• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار عشروں پر مشتمل جنگ اخبار سے جڑا پہلا ادبی نام رئیس امروہوی کا ہے۔ جنگ دہلی سے آغاز قطعہ کیا، جبکہ جنگ کراچی سے اختتام قطعہ ، زندگی کے اختیام کے ساتھ ہوا۔رئیس امروہوی نے قطعے کو وہ معنویت عطا کی کہ بقول محمدعلی صدیقی کے، ’’چار مصرعوں میں نکتہ پیدا کرنا، بات نکالنا، طنز کرنا، مسکرا کے نشتر چبھونا اور ساتھ ہی کہنا کہ آپ کو تکلیف تونہیں ہوئی، رئیس کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے۔‘‘روزانہ ایک قطعہ تحریر کرتے، تادم مرگ یہ مشق سخن جاری رہی۔ 23 ؍ستمبر 1988 کی شام وہ اپنے گھر میں جنگ کے لئے قطعہ لکھ رہے تھے کہ انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس قطعہ پر ان کے خون کے چھینٹے تھے۔

رئیس امروہوی کو سیاسی قطعہ نگاری کا باوا آدم کہاجاتا تھا۔ بقول شورش کاشمیری مرحوم، ان کے چار مصرعوں نے بڑے بڑے گنبدوں کو پیوند زمین کیا، شاید ہی قومی و بین الااقوامی سماجی و سیاسی زندگی کا کوئی اہم گوشہ، کوئی توجہ طلب نکتہ، کوئی دور رس اور چونکا دینےوالا واقعہ ان کے قلم کے زد سے بچا ہو۔ فکر و نگارش کا یہ سلسلہ تاحیات جاری رہا۔ بقول رئیس امروہوی کے ’’اردو ادب و شعر کے ذخیرہ نادرات میں میرے قطعات کو کہاں اور کہا جگہ ملے گی، اس بارے میں مجھے فکر مند ہونےکی ضرورت نہیں، میرا فرض تولکھنا ہے صرف لکھنا، کبھی روشنائی سے، کبھی قطرہ اشک سے، کبھی خون جگرسے؎

لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایات زندگی

آرائش کتاب بشر کررہے ہیں ہم

رئیس امروہوی پاکستانی سیاست اور ملک کے روز و شب کا احوال اپنے قطعات میں قارئین کے سامنے پیش کرتے۔ ان کے بعض قطعات نے تو صرف المثل کی حیثیت اختیار کی اور بعض کو آج بھی پڑھ کر لگتا ہے، جیسے ابھی لکھے گئے ہیں۔ سیاسی دھنگا مشتی سے انتخابات تک مہنگائی سے بے روز گاری تک، کرپشن سے عدالت تک، غرض ان کے قلم سے حالات حاضرہ کا کوئی واقعہ بچا ہو ۔بلا مبالغہ ان کے قطعات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ 

قطعات کے علاوہ شعر و شاعری بھی کی۔ کالم اور مضامین بھی لکھے لیکن وجہ شہرت قطعات بنی۔ رئیس امروہوی جب دہلی سے کراچی آئے تو جنگ نے 23اکتوبر1947 کواعلان شائع کیا کہ، رئیس امروہوی 18اکتوبر کو بذریعہ طیارہ کراچی تشریف لے آئے ہیں۔ آپ دفتر جنگ میکلوڈ روڈ، کراچی میں مقیم ہیں۔

اس اعلان کے بعد تیسرے دن رئیس امروہوی کا قطعہ جنگ کراچی میں شائع ہوا، اس کے بعد تادمِ مرگ یہ سلسلہ جاری رہا۔21 ؍اکتوبر 1947ء کو ان کا جنگ کراچی میں پہلا قطعہ بہ عنوان ’’جلا وطن‘‘ شائع ہوا۔ ذیل میں رئیس امروہوی کے چند قطعات آج کے تناظر میں پڑھیے۔

……٭٭……٭…

جلا وطن

رئیس راندۂ درگاہ و انجمن ہو کر

شکستہ پاوزبوں حال و خستہ بن ہو

الہٰی! صدقۂ ہجرت ہمیں گوارا ہو

وطن میں آئے ہیں اپنے جلاوطن ہو کر

21؍فروری 1948ء کو جذبۂ تخلیق کے عنوان سے قطعہ شائع ہوا۔

رخ اسلام پر اسلامیت کی شان پیدا کر

نئے مصر و عراق و ترکی و ایران پیدا کر

ابھی تک جذۂ تخلیق ہے کرم عمل تیرا

خود اپنی خاک سے تو اپنا پاکستان پیدا کر

15؍ستمبر1948کو قائد اعظم کی وفات پر قطعہ لکھا؎

حدود ہند سے اس ارض پاک میں ہم لوگ

جفائے غیر سے محفوظ ہونے آئے تھے

دیار قائداعظم میں آکے علم ہوا

کہ اپنے قائداعظم کو رونے آئے تھے

۲۳ مارچ (یومِ پاکستان پر)

اِک دورِ عمل کی ابتداء ہے

اِک دورِ عمل کی انتہا ہے

تاریخ شعور و ارتقاء ہے

تیئسویں مارچ اور کیا ہے

چار سو بیس

(۲۴ مارچ ۱۹۵۳)کمیشن کا قیام

کمیٹی یا کمیشن بھاگ ان سے

یہ سارے مشغلے ہیں کارِ ابلیس

کمیٹی چار سو اسیّ ہے اے دوست!

کمیشن کے عدد ہیں چار سو بیس (۴۲۰)

برگِ سبز( ۲۹ مارچ ۱۹۵۳)

جناب چیف کمشنر سے یہ گزارش ہَے

حضور آپ کی سر گرمیوں کے ہم قُربان

مگر توجہ عا لی سے ہے ابھی محروم

وہ بر گ سبز فقیروں کی جان یعنی پان

ردِّ بلا

(۳۰ مارچ ۱۹۵۳) سیاست کا مکرو فریب

ہے سیاست ایک دامِ مکرائے اہلِ وطن!

تم نہ آنا اُس کے چکّر میں خُدا کے واسطے

کُرسیوں جنگ کیا ہے اِ ک بلائے بے اماں

آیتہ الکُرسی پڑھو ردِّ بلا کے واسطے

خدا حافظ

(۳۱ مارچ ۱۹۵۳) خواجہ ناظم الدین

اپنے احکام کی تعمیل جو خود کر نہ سکے

ایسی ناکارہ حکومت کا خُدا حافظ ہے

گر یہی ناظم وتنظیم و نظامت ہے تو پھر

ناظم الدین وزارت کا خُدا

…٭…٭…٭…٭…

جوابِ شکوہ

۲۹ اپریل۱۹۴۸)حکومت پر تنقید

ہر ایک شخص کے لب پر سوال ہے کہ رئیس

نظام تازہ میں اقبال کی جگہ کیا ہے

نظام تازہ میں اقبال کا اثر ہے یہی

کہ قوم شکوہ، حکومت جواب شکوہ ہے

دل بدل جائیں

(۲مئی۱۹۴۸)کھوڑو حکومت

جو انقلاب کے جذبے سے آشنا نہ ہوئی

وہ قوم، جہد ترقی میں کامیاب نہیں

کمال یہ ہے کہ لوگوں کے دل بدل جائیں

وزارتوں کا بدلنا تو انقلاب نہیں

چار طبقے!

(۱۴ مئی ۱۹۴۸)حکم رانوں پر طنز

چار طبقے ہیں جو مل سکتے ہیں پاکستان میں

آپ کو ہو خواہ ان طبقوں سے کتنا ہی گریز

حاکمان بے لیاقت، عالمان بے عمل

رہبران بے تدبر، واعظان فتنہ خیز

ذرا بات کیجئے

(۱۵ مئی۱۹۴۸)حکومت پر طنز

مانا کہ میں ہوں خاک نشیں آپ ہیں وزیر

لیکن نہ مجھ سے ترک ملاقات کیجئے

جس نے دیا تھا ووٹ الیکشن میں آپ کو

سرکار! میں وہی ہوں ذرا بات کیجئے

ھوا ہی ھوا

(۱۶ مئی۱۹۴۸)دارالحکومت کراچی

ہوا ہم بہت باندھتے تھے یہاں کی

کراچی نہیں جنت ایشیا ہے

یہاں آکے ہم اس نتیجے پر پہونچے

کراچی کی یارو ہوا ہی ہوا ہے

یہ فریادیں

(مئی ۱۹۴۸)قائدِ اعظم سے شکایت

غریبوں کی فغاں ملت کے نالے فوم کی آہیں

برابر تم بھی سنتے ہو مسلسل ہم بھی سنتے ہیں

مگر یارو! ہمیں اس سلسلے میں پوچھنا یہ ہے

یہ فریادیں ہمارے قائد بھی سنتے ہیں؟

درد کے سامنے!

( مئی ۱۹۴۷) قائدِ اعظم پر مان

خانہ بربادی کا منظر ہے نظر کے سامنے

ہم یہاں بستر بچھائیں کس کے در کے سامنے

کون ہے ان کے علاوہ شہر میں پرسان حال

جا پڑیں گے قائداعظم کے در کے سامنے

وہ ہاتھ ہیں

(جون ۱۹۴۸) سیاست دانوں پر تنقید

ہم سے تم غافل نہ ہو اے رہ نمایان عوام

اب بھی لاکھوں سر پھرے انساں ہمارے ساتھ ہیں

تم ہمارے ہاتھ نخوت سے جھٹک سکتے نہیں

جو تمہارے حق میں اٹھے تھے یہی وہ ہاتھ ہیں

فلسطین چلو

(۱۲ جون ۱۹۴۸) مسئلہ فلسطین

پاؤں شل ہاتھ مفلوج مگر ضد یہ ہے

کبھی ایران کبھی روس کبھی چین چلو

دو قدم مار کے کشمیر تلک ہو آئیں

جو بصد جوش یہ کہتے فلسطین چلو

مگر بابو؟

(جون ۱۹۴۸) حکم رانوں پر تنقید

سنا یہ ہے کہ جن کے ہاتھ میں نظم حکومت ہے

مزے سے پائوں پھیلائے وہ اپنے گھر میں سوتے ہیں

مگر بابو! عدیم الفرصتی کا گلہ ہے جن کو

گھروں میں اونگتے رہتے ہیں اور دفتر میں سوتے ہیں

اسٹیٹ بینک(۱۸ جون ۱۹۴۸)

خود پہ خود نازاں ہو نظم مالیات

داد خود اپنے کو دے اسٹیٹ بینک

مملکت کا ناز اس کا افتتاح

ہے کوئی اسٹیٹ بے اسٹیٹ بینک

چینی کا بدل

( جولائی ۱۹۴۸) چینی کا بحران

او مرثیہ خوان قحط خوراک!

باتیں تری تلخ ھیں یقینی

شکر کے وجود میں نہ شک کر

چینی کا بدل ہے نکتہ چینی

جاسوس

( ۲۶ جولائی۱۹۴۸)حکمرانوں پر طنز

ایک حاکم سے کہا میں نے رئیس

دل بہت حالات سے مایوس ہے

شاید ان کے دل میں کوئی چور تھا

چیخ کر بولے کہ تو جاسوس ہے

نیا سال

(۳۱ جولائی۱۹۴۸)پاکستان کا پہلا سال

یہ اس صدی میں خود اپنی مثال تھا گویا

یہ سال، سال نشاط و ملال تھا گویا

یہ واقعہ ہے کہ پچھلی اگست سے اب تک

ہر ایک روز قیامت کا سال تھا گویا

حلال خور

۲۰ اگست ۱۹۴۸)دارالحکومت کراچی

حد سے گزر چکی ہے کراچی کی گندگی

یہ ذکر تھا کہ شہر کے مہتر ہے کام چور

میں نے کہا درست ہے لیکن خطا معاف

ہیں سلطنت میں آپ کی کتنے حلال خور

گھر ملتا نہیں

(۲۹ ستمبر ۱۹۴۸) رہائش کے مسائل

آج پاکستان پر طاری ہے اک گہرا سکوت!

آج پہلا سا کہیں بھی شورو شر ملتا نہیں

لیکن اس کے باوجود اتنی شکایت عام ہے

قوم کو گھر مل گیا لوگوں کو گھر ملتا نہیں

یو این او( ۲ اکتوبر۱۹۴۸)

سماجی زندگی میں بین الاقوامی تصور کی

یہی ہر دل عزیزی ہے تو وہ ساعت بھی آئے گی

کوئی شکوہ اگر بیوی کو ہوگا اپنے شوہر سے

براہ راست عرضی لے کے یو این او میں جائے گی

پیٹ (۲۶ نومبر ۱۹۴۸)

کل میں نے اک عزیز کو یہ مشورہ دیا

ملت کی ٹانگ پنجہ تدبیر سے گھسیٹ

بچنے کا شوق ہے تو حکومت کے بت کو پوج

پٹنے کا شوق ہے تو قیادت کا ڈھول پیٹ

روٹی، پانی

(۷ اپریل۱۹۴۹) کراچی کے مسائل

کراچی میں امیر و بے نوا درنوں ہیں آفت میں

سکون زیست دونوں کو بآسانی نہیں ملتا

غریبوں کے ہیں گھر خالی امیروں کے ہیں نل خالی

انہیں روٹی نہیں ملتی انہیں پانی نہیں ملتا

قائد اعظم کی رحلت پر چند قطعات

11ستمبر 1948 کو اس بطل جلیل نے سفرِ آخرت اختیار کیا جو ایک نئی مملکت ِ خداداد پاکستان کا بانی تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی عوام میں مقبولیت اس قدر بڑھی کہ لوگ انہیں ’’قائد اعظم ‘‘ کہنے لگے ۔ رئیس امروہوی بھی ان سے عقیدت رکھتے تھے، لہذااُن کے انتقال کے وقت اپنے قلبی احساسات کو مستقبل کے اندیشوں سمیت محض چار مصروں میں بیان کیا۔ کہتے ہیں:

انّا الیہ راجعون ( ۱۳ ستمبر ۱۹۴۸)

چھن گئے ہم سے ہمارے قائداعظم رئیس

کردیا دست اجل نے کتنی امیدوں کا خون

قوم کی رجعت پسندی کا سبب ثابت نہ ہو

قائداعظم کی موت انّا الیہ راجعون

رونے آئے تھے (۱۵ ستمبر۱۹۴۸)

حدود ہند سے اس ارضِ پاک میں ہم لوگ

جفائے غیر سے محفوظ ہونے آئے تھے

دیارِ قائداعظم میں آکے علم ہوا

کہ اپنے قائداعظم کو رونے آئے تھے

بہت سے لوگ (۲۶ ستمبر ۱۹۴۸)

بہت سے لوگ جدائی میں جان کھوتے ہیں

بہت سے لوگ اشک سے مژہ بھگوتے ہیں

مزار قائد اعظم پہ جا کے روتے ہیں

قائدِ ملت کی شہادت پر رئیس امروہوی کے قطعات 

لیاقت زندہ باد

گو لیاقت آج ملّت میں نہیں

جذبۂ بیدار مِلّت زندہ باد

غیر کہتے ہیں لیاقت مرگئے

قوم کہتی ہے ’’لیاقت زندہ باد‘‘

……٭٭……٭٭……

چند شخصیات کی وفات پر قطعات 

علامہ آرزو لکھنوی، ۱۹ اپریل ۱۹۵۱

آرزو از جہانِ فانی رفت

واصل خلد روح پاک شدہ

دل ز خاکش صدا شنید بہ ’وصل‘‘

’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘

مولانا حسرت موہانی، ۱۶ مئی ۱۹۵۱

کوئی نہ محرم روش گفتگو رہا

حسرت کی جاں فزا روش گفتگو کے بعد

کیوں کر نہ بزم مہر ومحبت ہو ’’بےمحب‘‘

حسرت کا بھی فراق ہوا آرزو کے بعد

مولانا ابوالکلام آزاد،۲۵ فروری ۱۹۵۸

اُف یہ مرے ابوالکلام آزاد

اے قیامت یہ کیا قیامت ہے

سال رحلت ’’غریقِ رحمت‘‘ ہے