زیادہ پرانی نہیں، کچھ ہی سال پہلے کی بات ہےکہ جب فروری ، مارچ میں لاہور اور دہلی کا آسمان حدِ نگاہ تک نیلے، اودے، زرد، گلابی غرض ہر رنگ کی پتنگوں سے سجا نظر آتا تھا۔ رنگوں کی بہار نہ صرف آسمان رنگ دیتی تھی، بلکہ دھانی آنچلوں کی جھلک بھی ایک الگ چھب دِکھلاتی تھی اور ہر خاص و عام، بالخصوص لڑکیاں بسنت کے رنگوں میں رچ بس جاتی تھیں۔
یادوں کی پٹاری کھولی، تو ہم دہلی جاپہنچے، جہاں بچپن میں ایک باربسنت منانے کا موقع ملاتھا۔ اُس وقت ویزاملنا مشکل تھا، نہ ہی دونوں طرف کے لوگوں کے دل اس قدر سخت۔
سو، ہم ہر دو، تین سال میں ایک بار اپنے والدین کے ساتھ چھٹیاں گزارنے دہلی ضرور جاتے تھے کہ ہمارے کئی ددھیالی رشتے دار وہاں مقیم تھے۔ دہلی میں ہمارے آبائی گھر ’’مکی منزل‘‘ کے برابر میں ایک ہندو لالہ جی کی کوٹھی بھی تھی۔ چوں کہ دونوں خاندان کئی برسوں سے پڑوسی تھے، تو ماحول بھی کافی دوستانہ اور گھر جیسی بات تھی۔ہم عید، شب برأت پر ان کے گھرمٹھائیاں بھیجتے تھے، تو دیوالی، ہولی پر ان کے یہاں سےپیڑے آتے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارےاخلاص میں مذاہب کی دیوار کبھی حائل نہ ہوئی۔ بسنت کی آمد سے پہلے ہی لالہ جی کی حویلی پر اس کے رنگ نظر آنا شروع ہوجاتے تھےکہ یہ ان کے مذہبی تہوار ’’پنچمی‘‘ کی آمد کی تیاریاں ہوتیں۔ یوں پڑوسی ہونے کے ناتے ہم بھی یہ تہوار بڑے جوش و خروش سے مناتے ۔ لالہ جی اسے مذہبی طور پر بھی مناتے تھے، تو ’’مکی منزل ‘‘میں اسےآمدِ بہار کا سندیسہ تصوّر کیا جاتا تھا۔
لالہ جی کے یہاں سےتو قریباً ایک ہفتے قبل ہی بسنت کی آمد کی شنید مل جاتی کہ حویلی کی چھت پر رنگ و روغن جوشروع ہو جاتا۔ پھر مکی منزل کے وسیع و عریض صحن کے ایک کونے ہی میں رنگ ریز کو جگہ دے دی جاتی، جو نہ صرف ان دونوں گھروں کے، بلکہ محلّے کی تمام خواتین اورلڑکیوں کے دوپٹے ان کی مرضی کے مطابق رنگتا۔
کوئی لڑکی نیلا دوپٹا رنگواتی، توکسی کو گلابی بھاتا، کوئی چمپئی رنگ رنگواتی، تو کوئی ارغوانی…جو دوپٹے رنگ جاتے، اُنہیں وہیں الگنی پر سوکھنے کے لیے پھیلا دیا جاتا۔ رنگ ریز کے ساتھ حلوائی کو بھی پہلے ہی سے بلوا لیا جاتا کہ کہیں تہوار والے دن کوئی پریشانی نہ ہو۔ میٹھے میں بھی سب کی الگ پسند ہوتی کوئی پیٹھے کا شوقین ، تو کوئی بیسن کے لڈّو کا دیوانہ، تو کسی کو گلاب جامن پسند ہوتے۔ ہمارے دادا کی سختی سے ہدایت تھی کہ بسنت کے روز سب کے من چاہے پکوان بننے چاہئیں۔
اُن دنوں چُوڑی پہنانے والی خالہ کی بھی چاندی ہوجاتی کہ بسنت کے دنوں میں اُن کی اچھی خاصی چوڑیاں فروخت ہوتیں۔ لڑکیوں کی پوری کوشش ہوتی کہ ان کے دوپٹوں میں موجود ہر رنگ ان کی کانچ کی چوڑیوںسے بھی جھلکے۔ یوں اپنا جھولا خالی کرنے کے بعد چُوڑی والی بھی خوشی خوشی گھر کی راہ لیتیں۔ دوسری جانب لڑکے بھی کسی سے پیچھے نہ رہتے۔ سب سے منفرد پتنگوں، مانجھوں کے حصول کے لیے بڑی کوششیں کرتے۔
بسنت کے روز جہاں لڑکیاں رنگ برنگے دوپٹے لہراتیں، دیدہ زیب چوڑیاں کھنکھناتیں، وہیں لڑکوں کی پتنگیں، جو ان کی کل متاع ہوتیں، دیکھنے سے تعلق رکھتیں۔ اپنی پسند کی پتنگیں بنانے کے لیے لگدی تیار کی جاتی اور پتنگوں کو مختلف اشکال دی جاتیں تاکہ وہ آسمان میں سب سے الگ نظر آئیں۔ بسنت کی رات جہاں لڑکیوں کو نئے کپڑوں، چوڑیوں کی خوشی میں نیند نہیں آتی، وہیں لڑکے بھی رات کو اُٹھ اُٹھ کر اپنی پتنگیں دیکھتے رہتے۔
لالہ جی کے یہاں تو گوشت نہیں پکتا تھا، اس لیے بسنت کے روز ان کے یہاں پاپڑ، پنیر کے پکوڑے اور بُھنی چٹنی کے ساتھ بیسن کی روٹی اپنی بہار دکھاتی،تو ہمارے ہاں بننے والی بریانی کی خوش بو گلی کے کونے تک جاتی۔ علی الصباح سے گلی، محلّوں میں چہل پہل شروع ہو جاتی۔ اور دن چڑھنے کے ساتھ ساتھ آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے سج جاتا۔ آہ…! کیا مناظر ہوتے تھے، کہیں رنگین آنچل لہرا رہے ہوتے، تو کہیں رنگ برنگی پتنگیں، کہیں ’’بوکاٹا‘‘ کی صدائیں گونجتیں، تو کہیں چوڑیوں، جھمکوں کی کھنک۔ اور بس، جس دن کے لیے اتنے انتظامات ہوتے تھے، وہ کیسے پلک جھپکتے گزر جاتا، پتا ہی نہیں چلتا۔
اگر وطنِ عزیز کی بات کریں، تو پہلے پہل دہلی ہی کی طرح لاہور میں بھی بسنت خُوب جوش و خروش سے منائی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ کراچی میں بھی اس تہوار نے زور پکڑنا شروع کردیا، لیکن پھر ساتھ ہی کچھ ظالموں نے دھاگے کے بجائے دھات سے مانجھا تیار کرکے خوشیوں کی اس ڈور کو قاتل ڈور بنا دیا۔ یوں 2009ء میں پاکستان میں بسنت منانے ، پتنگ اڑانے پر پابندی لگادی گئی اور محض چندشر پسند عناصر کی وجہ سے عوام اس سستی تفریح سے بھی محروم ہوگئے۔
بسنت سے پہلوتہی کی گئی، تو ویلنٹائن کا غلغلہ اُٹھا اور پھر کیا ہی اٹھاکہ ہر جانب لال رنگ نظر آنے لگا، محبّت کے اظہار کے جوجو طریقے سامنے آئے ،وہ بے حد معیوب اور قابلِ اعتراض تھے، سو ویلینٹائنز ڈے کے خلاف بھی آوازیں بلند ہوئیں اور اب پچھلے کئی سالوں سے میڈیا پر بھی اس بات کا خاص دھیان رکھا جاتا ہے کہ اس تہوار سے متعلق خبریں اور پیکیجز نہ چلائے جائیں۔
ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ کیا مِن حیث القوم ہم نے کبھی غور کیا کہ بسنت اور ویلینٹائنز اس قدر مقبول کیوں ہوئے؟ جواب شاید یہ ہے کہ انسان رنگوں اور خوشبوئوں کی جانب جلد متوجّہ ہوجاتا ہے۔ پتنگ اڑانا ایک سستی تفریح تھی، مگر دھاتی ڈور بنانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے عوام سے ایک خوشی، سستی تفریح چھین لی گئی۔
زندگی کی کلفتوں سے کچھ دیر کے لیے ہی سہی، پیچھا چھڑانے کے لیے انسان راہِ فرار ڈھونڈتا ہے، تو کیوں نہ پتنگ کے بجائے اس دھاتی ڈور کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ ایک بار پھر آمدِ بہار پر آسمان پہ رنگ برنگی پتنگوں کی قوسِ قزح اُتری دکھائی دے۔ انسان معاشرتی جانور ہے، اس لیے ہنگاموں کا عادی بھی ہے اور شیدائی بھی۔
یہی دیکھ لیجیے، بسنت سے روکا گیا، تو ویلینٹائن کی جانب لپک پڑا، اب کہیں ایسا نہ ہو کہ ہیلووین کے موقعے پر راہ چلتے زومبیز نظر آنے لگیں اور اگر ایسا ہوا، تو یقین مانیں بسنت بہت یاد آئے گی کہ وہ کم از کم کچھ اپنی اپنی سی تو لگتی تھی۔