• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قبرستان اور قبر کے حوالے سے اسلامی آداب و تعلیامت

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

اسلام نے انسانوں کو جو حقوق دیئے ہیں، ان کا دائرہ بہت وسیع ہے، چنانچہ انسان جب شکم مادر میں ہوتا ہے، اس وقت سے ہی دین اسلام میں اس کے حقوق کا آغاز ہوجاتا ہے اور وفات پر یہ حقوق ختم نہیں ہوتے ،بلکہ وفات کے بعد بھی ان حقوق کا سلسلہ جاری رہتاہے۔انسان کے ان بنیادی حقوق میں سے غسل، کفن ،جنازہ اور دفن شامل ہیں۔

مسلمانوں کی تدفین کے لیے باقاعدہ قبرستانوں کا قیام ابتدائے اسلام سے چلا آرہا ہے ،دورِنبویؐ میں مکہ مکرمہ میں جنت المعلیٰ اور مدینہ منورہ میں جنت البقیع کے قبرستان قائم کیے گئے تھے، طبقات ابن سعد میں ہے کہ رسول کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو اپنے اصحابؓ کے لیے قبرستان کی تلاش میں تھے، آپ مدینے کے اطراف آئے اور فرمایا کہ مجھے اس جگہ کا حکم دیا گیا ہے، یعنی بقیع کا، چنانچہ یہ جگہ قبرستان کے لیے مختص کردی گئی، اس قبرستان میں سب سے پہلے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی تدفین ہوئی،ان کے علاوہ اکثر امہات المؤمنینؓ اور بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہاں مدفون ہیں۔ عہد نبوی کی تاریخ اوراحادیث مبارکہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم علیہ السلام اپنے اعزہ ،اقرباء اور قبیلے کے افراد کی تدفین بھی ان ہی عام قبرستانوں میں فرماتے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اموات کی تدفین کے لیے قبرستان مختص کرنا اسلامی ریاست اور حکمران وقت کی ذمہ داری ہے،اگر ریاست اس ذمہ داری کو نبھانے میں کردار ادا نہ کرے تو صاحب ثروت مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایسی جگہوں کا انتظام کریں۔

موجودہ دور میں شہری آبادی میں بالخصوص آبادی کی کثرت کی بناء پر جہاں دیگر مسائل درپیش ہیں، وہیں ایک مسئلہ قبرستانوں کا بھی ہے،اور ہر آتے دن یہ مسئلہ سنگینی اختیار کررہا ہے۔ ہمارے شہر کراچی کی آبادی کروڑوں میں ہے اور سرکاری سطح پر شہر میں قبرستانوں کی تعداد سو تک بھی نہیں پہنچتی، ان میں سے بیش تر قبرستان مکمل ہوچکے ہیں، ان میں مزید کسی تدفین کی گنجائش باقی نہیں ۔ مختلف کمیونٹیز اور جماعتوں نے شہر سے باہر اراضی خرید کر اپنے لیے قبرستانوں کاانتظام کیا ہے، لیکن ان قبرستانوں میں تدفین کی اجازت متعلقہ کمیونٹی اور جماعت ہی کے افراد کو حاصل ہے۔عام شہری اپنی اموات کی تدفین کے لیے بدستور پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔

شہروں میں موجود قبرستانوں میں تدفین کی گنجائش نہ ہونے کے باجود وہاں کا عملہ آنے والے افراد کے لیے گنجائش پیدا کردیتا ہے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ گنجائش درست ہے یا نہیں؟ ان قبرستانوں میں بسااوقات قبر لواحقین کو بڑی مہنگی پڑتی ہے، بعض قبرستانوں میں ایک قبر لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک میں دستیاب ہوتی ہے، بعض معروضی حالات میں یہ رقم بڑھتی رہتی ہے اور کہیں اس سے کم و بیش رقم اداکرنی پڑتی ہے، یوں مجبور افراد کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ 

غریب اور متوسط طبقہ تدفین کے موقع پر بھی رقم کے انتظام میں پریشان و سرگرداں رہتا ہے، اور قبرستانوں کا عملہ اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے، کیوں کہ لواحقین کے پاس اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں ہوتی، اس طرح مسلمان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا شدید ترین جرم اور گناہ کبیرہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ گنجائش اکثر وبیش تر پرانی قبر کو کھود کر پیداکی جاتی ہے، اور ایسی قبور کہ جن کے لواحقین دیکھ بھال کے لیے نہیں آتے، وہ قبریں اس گنجائش کانشانہ بنتی ہیں۔

یہ ایک اہم شرعی مسئلہ ہے، شریعت میں اس طرح ہر قبر کے بارے میں یہ اجازت نہیں کہ اسے کھود کر اس میں نئی میت داخل کی جائے، بلکہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر اس بات کا یقین ہو کہ قبر میں میت کی ہڈیاں بوسیدہ ہو کر مٹی ہو چکی ہوں گی ، تو اس صورت میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس قبر کو کھود کر اس میں نئی میت کو دفن کرنا جائز ہوگا، اگر سابقہ میت کی ہڈیاں وغیرہ کچھ قبر میں موجود ہوں تو انہیں قریب ہی دفن کردیا جائے یا اسی قبر میں ایک طرف علیحدہ کر کے ان ہڈیوں اور جدید میت کے درمیان مٹی کی آڑ بنادی جائے، لیکن اگر قبر اتنی پرانی نہ ہو کہ سابقہ میت بالکل مٹی ہوچکی ہو تو پھر اس قبر کو کھود کر اس میں دوسری میت کو دفنانا جائز نہیں ہوگا۔

ایسی صورت میں قبرستان میں جگہ تنگ ہونا عذر نہیں ہوگا، بلکہ کسی دوسرے قبرستان یا متبادل جگہ کا انتظام کرکے اس میں میت دفن کی جائے۔ ہمارے ہاں اس مسئلے کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ پچھلے دنوں مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ ان کی والدہ کے انتقال کو ابھی چند سال ہی گزرے ہیں ،اور ابھی بھائی کاانتقال ہوگیا، ہم نے اسی قبرستان میں جہاں والدہ مدفون ہیں، جگہ تلاش کی ، کوئی جگہ موجود نہیں تھی، بالآخر والدہ مرحومہ کی قبر کشائی کرکے ان کی باقیات کو ایک طرف کرکے وہیں بھائی کو دفن کردیا۔ یہ بات جہاں دین سے نادانی بتاتی ہے، وہیں متعلقہ حکام کی غفلت اور لاپروائی کا شاخسانہ بھی ہے۔ لہٰذا ان احکامات کو سمجھ کر ان کے مطابق قبور کا انتظام یہ مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس طرح سابقہ میتوں کی بے حرمتی کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں۔

قبرستانوں میں جگہ کی عدم موجودگی کی بناء پر ایک صورت آج کل یہ نکالی گئی ہے کہ ایک قبر پر منزل بنا کر دوسری قبر بنائی جارہی ہے، حالانکہ شرعی طور پر قبر کے لیے زمین کی ظاہری سطح کو کم از کم انسان کی آدھی قد و قامت کے بقدر گہرا کھود کر بنانا ضروری ہے، اس لیے زمین کے اوپر پہلے سے موجود پرانی قبر پر منزل بنا کر اس میں مردے کو رکھنا قبر میں دفنانا نہیں کہلائے گا، بلکہ دیوار میں چننا کہلائے گا،جو کہ تدفین کا مسنون طریقہ نہیں ، اس لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سے بھی مسلمانوں کو اجتناب کرنا لازم ہے۔

موجودہ قبرستانوں کی حالت زار بھی انتہائی قابل توجہ ہے، وہاں گندگیوں کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں، مختلف جانور گھوم رہے ہوتے ہیں، بارشوں کی صورت میں نکاسی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کئی قبریں بیٹھ جاتی ہیں،یہ ایک اذیت ناک صورت حال ہے۔ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے شرعی طور پر ریاست اور متعلقہ محکموں کو اس طرف بطور خاص توجہ دینی چاہیے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے ، قبرستان کے لیے اراضی مختص کرنی چاہیے ، تاکہ غم کی گھڑی میں میت کے لواحقین ،بطور خاص شہر کا غریب اور متوسط طبقہ دربدر کی ٹھوکریں نہ کھائے اور قبرستانوں کا عملہ کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔

ساتھ ساتھ قبر کے اخراجات بھی حکومت کی جانب سے مقرر ہونے چاہئیں، تاکہ مافیا تدفین کو اپنے لیے ناجائز آمدنی کا ذریعہ نہ بناسکےاور اگر حکومت ان امور پر توجہ نہیں کرتی تو صاحب خیر مسلمانوں کو آگے بڑھ کر دیگر خیر کے کاموں کی طرح اس معاملے میں بھی شہر کی عوام کے لیے سہولت پیدا کرنی چاہیے، اور عام لوگوں کے لیے ایسی اراضی کا انتظام کرنا چاہیے، جہاں وہ سہولت کے ساتھ اپنی اموات کو سپردِ خاک کرسکیں۔

اقراء سے مزید