آج 8 مارچ ہے۔ یہ تاریخ ہےعورتوں کےعالمی دن دنیا کی، جو بھر میں عورتوں کی سماجی، اقتصادی، ثقافتی، اور سیاسی کامیابیوں ، ناکامیوں کا جائزہ لینے، جشن منانے کا دن ہے۔ آئیے اس دن ذرا ایک صنفی مساوات پر مبنی دنیا کا تصور کرتے ہیں، ایک ایسی دنیا جو ہر طرح کے تعصبات اور امتیازات سے پاک ہو۔ ایک ایسی دنیا جو متنوع ہو، منصفانہ ہو اور ہر ایک کو اپنی آغوش میں سمیٹ کر رکھتی ہو۔ایک ایسی دنیا جس میں باہمی فرق کی قدر کی جاتی ہو اور اسے خوشی سے قبول کیا جاتا ہو۔ ہم مل کے عورتوں میں مساوات قائم کر سکتے ہیں اور باہمی اشتراک سے تعصبات کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
8مارچ 2022 کو بھی ہمیں عورتوں کی کامیابیوں کو اُجاگر کرنا چاہئیے، تعصبات کے خلاف آگاہی پھیلانی چاہیے اور مساوات کے حصول کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ امسال کا موضوع ’’پائیدار کل کے لئے۔ آج صنفی مساوات‘‘۔ اس کے ساتھ ہی ہمارا مقصد تعصبات کو توڑنا ہے۔ انفرادی طور پر ہم سب اپنے اپنے افکار و اعمال کے ذمہ دار ہیں لیکن ہم اپنی کمیونٹیوں، اپنی کام کی جگہوں اور اپنے تعلیمی اداروں میں مل جل کے تعصبات کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ عورتوں کے خلاف تعصب خواہ شعوری طور پر روا رکھا جائے یا غیر شعوری طور پر، اس کی وجہ سے عورتوں کا آگے بڑھنا مشکل ہو جاتاہے۔
مختصر طور پر عورتوں کے عالمی دن کی تاریخ بیان کرتے چلیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں صنعتی ممالک میں مزدوروں کے حالات کار بہت برے تھے۔عورتوں کو مردوں کے برابر اجرت نہیں ملتی تھی۔ انہیں ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔ ان سے کئی کئی گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر 1908میں نیو یارک سٹی میں پندرہ سو عورتوں نے اپنے حقوق مانگنے کے لئے جلوس نکالا۔1909میں امریکا کی سوشلسٹ پارٹی کے اعلامیہ کے مطابق امریکی عورتوں کا پہلا قومی دن منایا گیا۔
اسی لئے اسے محنت کش عورتوں کا عالمی دن کہا جاتا ہے۔جرمنی کی مارکسی خاتون رہنما کلارا زیٹکن نے 1910میں بین ا لاقوامی سوشلسٹ کانگریس میں اس دن کو بین ا لاقوامی طور پر منانے کی تجویز پیش کی تھی ۔ پھر آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی، سوئٹزر لینڈ میں یہ دن منایا گیا۔ اٹھارہ اگست 1920کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے امریکی عورتوں کو ووٹ کا حق مل گیا۔اور پھر حقوق نسواں کی تحریز کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں یہ دن بہت سے ممالک میں منایا جانے لگا۔ 1975میں اقوام متحدہ نے آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں عورتوں کا عالمی سال قرار دے دیا۔ اور میکسکو میں عورتوں کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں پاکستانی خواتین کے وفد کی قیادت بیگم نصرت بھٹو نے کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے1975-1985 کو عورتوں کا عالمی عشرہ قرار دیا۔
جب کہ اکنامک اینڈسوشل کونسل1946میں ہی عورتوں کا ایک بھر پور قسم کا کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن بنانے کی اجازت دے چکی تھی لیکن مجموعی طور پر عورتوں کے لئے کچھ زیادہ نہیں کیا گیا تھا۔ عورتوں کی علیحدہ ضروریات اور دنیا بھر میں ان کی صورت حال کے ادراک کے باوجود ان کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے تھے، مگر 1975ء کے بعد صور ت حال بدلنا شروع ہوئی۔ 1995ءمیں عورتوں کی چوتھی عالمی کانفرنس بیجنگ میں ہوئی، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت بے نظیر بھٹو نے کی تھی اور این جی اوز کا وفد الگ سے گیا تھا۔ اس کانفرنس میں عورتوں کی صورت حال بہتر بنانے کے لئے ایک طویل ا لمعیاد منصوبہ بنایا گیا ،جس پر آج بھی بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن کی شکل میں عمل ہو رہا ہے۔
بیجنگ اعلامیہ اور پلیٹ فارم فار ایکشن کو 189ممالک نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا،تاکہ عورتوں کو برابری کا درجہ اور انصاف دیا جاسکے۔برابری کے وعدے کے باوجود پیش رفت کچھ سست رہی اور پھر COVID19 کی وبا نے تو ڈرامائی طور پر آگے بڑھنے کی راہیں مسدود کر دیں۔ دنیا بھر میں عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ غریب، زیادہ نا خواندہ ،فاقہ کشی اور خرابیء صحت کا شکارہیں ، پھر بھی کلائمیٹ کرائسس Climate Crisis اور کووڈ کے باوجود عورتوں نے ترقی کا سفر جاری رکھا اور دنیا نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ ان حالات میں خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں عورتوں اور لڑکیوں کی بھرپور شراکت ضروری ہو گئی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ تحقیق اور اختراع کے شعبے میں عورت کے کام کی اہمیت کو تسلیم کیاجائے۔سائنس کے شعبے میں اسٹیریو ٹائپس کو توڑا جائے اور عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف امتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔
دنیا بھر میں صرف 33فی صد عورتیں ریسرچرز ہیں اور انہیں مردوں کے مقابلے میں کم فنڈنگ ملتی ہے۔ نجی شعبے میں بھی کمپنیوں کی لیڈرشپ میں عورتوں کی تعدادکم ہے۔ اسی طرح ٹیک انڈسٹری میں وہ ٹیکنیکل ملازمتوں میں کم نظر آتی ہیں۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس کے شعبے میں عورتوں کی تعداد صرف بائیس فی صد ہے اور صرف 28فی صد لڑکیاں انجنئیرنگ گریجویٹس ہیں۔ایک بہتر سماج کی تشکیل اور دنیا کے جدید مسائل کو حل کرنے کے لئے عورتوں کو متناسب تعداد میں ہر شعبے میں شامل کرنا ہو گا۔
2026ءتک سائنسی شعبوں میں عورتوں کی شمولیت کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کے لئے گذشتہ سال ،صنفی مساوات فورم۔ٹیکنالوجی اور اختراع کا ایکشن کولیشن بنایا گیا، جس میں حکومتوں، نجی شعبے کی کمپنیوں، یو این سسٹم اور سول سوسائٹی کو شامل کیا گیا،تا کہ عورتوں اور لڑکیوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی اور ایجادات و اختراعات کے شعبے میں لانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ لڑکیاں اور عورتیں ہماری زندگی کے پیچیدہ ترین اور سب سے بڑے مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس کے لئے گیارہ فروری 2022ءکو عورتوں اور لڑکیوں کا عالمی دن بھی منایا گیا۔
امسال عورتوں کے عالمی دن کا موضوع’’بہتر کل کے لئے ،آج صنفی مساوات‘‘ بھی ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے عورتوں کی کاوشوں کو سراہنے کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ ماحولیاتی بحران اور آفات کے خطرے کو کم کرنے کے لئے صنفی برابری کو بڑھانا، اکیسویں صدی کے سب سے بڑے عالمی چیلنجز میں سے ایک ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور پائیداری کے مسائل ہماری اقتصادی اور سماجی ترقی پر شدید اور دیر پا اثرات مرتب کریں گے۔ اور سب سے گہرے اثرات کمزور اور پسماندہ طبقات پر پڑیں گے۔ دن بہ دن یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں ،کیونکہ دنیا بھر کے غریبوں میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اور قدرتی وسائل پر ان کا انحصار زیادہ ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہوں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ عورتیں ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالنے اور نقصانات کو کم کرنے کے حوالے سے موثر اور طاقتور لیڈرز بھی ثابت ہوئی ہیں۔ وہ دنیا بھر میں پائیداری کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں شامل ہیں اور ان کی شراکت اور قیادت کا نتیجہ موثر ،ماحولیاتی کارروائیوں کی شکل میں نکلا ہے۔ پائیدار ترقی اور زیادہ صنفی برابری کے لئے ضروری ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کو با اختیار بنایا جائے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انہیں فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔
امسال اقوام متحدہ عورتوں کے عالمی دن پر ’آج صنفی برابری، پائیدار کل کے لئے‘ کے عنوان سے آٹھ مارچ 2022 کو ایک اعلیٰ سطحی ورچوئل تقریب کا انعقاد کرے گی، جس میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری، جنرل اسمبلی کے صدر، کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئر،یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، صنفی مساوات اور ماحولیاتی تبدیلی کے ایکٹیوسٹس اور ممتاز شخصیات شرکت کریں گی۔اس تقریب میں اعلیٰ سطحی پینل ڈسکشن اور میوزیکل پرفارمنس بھی ہو گی۔
عورتوں کے عالمی دن کا موضوع کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کے 66ویں اجلاس کے ترجیحی موضوع ’’ماحولیاتی تبدیلیوں اور آفات کے خطرے کو کم کرنے کی پالیسیوں اور پروگرامز کے تناظر میں ساری عورتوں اور لڑکیوں کے لئے صنفی مساوات اور خود مختاری کا حصول‘‘عالمی دن کے موضوع سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں حکومتیں اور این جی اوز بھی مختلف پروگرامز منعقد کریں گی۔
اس کے ساتھ ساتھ ہر سال کی طرح فوربس نے سو طاقتور ترین عورتوں کی فہرست بھی مرتب کی ہے۔ اس کے لئے گذشتہ سال کے واقعات کا جائزہ لیا جاتا ہے، کون منتخب ہوااور طاقتور عہدوں پر کس کی تقرری اور ترقی ہوئی۔کن کی کمپنیوں نے دولت اور شہرت کمائی۔ کس نے دنیا میں بامعنی اور دیر پا تبدیلی لانے کے لئے آواز اٹھائی۔
٭…اس نئی فہرست میں سب سے پہلا نام بارباڈوس کی خاتون وزیر اعظم میا موٹلے کا ہے۔انہوں نے عالمی منظرنامے پر اس وقت ایک طاقتور اثر مرتب کیا جب نومبر 2021میں ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں انہوں نے دنیا بھر سے آنے والے رہنمائوں کو سرزنش کی تھی،’’ہم عالمی رہنماؤں کی حیثیت سے کب ان مسائل سے نمٹیں گے جو ہمارے عوام کے لئے باعث تشویش ہیں، خواہ ماحولیات کا مسئلہ ہو یا ویکسین کا، ہمارے رہنما کب رہنمائی کریں گے؟‘‘ اس کے چار ہفتے بعد انہوں نے برطانوی بادشاہت سے علیحدگی اختیار کر لی،اپنے ملک کو جمہوریہ قرار دیا اور ایک با صلاحیت خاتون سینڈرا میسن کو پہلی مقامی سربراہ مملکت بنا دیا۔’’اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینے کا وقت آ گیا ہے اور دھرتی کی بیٹی کو یہ اعزاز دیا جا رہا ہے۔‘‘ یہ موٹلے کا کہنا تھا۔
٭…نجلا بودین رومدھین پیشے کے لحاظ سے ماہر ارضیات ہیں۔ گذشتہ سال اکتوبر میں وہ تیونس کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ انہیں پہلے بھی کچھ سیاسی تجربہ رہا ہے ، 2011 میں انہیں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے وزارت تعلیم کا ڈائریکٹر بنایا گیا تھا۔ سیاسی مبصرین ان کے اختیارات کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں، کیونکہ ان کا تقرر ایک ایسے صدر نے کیا ہے، جس نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے اقتدار سنبھالا ہے۔
٭…لن مارٹن صاحبہ نیو یارک اسٹاک ایکسچینج کی نئی سربراہ ہیں۔ جلد ہی ان کا نام آپ کو ’’پاور لسٹ‘‘ میں نظر آئے گا۔
٭…امریکا کی اینجلا ولیمز کے کوائف بہت متاثر کن ہیں۔ انہوں نے الہیات اور قانون کی ڈگریاں لے رکھی ہیں۔ 2018ء میں وہ معذوروں کے لئے کام کرنے والی سب سے بڑی این جی او ایسٹر سیلز کی پہلی سیاہ فام خاتون سربراہ بنیں۔ گذشتہ سال ستمبر میں ان کا نام یونائیٹڈ وےپرائیویٹ فنڈنگ کے ساتھ منافع کے بغیر کام کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم کی سربراہی کے لئے پیش کیا گیا۔ اور وہ اس کی پہلی خاتون اور پہلی افریقن امریکن سربراہ بن گئیں۔ یوں انہیں اڑتالیس ملین لوگوں کی صحت اور اقتصادی تحفظ کے لئے کام کرنے کا موقع ملے گا۔
بی بی سی نے بھی سو متاثر کن اور اہم خواتین کی فہرست تیار کی ہے۔ ان میں ملالہ یوسف زئی اور سامواکی خاتون وزیر اعظم فائمہ نومی مطافہ اور ویکسین کانفیڈنس پراجیکٹ کی سربراہ پروفیسر ہیڈی جے لارسن اور ممتاز مصنفہ چیمامانڈا بھی شامل ہیں جب کہ اس فہرست میں نصف تعداد افغان خواتین کی ہے جن کی حفاظت کے خیال سے ان کے اصلی نام نہیں دئیے گئے۔
خواتین کے کارنامے اپنی جگہ لیکن کووڈ 19کی وبا نے ہماری معیشتوں اور معاشروں کی خوشحالی کی راہ میں نئی رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں۔ اس سے صنفی تفاوت بڑھا ہے اور ماہرین کی رائے میں اس صنفی تفاوت کو دور کرنے کے لئے ایک صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ سب سے زیادہ صنفی فرق سیاست میں عورتوں کی شراکت کے حوالے سے نظر آتا ہے۔
156ممالک کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی 35500پارلیمانوں میں عورتوں کی نمائندگی صرف 26.1فی صدہے۔ دنیا بھر کے 3,400وزرا میں عورتوں کی تعداد محض 22.6فی صدہے۔ اس وقت دنیا کے81ممالک ایسے ہیں جن میں کبھی کوئی عورت سربراہ مملکت نہیں بنی۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق سیاست میں صنفی گیپ دور کرنے کے لئے 145.5سال لگیں گے۔بہرحال حال ہی میں دو ممالک نے اپنے لئے خاتون وزیر اعظم کا انتخاب کیا ہے( ٹوگو نے 2020میں اور بلجئیم نے 2019میں)۔
دوسرا بڑا صنفی گیپ اقتصادی شراکت اور مواقع کا ہے۔ اور اس فرق کو دور کرنے کے لئے 267.6سال لگیں گے۔ عالمی ادارہء محنت کے مطابق کووڈ19کی وجہ سے پانچ فی صد عورتیں اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے عورتوں پر بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو کاموں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔
ان مسائل کے باوجود دنیا بھر میں خارجہ امور میں عورتوں کے سامنے آنے کارحجان بڑھا ہے۔نسائی خارجہ پالیسی کا تصور سب سے پہلے سویڈن نے پیش کیا تھا اور اب اسپین، فرانس، کینیڈا، میکسکو،لکسمبرگ، لیبیا اور حال ہی میں جرمنی نے بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سفار ت کاری کے کام میں عورتوں اور لڑکیوں کو مرکزی حیثیت دی جائے گی۔ جرمنی کی پہلی خاتون وزیر خارجہ نے جنوری 2022ءمیں اپنی ایک تقریر میں کہا تھا،کہ جرمنی ان ممالک کی مثالوں پر عمل کرے گا جنہوں نے صنفی مساوات اور عورتوں اور لڑکیوں کی اقتصادی خود مختاری کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنایا ہے۔
اینالینا بئیربوک جرمنی کی پہلی خاتون وزیر خارجہ کا شمار ان سرکاری حکام میں ہوتا ہے جو نسائی نقطہء نظر سے خارجہ پالیسی کی حکمت عملی تیار کرنا چاہتے ہیں اور دنیا بھر میں عورتوں کی نمائندگی، حقوق اور ان کے لئے وسائل مختص کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔’’اگر دنیا کی نصف آبادی کو برابری کی بنیاد پر شراکت کا حق حاصل نہیں ہو گااور ان کو مساوی نمائندگی یا اجرت نہیں ملے گی تو جمہوریت نا مکمل رہے گی۔ دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق میں کمی مطلق ا لعنان قوتوں کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔‘‘
خارجہ پالیسی اور سفاتکاری میں عورتوں کی شمولیت کا تصور 2014ءمیں سویڈن کی وزیر خارجہ مارگٹ والسٹروم نے پیش کیا تھا۔ مرد حضرات کنفیوژن کا شکار ہوئے تو انہوں نے وضاحت کی کہ فیمنسٹ فارن پالیسی تین R یعنی RIGHTS, REPRESENTATION,RESOURCESیعنی حقوق، وسائل اور نمائندگی پر مبنی ہے۔ یعنی یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا لڑکیوں اور مردوں کو وہی انسانی حقوق حاصل ہیں جو لڑکوں اور مردوں کو حاصل ہیں۔ کیا عورتوں کو مقامی اور وفاقی حکومتوں میں نمائندگی حاصل ہے؟
کیا قومی بجٹ میں صنفی مسائل کا خیال رکھا جاتا ہے؟اور کیا ان کے لئے خاطر خواہ وسائل مختص کئے جاتے ہیں؟ بعد میں انہوں نے اس میں چوتھا R یعنی REALITY بھی شامل کیا،کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ ان کی پالیسی سے چیزیں فوری طور پر تبدیل نہیں ہوں گی اور انہیں اور دیگر سفارت کاروں کو کوئی مشترکہ جواز تلاش کرنا ہو گا۔ چنانچہ خارجہ پالیسی کی ہر میٹنگ میں خواہ کہیں بھی ہو، انہوں نے پوچھنا شروع کر دیا ’’عورتیں کہاں ہیں؟‘‘۔
جب انہوں نے یمن حکومت اور حوثی فورسز کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کی تو انہوں نے اصرار کیا کے خواتین کو بھی ان مذاکرات میں شامل کیا جائے۔ سویڈن نے غیر ملکی امداد اور ترقی میں صنفی مساوات کو اپنی ترجیح بنا رکھا ہے لیکن اس پر تنقید بھی ہوتی ہے کہ سویڈش کارخانے اسلحہ بھی بناتے ہیں جو یمن کی جنگ میں بھی استعمال ہوا۔
لندن اور برلن میں قائم ہونے والے سینٹر فار فیمنسٹ فارن پالیسی کی شریک بانی کرسٹینا لونزکا کہنا ہے کہ، فیمنسٹ فارن پالیسی ایک مثالیہ ہے۔یہ ایک طویل ا لمعیاد سفر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں خارجہ پالیسی اور دفاعی پالیسی میں موجود پدرشاہی ڈھانچوں کو توڑنا ہو گا۔ اپنے مقصد کوتشدد کے ذریعے حاصل کرنے کا پدرسری طریقہ ختم کرنا ہو گا۔
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف۔فروری 2022ءمیں سول سوسائٹی نے اس وقت اطمینان کا سانس لیا جب ایک سیشن کورٹ نے نور مقدم کے قتل کے مقدمے میں پاکستان کے امیر ترین اور بارسوخ خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھنے والے ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی۔ عدالت نے اسے ریپ کا مرتکب بھی پایا اور اس کے لئے پچیس سال قید با مشقت اور دو لاکھ جرمانے کی الگ سے سزا سنائی۔ اس کے دو ملازمین کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی جب کہ والدین کو بری کر دیا گیا۔ظاہر جعفر نے جولائی 2021ءمیں نور مقدم کو اپنے گھر میں قید کرنے کے بعد انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔
پاکستانی عورتوں کے لئے ایک اچھی خبر جسٹس عائشہ ملک کا سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بننا ہے۔ خاتون وزیر اعظم، خاتون اسپیکر، خاتون وزیر خارجہ سے لے کر دیگر علیٰ عہدوں پر عورتوں کے فائز ہونے کے حوالے سے ہماری تاریخ بہت شاندار رہی ہے لیکن انسانی ترقی کی انڈیکس میں 184ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 154ہے۔ صنفی عدم مساوات کے حوالے سے تو صورتحال بے حد خراب ہے۔ پاکستان کی لیبر فورس میں عورتوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔
اس کی ایک وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔لڑکیوں کی حفاظت یا مالی پریشانیوں کے باعث والدین لڑکیوں کو اسکولوں سے اٹھا لیتے ہیں۔ جو تعلیم حاصل کر بھی لیتی ہیں، ان کی ملازمت کی راہ میں خاندانی روایات رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ جو ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں ،انہیں دفتری ذمہ داریوں اور گھریلو ذمہ داریاں ایک ساتھ نبھانی پڑتی ہیں،کیوںکہ ہمارے معاشرے میں مرد کا گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
اگر آپ کم آمدنی والی آبادی میں جا کے پوچھیں کہ عورت کیا چاہتی ہے تو وہ کہے گی، تین وقت کا کھانا اور بچوں کی پڑھائی۔ اگر اس کا شوہر بے روزگار ہے تو وہ گھر سے باہر نکلے گی اور لوگوں کے گھروں میں ملازمت کرنے لگے گی۔اقتصادی، سماجی اور سیاسی مسائل کی سب سے زیادہ ضرب غریب شہری اور دیہی عورتوں پر پڑتی ہے۔ اس لئے عورتوں کا عالمی دن مناتے ہوئے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صنفی مساوات کے حصول کے لئے پدرسری نظام کے ساتھ ساتھ طبقاتی نظام کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔
اس وقت حکومت کو پائیدار ترقی کے مقاصد کے حصول پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ حکومت نے بین ا لا قوامی سطح جو معاہدے اور وعدے کر رکھے ہیں، انہیں پورا کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ صنفی مساوات اور عورتوں کی اقتصادی خود مختاری کے لئے ایک سازگار ماحول پیدا کیا جائے۔صنفی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبے، پالیسیاں اور نظام بنائے جائیں۔ سرکاری اداروں تک عوام کی خاص طور پر عورتوں کی رسائی کو آسان بنایا جائے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد سے پاکستان کی عورتوں خاص طور پر شمال مغربی علاقے کی خواتین میں تشویش پائی جاتی ہے۔ہماری نیک خواہشات اپنی افغان بہنوں کے ساتھ ہیں اور ہم اُمید کرتے ہیں کہ جلد ہی وہ دن آئے گا جب دنیا بھر کی عورتیں ہر طرح کے تشدد سے آزاد ہو کر اقتصادی طور پر خود مختار ہو جائیں گی۔ اس پائیدار مستقبل کے لئے آج صنفی مساوات ضروری ہے۔