خصلت کی وجہ سے، لوگوں کو قیمتوں میں اضافہ یاد رہتا ہے اور وہ قیمتوں میں کمی کو بھول جاتے ہیں۔

مہنگائی سے متعلق دوسرا تصور ’’تعدد تعصب‘‘ (فریکونسی بایَس) ہے اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ لوگ اس چیز کی قیمت یاد رکھتے ہیں جو وہ اکثر خریدتے ہیں یعنی خوراک اور ایندھن۔ نتیجہ یہ ہے کہ مہنگائی کے بارے میں آپ کو ایک بہت ہی مسخ شدہ تصویر ملتی ہے۔

پالیسی کے ذریعے مہنگائی پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟

مہنگائی میں حکومت کی مالیاتی پالیسی (فِسکل پالیسی) اور مرکزی بینک کی زری پالیسی (مانیٹری پالیسی) کا کردار ہوتا ہے۔ ہرچندکہ ماہرین اسے زیادہ تر زری پالیسی کے تناظر میں دیکھتے ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کو روکنا ہے تو اس میں فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول کچھ زیادہ نہیں کرسکتے۔ وہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو نہیں روک سکتے۔ 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہنگائی قابو کرنے میں مرکزی بینک بھی ایک حد تک کردار ادا کرسکتا ہے۔ البتہ کچھ چیزیں ایسی ضرور ہیں، مرکزی بینک قرض کی لاگت بڑھا کر جن کی قیمتیں کم کرسکتا ہے یا ان کے بڑھنے کی رفتار کو سست کرسکتا ہے۔ قرض کی لاگت بڑھانے کا مطلب شرح ِ سود میں اضافہ کرنا ہے۔ جب شرحِ سود میں اضافہ ہوتا ہے تو لوگوں کی زیادہ چیزیں طلب کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے، اس طرح طلب اور رسد کے درمیان توازن پیدا کیا جاتا ہے جس سے مہنگائی کے دباؤ میں کمی آتی ہے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ شرحِ سود میں اضافے سے لوگوں کو یہ ترغیب ملتی ہے کہ وہ اپنی قابلِ خرچ آمدنی کو خرچ کرنے کے بجائے بچتوں میں لگائیں۔

اس کے باوجود بھی ہمیں زری پالیسی کی محدودیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ زری پالیسی کے ذریعے مختصر مدت کے لیے طلب کو کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مختصر مدت کے بعد کیا ہوگا؟

خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟

2020ء میں عالمی وبائی مرض جس وقت اپنے عروج پر تھا، اس وقت تاریخ میں پہلی بار خام تیل کی قیمتیں صِفر سے بھی نیچے چلی گئی تھیں، کیوں کہ لاک ڈاؤن کے باعث خام تیل کی طلب تقریباً ختم ہوکر رہ گئی تھی۔

اس کے بعد، عالمی معیشت کا پہیہ جیسے جیسے پھر سے چلنا شروع ہوا، خام تیل کی قیمتوں کو 100ڈالر فی بیرل کی سطح تک جاتے دیکھا گیا۔ عالمی معیشت جیسے جیسے زور پکڑ رہی ہے، خام تیل کی مانگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور نتیجتاً اس کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، روس- یوکرین بحران اور مشرقِ وسطیٰ میں جغرافیائی و سیاسی تناؤ خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی کی مجموعی صورتِ حال کو مزید خراب کررہا ہے۔ عالمی معیشت میں خام تیل کا حصہ 3فی صد ہے۔ ایسے میں کل اگر خام تیل کی قیمت دُگنی ہوجائے تو اس کا مہنگائی کی شرح پر واضح اثر ہوگا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اس لحاظ سے بھی زیادہ اثر دِکھاتا ہے کہ یہ تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہ صرف فیول اسٹیشن پر نظر آئے گا بلکہ یہ اضافہ ہمیں ان تمام اشیا اور خدمات میں نظر آئے گا جو ہم استعمال کرتے ہیں۔