• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا عصمت اللہ نظامانی

اسلام میں صفائی ستھرائی اور نظافت کی بہت اہمیت ہے، یہ کہ انسان کے جسم اور کپڑوں کی پاکی اور ظاہری نظافت ہو، یا قلب وذہن کو برے خیالات سے، زبان کو بدگوئی، نظر کو بدنظری سے بچانا اور باطنی پاکی ہو، ہر قسم کی نظافت اور اس سے متعلق احکام وضاحت سے بیان کیے گئے ہیں، کیونکہ اسلام ایک دینِ فطرت ہے، انسان کی اُخروی زندگی کے ساتھ دنیوی زندگی کامیاب اور خوش گوار بنانے کے تمام بنیادی احکام بیان کیے ہیں، چنانچہ جس طرح عقائد و عبادات سے متعلق احکامات تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، اسی طرح معاشرت سمیت دین کے دیگر شعبوں کے احکام بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، اورصفائی اور نظافت بھی ان میں سے ایک حکم ہے۔

نظافت وپاکی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے، اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ذیل میں اس نظامِ صفائی کے ایک شعبے اور حصے یعنی راستوں کی نظافت وصفائی کی اہمیت تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں اُجاگر کی جارہی ہے، کیونکہ گلی کوچوں اور راستوں کی صفائی ایک صحت مند قوم کی علامت اور ضمانت ہے۔

راستے سے تکلیف دہ اشیاء ہٹانا صدقہ ہے

راستے سے تکلیف دہ چیزیں، جیسے: کانٹے، کانچ اور شیشے کے ٹکڑے، پھلوں کے چھلکے، اور کوڑا کرکٹ وغیرہ جس سے گزرنے والوں کو تکلیف واذیت ہوتی ہو، ایسی تکلیف دہ اشیاء ہٹانا ایمان کا حصہ اور ایک قسم کا صدقہ ہے، چنانچہ بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے:’’یعنی راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے۔‘‘( صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسير، باب من أخذ بالرکاب ونحوہ (۴/۵۶)

راستے سے اذیت دینے والی چیز ہٹانے کا نبوی حکم

حضرت ابوبرزہ ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ایسا عمل سکھائیے جس سے میں نفع اٹھاؤں، حضورﷺنے فرمایا:’’

’مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹاؤ۔‘‘ ( صحيح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن الاشارۃ بالسلاح الیٰ مسلم، (۴/۲۰۲۱)

راستے سے کانٹے دار جھاڑی ہٹانے پر مغفرت

حضرت ابو ہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں: ایک آدمی راستے میں چل رہا تھا کہ وہاں کانٹے دار جھاڑی دیکھی تو اسے راستے سے ہٹادیا، اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ (سنن الترمذی، أبواب البر والصلۃ، باب ما جاء فی إماطۃ الأذي عن الطريق، (۳/۴۰۵)

راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ایک اچھا عمل

حضرت ابو ذر غفاریؓ حضوراکرمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں: مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے دونوں قسم کے اعمال پیش کیے گئے، تو تکلیف دینے والی چیز راستے سے ہٹانا اچھے اعمال میں دیکھا تھا، اور برے اعمال میں یہ بھی دیکھا کہ تھوک مسجد میں پھینکا جائے، اور اسے دفن نہ کیا جائے۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الأدب)

راستوں پر گندگی کرنا قابلِ لعنت عمل ہے

ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لعنت کا سبب بننے والی دو چیزوں سے بچو، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ وہ کون سی دو چیزیں ہیں؟ حضور ﷺنے فرمایا: لوگوں کے راستے میں یا کسی (بیٹھنے کی) سایہ دار جگہ میں بول وبراز کرنا۔ ( صحيح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن التخلي فی الطرق والظلال، (۱/۲۲۶)

گھر کے سامنے والے حصے کی نظافت کا حکم

بعض لوگ گھر کی صفائی کرکے کوڑا کرکٹ گھر سے باہر گلی میں ڈال دیتے ہیں، حضور اکرمﷺ نے اس سے ممانعت فرمائی ہے، اور اسے اس زمانے کے یہود کا فعل کہا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: اپنے گھروں کے سامنے والے حصے کی صفائی کیا کرو، یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو، کیونکہ وہ گھر کے سامنے والے حصے کی صفائی نہیں کرتے۔(۶- سنن الترمذی، أبواب الأدب، باب ما جاء فی النظافۃ، (۴/۴۰۹)

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ راستوں کی صفائی اور نظافت کا لحاظ نہ رکھنے سے معاشرے میں بہت سی بےاعتدالیاں جنم لیتی ہیں، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، سماج پر ہر اعتبار سے اس کے برے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ 

جسمانی بیماریاں، اعصابی امراض، ذہنی تناؤ اور تھکاوٹ، طبیعت پر بوجھ اور ان جیسے دیگر امراض کی اہم وجہ اگر گلی کوچوں کی گندگی اور راستوں پر پڑے کوڑے کے ڈھیر وغیرہ کو قرار دیا جائے تو بےجا نہیں ہوگا۔ اسی وجہ سے حضور اکرمﷺ نے بھی نہایت تفصیل اور وضاحت سے راستوں کی نظافت وصفائی کی اہمیت بیان کی ہے۔

اس نظافت کا فائدہ کسی ایک طبقے کو نہیں، بلکہ تمام معاشرے کو ہوگا، ایک طرف انسان جسمانی اور ذہنی اعتبار سے تندرست وصحت مند رہے گا، تو دوسری طرف دیگر اقوام کی نظروں میں ایسے معاشرے کا مقام ومرتبہ بلند ہوگا، لہٰذا ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ راستوں کی نظافت میں اپنا حصہ ڈالے، اور اس کارِ خیر میں عملی طور پر شریک ہو۔

بالخصوص عیدالاضحی کے ایّام میں یہ ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے، ان دنوں قربانی کے جانوروں کی خریداری کے بعد انہیں گلی محلوں اور گھروں میں باندھا اور رکھا جاتا ہے، بعض لوگ جانور تو کلی کوچوں میں باندھ دیتے ہیں، مگر گوبر وغیرہ کی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتے، جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، ایک مسلمان جہاں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے قربانی جیسے عظیم فریضے کی بجاآوری کرکے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے، وہاں اسے حقوق العباد کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ راستوں کی صفائی ستھرائی میں غفلت کرکے ایذائے مسلم کا سبب نہ بنے۔

اسی طرح عید کے دنوں میں جب قربانی کی جائے، جانور ذبح کیا جائے، اس موقع پر بھی جانور کا خون، ہڈیاں، آلائشیں، اوجھڑیاں وغیرہ راستوں میں نہ پھینکی جائیں، تاکہ آنے جانے والوں کو تکلیف نہ ہو، ان دنوں میں خاص طور پر صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پاکیزگی، صفائی ستھرائی، گلی محلوں کو صاف ستھرا رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)

اقراء سے مزید