کراچی کوایک بین الاقوامی شہر ہونے کے ناطے اس خطے میں اس شہر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ کے اعتبار سے اس شہر کو پاکستان کے دوسرے شہروں پر امتیاز حاصل ہے۔ سمندر کے ذریعے پاکستان کے ساتھ ساتھ برادر اسلامی ملک افغانستان‘ روس‘ وسطی ایشیائی ریاستوں (ازبکستان‘ تاجکستان وغیرہ) کے لیے یہ بندرگاہ اور راستہ محفوظ اور آسان تصور کیا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر اسی بندرگاہ کے ذریعے تجارتی سامان کی درآمدات و برآمدات کی جاتی ہیں۔
کراچی اپنا ایک تاریخی پس منظر بھی رکھتا ہے۔ یہاں دو سو سال پرانی تاریخی عمارات کے ساتھ ساتھ جدید عمارات بھی ہیں۔ قدیم باغات کے ساتھ نئے اور جدید طرز پر قائم باغات بھی ہیں۔ کراچی شاندار تعلیمی اور سیاسی پس منظر کا حامل شہر بھی ہے۔ شعر و ادب‘ صحافت‘ عبادت گاہوں اور تہذیب و ثقافت سے مالا مال ہے۔
یہ جہاں ایک مشہور تجارتی شہر کی حیثیت رکھا ہے وہیں یہ صنعتی طور پر بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سمیت تمام ملکی اور غیر ملکی بنکوں کے مرکزی دفتر (ہیڈ آفس) اسی شہر میں واقع ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج‘ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ پاکستان فیڈریشن آف کامرس اینڈ انڈسٹری بھی اسی شہر میں واقع ہیں۔
کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے دنیا کے تمام ممالک کا سفر آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ کم و بیش دنیا کے تمام ممالک کے سفارتخانوں کے دفاتر بھی یہاں موجود ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے سیاحوں‘ تجارتی وفود‘ صنعتکاروں اور بزنس سے وابستہ افراد کے لیے یہ شہر انتہائی کشش کا حامل ہے اور یہاں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیےاس کی ترقی ناگزیر ہے۔
کراچی کی اس ترقی کے سفر میں یہاں کی سڑکوں او رآمد و رفت کی سہولتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ابتداء ہی سے یہاں سڑکوں کے ساتھ جہاں جہاں ریلوے لائن تھی یا آبی گزرگاہ تھی ان کے اوپر ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے پُل تعمیر کیے گئے جن میں کلفٹن پُل‘ پی آئی ڈی سی پُل‘ کالا پُل‘ تین ہٹی پُل‘ میوہ شاہ پُل اور سمندر کے کنارے نیٹی جیٹی پُل شامل ہیں۔ جوں جوں کراچی کی آبادی بڑھتی گئی کراچی کی سڑکیں اور پُل بھی ٹریفک کا دباؤ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے اور ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہونا شروع ہوگئی۔
15اپریل 1985ء کو کراچی میں ایک ایسا اہم واقعہ پیش آیا جس نے کراچی میں فلائی اوورز اور انڈرپاسز کی تعمیر کو دو چند کرکے رکھ دیا بلکہ ارباب حکومت کو سڑکوں اور پُلوں سے بھی آگے سوچنے پر مجبور کردیا۔ اس روز ناظم آباد چورنگی پر دو تیز رفتار بسوں نے آپس میں ریس لگاتے ہوئے سرسید گرلز کالج کی چند طالبات کو کچل دیا جن میں ایک طالبہ بشریٰ زیدی اس حادثہ میں جاں بحق ہوگئی۔
اس حادثے کے پیش نظر ناظم آباد چورنگی پرپُل یا فلائی اوور کی کمی محسوس کی گئی بعد ازاں کراچی کے پہلے فلائی اوور کی تعمیر کا آغاز ناظم آباد چورنگی پر کیا گیا۔ یہ کراچی کی تاریخ کا پہلا فلائی اوور تھا جو چھ سال کی مدت میں مکمل ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھا اور آنے والے وقت میں کراچی کے مختلف مقامات پر فلائی اوور بننا شروع ہوگئے۔ اب تک شہر کے مختلف مقامات پر 43 فلائی اوورز اور 9 انڈرپاسز تعمیر کئے جاچکے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی میں بہتری کے ساتھ ساتھ کراچی کو جدید ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی ہے۔
کوریڈور کی تعمیر
کراچی کا پہلا کوریڈور ایئرپورٹ سے سائٹ تک تعمیر کیا گیا تھا جس پر 2 ارب 10 کروڑ روپے کی لاگت سے 2007 ء میں تعمیر کیا گیا ، جس کے بعد اس علاقے کا پچاس سالہ مشکلات کا دور ختم ہوا، شارع فیصل سے سائٹ ایریا تک تقریباً 10.5 کلو میٹر طویل سگنل فری کوریڈور کو چھ سے سات ماہ میں مکمل کیا گیا ، اس میں تین فلائی اوورز اور تین انڈرپاسز بنائے گئے، اس کی تکمیل کے دوران یوٹیلیٹی کے مختلف اداروں کی لائنوں کو بھی ازسرنو ترتیب دیا گیا تھا۔
اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے ناظم آباد انڈرپاس پر سگنل فری کوریڈور کے چھ میگا پروجیکٹس کا باقاعدہ افتتاح کیا، صرف آٹھ ماہ اور 20 دن میں یہ کوریڈور مکمل ہوا اس سے قبل صرف منصوبہ پانچ سے چھ سال کی مدت میں مکمل ہوا کرتا تھا،سگنل فری کوریڈور کی تعمیر کے بعد شارع فیصل تا سائٹ کا سفر جو پہلے کئی گھنٹوں میں طے ہوتا تھا اب پندرہ سے بیس منٹ میں طے ہونے لگا، اس کوریڈور میں تین فلائی اوورز تعمیر کئے گئے۔
حبیب رحمت اللہ روڈ فلائی اوور
اس روڈ پر تعمیر ہونے والے فلائی اوورپر کام کا آغاز 2006ء میں ہوا اور 170 ملین روپے کی لاگت سے پہلا فیز 21 دسمبر 2006 ء کو مکمل کرلیا گیا، دو لائن کے اس فلائی اوور کی لمبائی 250 میٹر ہے جبکہ ہر حصے کی چوڑائی 7.30 میٹر ہے، پل کی لمبائی جو شارع فیصل سے گزرتا ہے 68 میٹر ہے ، 56 بجلی کھمبے اور 1200 کیٹ آئی ، 3 ہزار 300 میٹر لین مارکنگ کی گئی ہے جس سے حبیب اللہ رحمت روڈ پر ٹریفک جام سے نجات ملی ہے۔
نیشنل اسٹیڈیم فلائی اوور
اس کوریڈور کا دوسرا منصوبہ نیشنل اسٹیڈیم فلائی اوور کا ہے جس پر ترقیاتی کام کا آغاز اپریل 2006 ء میں ہوا تھا اور 15 نومبر2006 ء کو یہ منصوبہ مکمل کیا گیا ، 448 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس فلائی اوور کی لمبائی 760 میٹر ہے، 210 میٹر پل کا حصہ ہے، اس فلائی اوور پر 175 بجلی کے کھمبے نصب ہیں ،3 ہزار 370 کیٹ آئی لگائی گئی ہیں، دو لین کے ایک حصے کی چوڑائی ساڑھے 7 میٹر ہے۔
حسن اسکوائر فلائی اوور
سگنل فری کوریڈور کا تیسرا منصوبہ حسن اسکوائر فلائی اوور ہے ۔یہ 497 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا تھا۔ تعمیراتی کام کا آغاز 10 جون 2006 ء کو ہوا۔ 31 دسمبر 2006 ء کو یہ منصوبہ ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا، اس کوریڈور کو انتہائی مختصر عرصے میں مکمل کیا گیا جو پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں کی تاریخ میں ایک مثال ہے۔تین لائنوں کے اس فلائی اوور میں 550 میٹر طویل برساتی پانی کی نکاسی کا نظام بھی ڈالا گیا ہے۔
کوریڈور II کی تعمیر
شہر کراچی کی مصروف ترین سڑکوں اور شاہراہوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد شہری انتظامیہ نے متعدد مقامات پر فلائی اوورز اور بعض جگہوں پر انڈرپاسز کی ضرورت محسوس کی اور کوریڈور I کے تجربات کی روشنی میں سرجانی ٹائون تا شارع فیصل ایک اور انتہائی اہم کوریڈور کا انتخاب کیا گیا اور اسے سگنل فری کوریڈور کا نام دے کر تیز رفتاری اور جانفشانی کے بعد کام کا آغاز کیا گیا، مجموعی طور پر مختلف چورنگیوں پر 5 فلائی اوورز اور ایک انڈرپاس سمیت کئی جدید یوٹرنز تعمیر کئے گئے،ر اس منصوبے پر 4 ارب روپے لاگت آئی اور ایک سال کی مدت میں یہ ساڑھے 19 کلو میٹر طویل راستے کو سگنل فری کردیا گیا۔
کوریڈور II میں بننے والے پانچ فلائی اوورز کا باقاعدہ ا فتتاح 9 اکتوبر 2008ء کو گورنر ہائوس کے سبزہ زار پر ایک پرشکوہ اور پروقار تقریب میں کیا گیا،اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان اور ناظم کراچی سید مصطفی کمال کے علاوہ غیرملکی سفارت کار، تاجر و صنعت کار ، صوبائی وزراء، ممبران اسمبلی، ٹائون ناظمین اور معززین شہر کی ایک کثیر تعداد موجود تھی، کوریڈور بننے سے اس راستے پر سفر جو کم و بیش دو گھنٹے کا ہوا کرتا تھا 15سے 20منٹ کا رہ گیا اور کراچی کی ایک بڑی آبادی کو ٹریفک جام سے نجات ملی اور اس کوریڈور پر شہریوں کو سفر کی سہولتیں دستیاب ہوئیں۔ اس کوریڈور پر بننے والے پانچ فلائی اوورز کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
ناگن چورنگی فلائی اوور
اس چورنگی پر ایک دو سطحی فلائی اوور تعمیر کیا گیا ہے ۔ انڈا موڑ کی جانب 211میٹر طویل ایک ریمپ بھی اس کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے۔ اس منصوبے پر 498ملین روپے لاگت آئی ہے۔ اس کے پہلے لیول کے پُل کی لمبائی 287میٹر اور دوسرے لیول کے پُل کی لمبائی 561میٹر بنتی ہے۔ لیولIIسے انڈہ موڑ کی جانب پُل کی لمبائی 211میٹر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس فلائی اوور سے روزانہ دو لاکھ گیارہ ہزار کے قریب گاڑیاں گزرتی ہیں۔ جن میں پبلک ٹرانسپورٹ اور پرائیویٹ گاڑیاں شامل ہیں۔ ناگن چورنگی کراچی کا اہم اور انتہائی مصروف چوراہا ہے ۔ یہاں فلائی اوور تعمیر کرنے سے مختلف علاقوں سے آنے اور جانے والے شہریوں کے ٹریفک کے مسائل کافی حد تک دور ہوئے ہیں اور علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سہراب گوٹھ فلائی اوور
سہراب گوٹھ کے مقام پر چارلین کا خوبصورت فلائی اوور تعمیر کیا گیا ہے جس میں دونوں جانب لوپس بنائے گئے ہیں اور ایک انڈر پاس بھی اس فلائی اوور کا حصہ ہے۔ اس کی دونوں جانب لمبائی 100میٹر ہے۔ تعمیر پر 580ملین روپے لاگت آئی ہے۔ یہ فلائی اوور ایک ایسے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں کراچی سے بڑی تعداد میں گاڑیاں اندرونِ ملک روانہ ہوتی ہیں اور کراچی آنے کے لیے یہ مقام گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے۔
گلشن چورنگی فلائی اوور
علامہ شبیر احمد عثمانی روڈ پر واقع گلشن چورنگی پر چار لین پر مشتمل فلائی اوور تعمیر کیا گیا جس پر 455 ملین روپے لاگت آئی۔ فلائی اوور کی کُل لمبائی 208 میٹر ہے جبکہ اس کے دونوں جانب 200میٹر لمبے ریمپس دیے گئے ہیں۔ گلشن چورنگی فلائی اوور پر یونیورسٹی روڈ کی جانب ایک یو ٹرن بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
جامعہ کراچی اور این ای ڈی یونیورسٹی جانے کے لیے طلباء و طالبات کو اس فلائی اوور بننے کے بعد ٹریفک جام سے نجات ملی ہے اور وہ بروقت یونیورسٹی پہنچ جاتے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ سے مختلف علاقوں میں جانے والے شہریوں کو بھی اس فلائی اوور کے بننے کے بعد سہولت میسر آئی ہے۔ حال ہی میں یونیورسٹی روڈ کو صفورہ گوٹھ کے ذریعے ملیر کینٹ کے سامنے سے گزرنے والی شاہراہ سے ملا دیا گیا اور اس شاہراہ کے ذریعے شہری سپر ہائی وے بھی باآسانی جا سکتے ہیں۔
جوہر موڑ فلائی اوور
کراچی کے علاقع راشد منہاس روڈ پر تعمیر ہونے والا جوہر موڑ فلائی اوور تین لین پر مشتمل ہے اس کی لمبائی 207میٹر اور دونوں جانب ریمپس کی لمبائی 235 میٹر ہے ۔ یہ فلائی اوور 250 ملین روپے کی رقم سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر اکتوبر 2007ء میں شروع کی گئی اور فروری2008ء کے آخر میں مکمل کر لیا گیا۔ جس مقام پر یہ فلائی اوور تعمیر کیا گیا ہے وہاں سے روزانہ تقریباً ایک لاکھ 52ہزار کے لگ بھگ گاڑیاں گزرتی ہیں۔
ملینیم مال فلائی اوور
راشد منہاس روڈ کو سگنل فری کرنے کے لیے ملینیم مال کے چوراہے پر بھی فلائی اوور کی تعمیر ضروری تھی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 250ملین روپے کی لاگت سے تین لین پر مشتمل فلائی اوور تعمیر کیا گیا۔ فلائی اوور کی کُل لمبائی 265میٹر ہے جبکہ دونوں جانب کے ریمپس کی لمبائی 334میٹر ہے۔ یہ منصوبہ بھی ایک سال کی ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا اور فروری 2008ء میں ملینیم مال فلائی اوور مکمل کر لیا گیا۔
ان فلائی اوورز کو تعمیر کرتے وقت یوٹیلیٹی سروسز جن میں پانی‘ بجلی ‘ گیس اور سیوریج سسٹم شامل ہے انہیں سڑک کی ایک جانب منتقل کیا گیا۔ فلائی اوورز کے ارد گرد نکاسی آب کا خصوصی انتظام کیا گیا جس کے لیے خصوصی طور پر چینی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے پری کاسٹ نالے تیار کیے گئے جس پر بھاری لاگت آئی۔ اگر یہ نالے تعمیر نہ کیے جاتے تو بارش اور سیوریج کے پانی کے باعث یہ منصوبے متاثر ہونے کا خطرہ تھا۔
بعض مقامات پر پانی اور سیوریج کی پوری لائنیں تبدیل کی گئیں۔ اسی طرح سڑک کے اطراف سٹورم واٹر ڈرین سسٹم نے مستقبل میں یہاں بارش کا پانی کھڑا ہونے سے سڑک تباہ ہونے کے امکانات کو بھی ختم کر دیا ہے۔ان فلائی اوورز کے راستے میں بننے والی سڑکوں پر کیٹ آئیز لگانے سے گاڑی چلانے والے افراد کو سہولت میسر آتی ہے۔ سڑک عبور کرنے کے لیے مناسب فاصلے پر پیڈسٹرین برج نصب کیے گئے ہیں تاکہ تیز رفتار ٹریفک کے باعث شہری حادثات کا شکار نہ ہوں۔
سفری سہولیات کے لیے سگنل فری کوریڈورز کے تجربات کامیاب ثابت ہوئے۔ شہری انتظامیہ کے علاوہ دیگر اداروں نے بھی کراچی میں فلائی اوورز تعمیر کیے ہیں ان میں پاکستانی اسٹیل کی جانب سے قائد آباد ریلوے اوور ہیڈ 1991ء میں فلائی اوور بنایا گیا۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے گل بائی فلائی اوور 2005ء میں اور شیر شاہ فلائی اوور2007ء میں تعمیر کیے۔ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی کی جانب سے لانڈھی میں یونس چورنگی فلائی اوور2007ء میں مکمل کیا۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے ایم ٹی خان روڈ فلائی اووراور کے پی ٹی فلائی اوور انٹرچینج بھی 2007ء میں مکمل کیے گئے۔ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کی جانب سے گزری فلائی اوور 2010ء میں مکمل کیا گیا جو کراچی میں بننے والے فلائی اوورز میں سب سے طویل ہے جبکہ سائٹ ایسوسی ایشن نے حبیب بینک چورنگی پر فلائی اوورکی تعمیر کو 2011ء میں ممکن بنایا۔
اسی طرح شاہراہ پاکستان پر 2012ء میں بیک وقت 4فلائی اوورز تعمیر کرنے کے لیے کاموں کا آغاز کیا۔ ان میں تین ہٹی فلائی اوور‘ ڈاکخانہ فلائی اوور‘ عائشہ منزل فلائی اوور اور واٹر پمپ فلائی اوور شامل تھے جو تیزی سے مکمل کئے جاچکے ہیں اور ان پر ٹریفک رواں دواں ہے، کراچی کی مرکزی گزر گاہ شاہراہ فیصل جو 29 کلومیٹر طویل ہے اور ایئرپورٹ روڈہونے کے باعث 24گھنٹے اس شاہراہ پر ٹریفک کی آمد و رفت جاری رہتی ہے اس شاہراہ پر اب تک 10فلائی اوور تعمیر کیے جاچکے ہیں۔
ان میں ریجنٹ پلازہ فلائی اوور‘ FTCفلائی اوور ‘ نرسری فلائی اوور‘ ٹیپو سلطان فلائی اوور‘ بلوچ کالونی فلائی اوور ‘کارساز فلائی اوور‘ پی اے ایف بیس فلائی اوور‘ ڈرگ روڈ فلائی اوور‘ کالونی گیٹ فلائی اوور‘ جناح ٹرمینل فلائی اوور شامل ہیں ، اسی طرح نارتھ ناظم آباد میں وفاقی حکومت کے تعاون سے تین فلائی اوورز بیک وقت تعمیر کئے گئے ان میں کے ڈی اے چورنگی فلائی اوور، فائیو اسٹار چورنگی فلائی اوور، سخی حسن چورنگی فلائی اوور شامل ہیں۔
ان فلائی اوورز کا باقاعدہ افتتاح یکم مارچ 2020 ء کو اس وقت کے میئر وسیم اختر کے ہمراہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کیا تھا، ان فلائی اوورز کے بننے کے بعد شاہراہ شیر شاہ سوری پر ٹریفک جام سے شہریوں کو نجات ملی اور ٹریفک کا نظام خاصا بہتر ہوا ، ملیر کینٹ اور ملیر15پر بھی دو فلائی اوورز تعمیر ہوئے ہیں اس طرح کراچی میں مجموعی طور پر 46فلائی اوورز تکمیل کے مراحل طے کرچکے ہیں اور شہر یوں کو سفری سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں گرین لائن بس ریپڈ سسٹم کے لئے بھی کوریڈور کا فیز ون مکمل کرلیا گیا ہےکیا گیا، متعدد چوراہوں اور راستوں پر ابھی مزید فلائی اوورز تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کو بلارکاوٹ سفری سہولیات میسر آئیں، دیکھتے ہیں کہ کب ان مقامات پر فلائی اوورز اور انڈرپاسز تعمیر ہوتے ہیں۔