• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ٹارزن کی کہانی‘‘’’جنگ‘‘ کا ایک انتہائی مقبول سلسلہ تھا۔ کل کے بچے جن میں سے کچھ کا آج بڑانام ہے، انھوں نے جنگ اخبار پڑھنے کا آغاز ہی ’’ٹارزن کی کہانی‘‘ سے کیا، ان میں غازی صلاح الدین بھی شامل ہیں، جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ٹارزن کی چھ قسط وار کہانیوں کے ساتھ، غازی صلاح الدین کا مضمون پڑھ کر آپ کو ٹارزن کی مقبولیت کا اندازہ ہوجائے گا اور آپ بھی ٹارزن کی واپسی کے خواہش مند ہوں گے۔

بھولی ہوئی یادوں کی چاپ

غازی صلاح الدین

معروف کالم نویس، دی نیوز کے سابق ایڈیٹر

غازی صلاح الدین
غازی صلاح الدین

پچھتر سال ۔ کسی ایک حافظے کی گرفت میں وقت کی یہ وسعت کیسے سمائے گی۔ ویسے بھی بہت پرانی یادوں کے اوراق دھندلاجاتے ہیں اور وہ لوگ جن کی طبیعی عمر یں پچھتر سال سے تجاوز کر چکی ہیں (اور آپ اسے خوش قسمتی سمجھیں یا نہ سمجھیں، میں بھی ان میں شامل ہوں) وہ بھی اپنے بچپن کی یادوں کو سنبھال کر نہیں رکھ پاتے۔ جوہوا تھا اورجوسوچا تھا آپس میں گڈمڈ ہوجاتے ہیں جو تصویریں ذہن میں بنتی ہیں ان کی صداقت مشکوک ہی اپنی ہے۔

یہ نمبر اس لئے کہ میرے بچپن کی یادوں میں اس اخبار کا ایک خاص حوالہ ہے۔ اوریہ شاید اکہتر بہّتر سال پہلے کی بات ہے اور ہاں، اگر ’’جنگ‘‘ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس کے گزشتہ تین چار دہائیوں میں بھی میرا اس تاریخ ساز اخبار سے ایک رشتہ رہا ہے۔ جنگ گروپ کے انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ کا پہلا ایڈیٹر بھی رہا ہوں۔ کبھی مختصر اور کبھی طویل وقفوں کیلئے اس کے ادارتی’’صفحے پرکالم بھی لکھے ہیں۔ صحافت کی آزادی اور اس کے پیشہ ورانہ مسائل کے بارے میں ہونے والی کئی عالمی کانفرنسوں میں جنگ گروپ کی نمائندگی بھی کی ہے اور یہ توقع جائز ہے کہ میں ’’جنگ‘‘ سے اپنی ماضی قریب کے رشتے کے کسی پہلو کو اجاگرکروں۔ شاعرانہ نہیں بلکہ بہت سنجیدہ گفتگو ہو۔

لیکن جب میں نے اپنے موضوع کے انتخاب کیلئے اپنے ذہن پر زور ڈالا تو کہیں سے بھولی ہوئی یادوں کی چاپ سنائی دی ۔ ’’جنگ‘‘ سے ایک ایسا کھویا ہوا موہوم رشتہ یاد آیاکہ جس کے بارے میں میں کہہ سکتا ہوں کہ اس کا میری زندگی کے سفر سے ایک ایسا تعلق ہے جس کی وضاحت ذرا پیچیدہ اور مشکل ہے۔ یہ بات بھی بتانے کی ہے کہ اس تعلق کی اہمیت مجھ پر بہت عرصے بعد عیاں ہوئی۔ اس وقت جب میں نے بچوں کی پرورش کے عمل میں داستانوں اور طلسماتی کہانیوں کی اہمیت کو سمجھا اور جب بھی موقع ملا اس پر گفتگو کی۔ یعنی ابتدائی تعلیم اگر خواب دیکھنا، سکھائے تو وہ ادھوری ہے۔

یہاں تک پہنچ کر اب مجھ پر یہ لازم ہے کہ میں ’’جنگ‘‘ سے اپنے بچپن کے تعلق کو کھل کر بیان کروں تو جناب اس تعلق کا عنوان ہے۔’’ٹارزن کی کہانی‘‘ جس بچپن کی میں بات کر رہا ہوں وہ تقسیم کے خونریز انتشار کا دور تھا۔ ہمارے خاندان کو کراچی میں جہانگیر روڈ کے ادھ بنے کوارٹرز میں پناہ ملی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ محرومی اور مشکلات اور بے یقینی کے سائے میں پلنے والا ایک بچپن تھا۔ انجانے خوف راتوں کوجگاتے تھے۔

ان دنوں ’’مجھے یاد ہے‘‘ میں نے کسی بچے کے پاس ایک اخبار کا وہ صفحہ دیکھا جس پر ٹارزن کی کہانی کی ایک قسط شائع ہوئی تھی۔ اُردو پڑھنا مجھے آچکی تھی۔کسی اسکول میں داخلہ شاید ابھی نہیں ہوا تھا۔ ایک مٹی مٹی سی تصویر میرے ذہن میں ہے۔ اس بچے نے مجھے سمجھایا کہ کہانی کیسے ہر روز آگے بڑھتی ہے ہاتھ سے بنی ہوئی ان تصویروں کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے ان میں جان آگئی ہو۔ 

ٹارزن، گھنے جنگل، ایک اور ہی دنیا۔ مجھے لگا کہ وہ بچہ جس کے پاس وہ اخبار تھا اور جو روز ٹارزن کی کہانی پڑھتا تھا مجھ سے بہت زیادہ خوش نصیب ہے۔ جیسے اس کے پاس کوئی خاص علم ہو جس تک میری پہنچ نہ ہو۔ میرے لئے جیسے وہ ایک دولت تھی جسے حاصل کرنے کی میرے دل میں ایک تڑپ پیدا ہوگئی۔

کچھ کچھ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے یہ فرمائش کی کہ ہم وہ اخبار لگوالیں جس میں ٹارزن کی کہانی شائع ہوتی ہے تو فوری ردعمل انکار کا تھا۔ جب گھر کا خرچ مشکل سے چلتا ہو تواخبارخریدنا عیاشی سمجھا جائے گا۔ اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اخبار پڑھنے کی ضرورت یا شوق کا ان دنوں کیا عالم تھا۔ آج کل تو جو دکھ سب سے زیادہ مجھے تنگ کرتے ہیں ان میں سے ایک ہمارے معاشرے میں مطالعے کے شوق کی کمیابی ہے اور صورتحال میری نظر میں تشویشناک ہے۔

اخبارات کی اشاعت میں کمی کی دوسری کتنی ہی وجوہات کیوں نہ ہوں، جس تہذیبی اور تعلیمی پسماندگی سے ہمارا سابقہ پڑا ہے اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

بہرحال ، مجھے اپنی ضد یاد ہے اور اس کا پورا ہونا میرے والدین کی اس نرم دلی اور برداشت کا ایک ثبوت تھا کہ جس نے ہم بہن بھائیوں کو بگاڑا بھی اور بنایا بھی۔ اس وقت ’’جنگ‘‘ اخبار میرے لئے صرف ٹارزن کی کہانی تھا۔ میں اس میں کھو جاتا تھا۔ یہ تو مجھے اب معلوم ہے کہ کہانیاں کیسے تخیل اور قوت تخلیق کی آبیاری کرتی ہیں۔ سو میرے لئے اس سفر کاآغاز ’’جنگ‘‘ کی اس وقت کی ٹارزن کی کہانی سے ہوا۔ یہ سلسلہ ظاہر ہے کہ باہر، کسی غیر ملکی اخبار یا اشاعتی ادارے سے لیاگیا تھا۔ اب اگر میں اسے دیکھوں تو وہ مجھے بہت معمولی اور شاید طفلانہ لگے اور طفلانہ تو اسے ہونا ہی تھا کیونکہ وہ تھا ہی بچوں کے لئے۔ 

یہ دوسری بات ہے کہ آج کے زمانے کے بچوں کی دسترس میں بڑھے اور دیکھنے کے لئے جو مواد ہے وہ خواب کی مانند بہت زیادہ وسیع اور متنوع ہے۔ میںاپنے بچپن کی بات کر رہا ہوں اور ان حالات کی جن میں یہ بچپن گزارا۔ تب میرے لئے ٹارزن کی کہانی یوں کہیے کہ الہٰ دین کا چراغ تھی۔ کم سے کم میں اسے ایک ایسی روشنی توکہہ سکتا ہوں جس نے میری نظروں میں ایک نئی راہ اجاگر کی۔ ٹارزن کی کہانی کے ساتھ اخبار گھر میں آیا۔ اخبار کے ساتھ باہرکی دنیا سے تعارف شروع ہوا۔ پڑھنے کی عادت کا آغاز ہوا۔ مجھے یاد نہیں کہ کتنے دن لگے لیکن جلد ہی بچوں کے رسالے کہیں نہ کہیں سے ملنے لگے۔ اور پھر ’’جنگ‘‘ اخبار ہی میں بچوں کے صفحے سے تعارف ہوا۔

یہ ٹارزن کی کہانی کے چند سال بعد کی کہانی ہے کہ میں نے ’’جنگ‘‘ کے بچوں کے صفحے پر اپنا کام چھپا ہوا دیکھ کر اپنے جسم میں وہ سنسنی محسوس کی جس سے میں آشنانہ تھا۔ یہ ’’جنگ‘‘ سے میرے تعلق کا اگلا باب ہے اور اس کا الگ سے تذکرہ بھی ممکن اور مناسب ہو سکتا ہے۔ بچوں کے صفحے کے لئے میں نے کئی مضامین لکھے۔’’جنگ‘‘ کی اس خصوصی اشاعت میں اخبار کے ’’نونہال‘‘ شعبے سے اپنے تعلق پر کچھ لکھنا شاید زیادہ مناسب ہوتا۔ 

اپنی کالم نگاری بھی ایک موضوع بن سکتی تھی اور اس طرح ان موضوعات اور خیالات کا تکرار کا موقع بھی مل جاتا جس کا اظہار میں اپنا مشن سمجھتا ہوں۔ لیکن یہ سوچنے کہ اگر ملک کا اُردو کاسب سے بڑا اخبار اپنی پوری زندگی کا حساب کرے بیٹھے تو کتنی لاتعداد بے شمار صحافتی اور ادبی ہستیاں کہ جو اس ملک کا اثاثہ ہیں لاحق پرنمودار ہو جائیں۔ اور یہ اشاعت اسی کہکشاں سے سجی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگراس رنگارنگ گلدستے میں مجھے اور میری ٹارزن کی کہانی کو بھی چھوٹی سی جگہ مل جائے تو میں ایک مکمل اخبار کی وسیع مملکت کی سرحدوں پر ہی ایک نظرڈال سکوں۔

کہنے کی بات یہ ہے کہ ایک بڑا اخبار جس کے پڑھنے والے مختلف حلقوں اور سماجی اور تہذیبی حصوں میں مختلف درجات سے تعلق رکھتے ہوں وہ انفرادی زندگیوں کو مختلف انداز میں چھو سکتا ہے۔ کسی کوخبر نہیں ہوتی کہ اس اخبار کی کونسی تحریر ، کونسی تصویر کس کے ذہن سر اور کس کے دل پر اپنی مہر ثبت کر سکتی ہے۔ کونسی بات کسی کی سوچ کو بدل سکتی ہے اور اس کے صفحات میں پوشیدہ پیغام یا اشارے اکثر انجانے میں کیسے جواب اور کئی خواہشات بیدار کرسکتے ہیں۔

آخر میں ہیں یہ بات دوہرائوں گا کہ گو میں نے ’’جنگ‘‘ اخبار کو اس حیرت انگیز ارتقائی مراحل سے گزرتے دیکھا ہے اور میری اس اخبار سے وابستگی کے کئی پہلو ہیں لیکن میں اس رشتے کی معنویت کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں جو اس وقت قائم ہوا جب میرے اور’’جنگ‘‘ دونوں کے بچپن کے دن تھے۔