• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط لکھ دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس اکٹھے نہیں سنے جا سکتے، سپریم کورٹ بار کی ہفتے کے روز درخواست کی سماعت میں صدارتی ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا گیا۔

چیف جسٹس کے نام خط میں انہوں نے کہا ہے کہ حیران ہوں کہ جو ریفرنس دائر ہی نہیں ہوا تھا اسے مقرر کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے، یہ بات قابلِ فہم ہے کہ بار کی درخواست آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر ہوئی، اس پر عدالت حکم دے سکتی ہے۔

خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ درخواست کے ساتھ ریفرنس کو یکجا کر کے کیسے سنا جا سکتا ہے؟ درخواست 184/3 کے اختیارِ سماعت کے تحت سنی جا رہی ہے جبکہ ریفرنس مشاورتی اختیارِ سماعت ہے، درخواست اور ریفرنس دونوں سپریم کورٹ کا الگ الگ اختیارِ سماعت ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ایک ہی بینچ 2 مختلف اختیارِ سماعت میں بیک وقت سماعت نہیں کر سکتا، آئینی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے بینچ بنایا گیا ہے، بار کی درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ میں چوتھے، آٹھویں اور تیرھویں نمبر کے فاضل ججز کو شامل کیا گیا ہے۔

خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ایسا کر کے آپ نے اپنے سابق چیف جسٹس کی روایت سے پہلو تہی کیا، اہم آئینی معاملات کی سماعت میں سابق چیف جسٹس نے چیف جسٹس کے بینچ تشکیل دینے کا صوابدیدی اختیار طے کیا ہے، سابق چیف جسٹس نے طے کیا کہ سینئر ججز پر مشتمل بینچ سماعت کرے گا۔

ان کا چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئے خط میں کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا معاملہ جس پر پوری قوم سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ وہ اپنے فرائضِ منصبی میں ذاتی مفاد کو ملحوظ نہیں رکھے گا، کہاوت ہے کہ انصاف ناصرف ہو بلکہ ہوتا نظر بھی آئے، کہاوت کا ذکر ججز کے ضابطۂ اخلاق میں پانچویں نمبر میں بھی درج ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے رولز کے مطابق بینچ کی تشکیل کا اختیار شفاف مبنی برانصاف اور قانون کے مطابق استعمال کرنا ہے، جناب چیف جسٹس صاحب! کئی مرتبہ آپ کو تحریری طور پر مطلع کر چکا ہوں،ایک بیورو کریٹ کو وزیرِ اعظم ہاؤس سے درآمد کر کے رجسٹرار تعینات کیا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئے خط میں انہوں نے مزید کہا ہے کہ عام تاثر ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا مقدمہ کس بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہو، میری رائے میں رجسٹرار کی تقرری عدلیہ کے انتظامیہ سے الگ ہونے کے آئینی اصول کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو لکھے گئے خط میں کہنا ہے کہ جناب چیف جسٹس صاحب! یہ خط لکھتے ہوئے میں نے دو مرتبہ سوچا، تاہم آئین کے آرٹیکل 175/3 اور 180 میں آئین سینئر ترین جج کا ذکر کرتا ہے۔

خط میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سینیارٹی ذمے داری بھی عائد کرتی ہے، سینئر ججز سپریم کورٹ کا بطور ادارہ تسلسل ہوتے ہیں، جہاں تک مجھےعلم ہے کہ آپ کےتمام سابق چیف جسٹس سینئر ترین جج سے مشاورت کرتے تھے، چیف جسٹس صاحب! آپ نے اس روایت کو بھی ختم کر دیا جس کے ادارے پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔

قومی خبریں سے مزید